تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     11-07-2025

صحابہ کرام اور اہلِ بیت

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘ جس پر چاہے انڈیل دے۔ بھارت کے شہر اعظم گڑھ کے ایک برہمن ہندو خاندان کا ایک لڑکا مسلمان ہوا ۔ کچھ عرصہ اپنے ایمان کو چھپائے رکھا۔ اسی دوران میٹرک کر لیا مگر جب گھر والوں پر اس کا اسلام ظاہر ہو گیا تو مصیبتوں کے دور کا آغاز ہو گیا۔ وہ گھر سے نکلا اپنے شہر سے دور‘ ایک مدرسے سے درسِ نظامی کیا پھر مدینہ یونیورسٹی پہنچ گیا۔ جب وہاں سے حدیث شریف میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تو وہیں شعبہ حدیث کا ڈین بن گیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس عالم نے تمام صحیح السند احادیث کو ایک جگہ جمع کر کے گیارہ جلدوں کی ایک کتاب مرتب کر ڈالی۔ اس کام میں انہیں 17 سال لگ گئے۔ ان سترہ سالوں میں انہوں نے تمام سماجی رابطے ختم کر دیے۔ یہ کتاب چھپ کر افتتاح کے مرحلے میں داخل ہوئی تو گیارہ علماء کو ایک ایک جلد ہاتھ میں تھما کر افتتاح کروایا گیا۔ دارالسلام کا یہ کارنامہ تھا۔ مولانا عبدالمالک مجاہد کو اللہ خوش رکھے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک جلد مجھے پکڑا کر اس مبارک قطار کے اندر کھڑا کر دیا۔ اس کتاب کا نام ''الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل‘‘ ہے۔ اس کے مرتب فضیلۃ الشیخ محمد عبداللہ (ضیاء الرحمن) الاعظمیؒ ہیں۔ ہمارے قاری محمد یعقوب بھی ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
اس کتاب کی نویں جلد کا تیسرا حصہ صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے فضائل سے متعلق ہے۔ اس میں پہلی حدیث حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا‘ لوگوں میں سے ایک لشکر جہاد کو نکلے گا تو کہا جائے گا: کیا تم لوگوں میں اللہ کے رسولﷺ کا کوئی صحابی ہے؟ تو کہا جائے گا: ہاں! اس صحابی (کی برکت سے) فتح مل جائے گی۔ پھر ایک زمانہ آئے گا تو پوچھا جائے گا: تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اللہ کے رسولﷺ کے کسی صحابی کے ساتھ رہا ہو (علم سیکھا ہو) تو کہا جائے گا: ہاں! چنانچہ فتح مل جائے گی۔ اسی طرح پھر تبع تابعی کا پوچھا جائے گا تو فتح مل جائے گی۔ (بخاری ومسلم) جی ہاں! مسلمان اڑھائی صدیوں تک فتح در فتح حاصل کرتے رہے اور دنیا کی واحد سپر پاور بن گئے۔ بخاری ومسلم کی ایک حدیث کا اختصار یوں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ''میں حوض (کوثر) پر تمہارا انتظار کروں گا۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اپنا حوض دیکھ رہا ہوں‘‘۔ یہ پیغام صحابہ کرامؓ کے ذریعے پوری امت تک ہے کہ باہم لڑنے سے بچتے رہنا اور حوضِ کوثر پر میرے ہاتھوں سے جام پینے کی تیاری کرکے آنا۔ اے اہلِ اسلام! آئیے! حوضِ کوثر پر جام کی تیاری کریں۔ بخاری ومسلم میں ہے ''میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہنا‘‘۔ صحیح بخاری میں ہے: اللہ کے رسولﷺ کعبۃ اللہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے تو عقبہ بن معیط آیا اور اس نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر آپﷺ کا گلا گھونٹا۔ حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے اور اسے دھکا دیا۔ ساتھ قرآن مجید کی آیت پڑھتے ہوئے کہا ''تم ایسی ہستی کو شہید کرنے کے درپے ہو جو یہ دعوت دیتے ہیں کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل آ چکے ہیں‘‘۔ بخاری و مسلم میں ہے ''اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عمرؓ کا محل جنت میں دیکھا‘‘۔ ترمذی کی حدیث میں ہے: جنگ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان غنیؓ نے سونے کی اشرفیاں حضورﷺ کی جھولی میں ڈال کر اسے بھر دیا تو حضورﷺ فرمانے لگے: اے عثمان! اس کے بعد آپ کوئی عمل نہ کرو تب بھی آخرت کے اجر میں کوئی کمی نہ ہو گی‘‘۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ ''ایک دن عثمان مظلوم شہید ہو گا‘‘۔ امام مسلم فضائل صحابہ میں حدیث لائے ہیں کہ ''اللہ کے رسولﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی المرتضیٰؓ کو اپنا قائم مقام بنایا تو حضرت علی المرتضیٰؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے (جہاد پر ساتھ لے جانے کے بجائے) عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تو حضورﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہارا میرے ہاں وہی مرتبہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاں حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا۔ ہاں! یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ اسی طرح خیبر کے دن حضورﷺ نے حکم دیا کہ علی کو بلا کر لائو۔ وہ آئے تو آنکھوں میں آشوب تھا۔ حضورﷺ نے دونوں آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک لگایا اور جھنڈا ان کے حوالے کر دیا۔ اللہ نے فتح عطا فرمائی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ''آپ کہہ دیجئے: آئو! ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں‘ تم اپنے بیٹوں کو بلائو... (آلِ عمران: 61)‘‘ تو اللہ کے رسولﷺ نے حضرت علی‘ حضرت فاطمہ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا اور اللہ کے حضور یوں کہا: اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
قارئین کرام! یاد رہے اہلِ بیت کا اپنا مقام بطور اہلِ بیت بھی ہے اور وہ صحابہ کرام میں بھی شامل ہیں۔ سورۂ احزاب میں آیتِ تطہیر اہلِ بیت کے بارے میں ہے۔ ازواجِ مطہرات بھی اہلِ بیت ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق امہات المومنین دنیا سے تشریف لے گئیں تو پھر قیامت تک کیلئے آل ابی طالب اہلِ بیت ہیں۔ سرفہرست حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی اولاد ہے۔ طبرانی کبیر میں حسن سند سے روایت ہے کہ ایک مجلس میں دس صحابہ کرام کو حضورﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ 1: حضرت ابوبکر صدیقؓ۔ 2: حضرت عمر فاروقؓ۔ 3: حضرت عثمان غنیؓ۔ 4: حضرت علی المرتضیٰؓ۔ 5: حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ۔ 6: حضرت زبیرؓ بن عوام۔ 7: حضرت سعدؓ بن ابی وقاص۔ 8: حضرت سعیدؓ بن زید۔ 9: حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف۔ 10: حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح۔ صحیح بخاری میں ہے: اللہ کے رسولﷺ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو (جب وہ بچے تھے) گود میں لے کر بیٹھے تھے اور کہا: اے اللہ ان دونوں سے محبت کر لے کیونکہ مجھے یہ دونوں ہی محبوب ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے: اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار بندوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسولﷺ! ان کے نام تو بتا دیجئے۔ فرمایا: علی‘ ابوذر‘ مقداد اور سلمان رضی اللہ عنہم۔ قارئین کرام ! غور فرمائیں۔ حضرت اسامہؓ ایک غلام کے بیٹے ہیں اور باقی چاروں زُہد اور فقر میں لاجواب ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی خلافت کے اپنے ادوار میں زُہد اور فقر میں لاجواب تھے مگر حضورﷺ کی مبارک زبان سے سب کے بارے میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی بیان ہوئی جو دیگر خوبیوں پر غالب تھی‘ وگرنہ سب ہی ہیرے جواہرات تھے۔
ترمذی کی حسن روایت میں حضرت خیثمہؓ روایت کرتے ہیں کہ: حضرت سعدؓ بن مالک جو دعا کرتے تھے وہ قبول ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود حضورﷺ کو وضو کراتے اور آپﷺ کے نعلین مبارک اٹھاتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ بن یمان حضورﷺ کے راز دان تھے جبکہ حضرت عمارؓ وہ صحابی ہیں کہ جنہیں اللہ نے اپنے رسولﷺ کی زبان مبارک سے شیطان سے محفوظ و مامون بنا دیا۔ حضرت سلمانؓ فارسی دو کتابوں والے تھے۔ پہلے انجیل پر ایمان لائے اور پھر اسلام قبول کرکے قرآن مجید پر ایمان لائے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہرؓ تھے۔ وہ اپنے گائوں سے حضورﷺ کے لیے ہدیہ لاتے تھے۔ جب وہ واپس گائوں جانے لگتے تو حضورﷺ انہیں شہر کا کوئی تحفہ دیتے اور فرماتے: یہ ہمارا گائوں ہے‘ ہم اس کا شہر ہیں۔ قارئین کرام! میں نے مؤلف کی ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے کئی کئی ورق الٹ کر صحابہؓ کا تذکرہ کیا ہے۔ صفحہ 205 سے 319 تک فضائل صحابہؓ کا ذکر ہے۔ صفحہ 258 سے ایک حدیث پر بات ختم کرتا ہوں۔ بزّار کی حسن روایت میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حضرت معاویہؓ کی جانب بھیجا‘ وہ حضورﷺ کے کاتب تھے۔
اے اللہ! ہمیں تمام صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت اطہارؓ کی محبت عطا فرما‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved