بیٹی کی لاش دس ماہ بے گور وکفن پڑی رہی۔ ٹی وی پر خبر چلی تو خاندان کو معلوم ہوا۔ بھائی لاش وصول کرنے پر رضامند تو ہوئے مگر مشکل کے ساتھ۔
ماں کی روح جسدِ خاکی کو الواداع کہہ گئی مگر سات دن تک بچوں کو خبر نہ ہو سکی۔ تعفن نے اہلِ محلہ کو اطلاع دی تو انہیں بھی خبر ہوئی۔
ذرا ٹھیریے! یہ ماں اور بیٹی کسی صحرا یا ویرانے میں آباد نہیں تھیں‘ بھرے شہر کی مکین تھیں۔ اڑوس پڑوس تھا‘ محلہ تھا‘ ملنے جلنے والے تھے۔ ساتھ کام کر نے والے تھے۔ کسی کو خبر نہ ہو سکی کہ یہ تنہا ہیں۔ یہ تنہائی ان کے وجود میں پھیلتی رہی۔ اس کا تنا بنا‘ شاخیں اُگیں‘ یہاں تک کہ اس کی جڑیں پورے وجود میں پھیل گئیں‘ سرطان کی طرح۔ یہ سرطان لاعلاج ہوا اور جان لے کر ہی رہا۔ افراد کی موت کبھی سماج کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔
یہ دونوں شو بزنس سے وابستہ تھیں۔ ان کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کتنی مائیں اور بیٹیاں ہیں جو اسی طرح رزقِ خاک ہو جاتی ہیں اور ہم تک ان کی خبر نہیں پہنچتی۔ اگر میں یہ کہوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ اس سے ملتی جلتی کہانیاں گلی گلی پھیلی ہیں۔ رشتے سسک رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ جو بظاہر زندہ ہیں‘ وہ بھی اذیت خانوں کے مکیں ہیں۔ لوگ ساتھ رہتے تو ہیں مگر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میاں بیوی نر اور مادہ کے طور پر‘ ایک ساتھ سوتے اور بچے پیدا کرتے ہیں لیکن کبھی ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے۔ ان کے درمیان میلوں فاصلہ ہوتا ہے جو تادمِ مرگ قائم رہتا ہے۔
یہ اُس مرض کے نتائج ہیں جو ہمارے خاندانی نظام کو لاحق ہے۔ حادثے پر حادثہ یہ ہے کہ ہمیں اس کی خبر نہیں۔ مذہبی طبقات ہیں تو انہیں اس کی پریشانی ہے کہ کہیں ریاست شادی کی عمر طے نہ کر دے۔ کم سن بچوں کی شادیوں پر کوئی قدغن نہ لگ جائے۔ لبرل طبقے کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ خاوند بیوی پر کیوں حکم چلاتا ہے۔ وہ 'آزاد‘ زندگی کیوں نہیں گزار سکتی۔ دونوں کی کھینچا تانی میں خاندان بکھر رہا ہے۔ دونوں کو اس پر کوئی تشویش نہیں کہ خاندان بکھر جائے تو سماج کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ہم تہذیبوں کے سنگم پر کھڑے ہیں۔ کچھ باتوں کو ہم نے شوق سے اپنا لیا ہے اور کچھ بالجبر ہم پر مسلط ہو گئی ہیں۔ دونوں کے پس منظر میں مقامی معاشرتی ضروریات کا کوئی شعور موجود نہیں۔ ہماری پرانی نسل کی اکثریت کو یہ اندازہ نہیں کہ نئی نسل کے مطالبات کیا ہیں۔ نئی نسل کو یہ معلوم نہیں کہ ان کی تہذیب کیا ہے اور سماجی تشکیل میں ا س کی کیا اہمیت ہے۔ نئی نسل کے نمائندہ لڑکے کو اپنے لیے آزادی چاہیے مگر اسے اپنی بہن کے لیے یہ آزادی گوارا نہیں۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ اس پیکیج میں انتخاب نہیں ہے۔ عام شہری یہ چاہتا ہے کہ وہ نیویارک اور لندن جا آباد ہو مگر اس کے بچے یہاں رہ کر بھی جنید بغدادی بنیں۔ بیٹی تو لازماً رابعہ بصری ہو۔ جب وہ نہیں بن پاتی تو وہ اسے حیلے بہانے سے پاکستان لاتا اور لوگ اگلے دن اس کی موت کی خبر سنتے ہیں۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ ڈکیتوں نے قتل کر ڈالا۔ کبھی اعلان ہوتا ہے کہ خودکشی کر لی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ڈکیت باہر سے نہیں آیا تھا۔ سب کو علم ہوتا ہے کہ ہنستی کھیلتی بچی اپنی جان نہیں لے سکتی۔
آج خاندان اور نسل کو بچانے کے لیے ایک بڑی کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کوشش میں اہلِ مذہب ہوں یا لبرل‘ سب کو مل کر شریک ہونا ہے۔ مقامی لبرل طبقے کی اکثریت‘ میرا تاثر یہ ہے کہ خاندان کے ادارے پر یقین رکھتی ہے۔ بنیادی اخلاقیات کے ماخذ کے بارے میں اہلِ مذہب سے اختلاف رکھتی ہے لیکن ان اقدار کا انکار نہیں کرتی جو سماج کی ساخت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے سب کو ایک دوسرے سے محاذ آرائی کرنے کے بجائے خاندان کے ادارے کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیا اس میں کسی کو اختلاف ہے کہ بچوں کے اخلاق پاکیزہ ہوں؟ کیا جنسی رویوں کے بارے میں آگاہی دیے بغیر یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟ جب نہیں حاصل ہو سکتا تو ایسی تعلیم پر جھگڑا کیوں ہوتا ہے؟ اگرمحض طریقہ کار پر اختلاف ہے تو یہ لاینحل مسئلہ کیوں ہے؟
اسی طرح اگر نئی نسل کے لوگ اپنی پسند کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو پرانی نسل ان کو اپنی خواہش کا پابند کیوں بنانا چاہتی ہے؟ اگر وہ عاقل وبالغ ہو کر اپنی مرضی سے کہیں شادی کرنا چاہتے ہیں تو یہ نسل رکاوٹ کیوں بنتی ہے؟ نئی نسل اگر فیصلے کی آزادی چاہتی ہے تو اسے اس کے نتائج کا بوجھ اٹھانے کے لیے بھی آمادہ رہنا چاہیے۔ کہنا یہ ہے کہ دونوں نسلوں کو اور مختلف مکاتبِ فکر کو مل کر اور عقلی وشعوری بنیادوں پر ان مسائل کو مخاطب بنانا چاہیے جو خاندان کے ادارے کو برباد کر رہے ہیں۔ جو رشتوں کو ان کے تقدس سے محروم کر رہے ہیں۔
جس بیٹی اور جس ماں نے تنہائی میں موت کو گلے لگایا‘ ان کی موت کے پیچھے بلاشبہ خاندانی نظام میں در آنے والا مرض ہے۔ بیٹی کے والد اور بھائیوں نے بے اعتنائی برتی تو اس کا سبب باہمی تعلقات کا نہ ہونا ہے۔ باپ ایسا شقی القلب کیوں ہوا؟ اس کی وجہ جو بھی ہو‘ یہ خاندانی نظام کی ناکامی کا اظہار ہے۔ ماں اگر تنہائی میں مر گئی تو بیٹوں کی یہ لاتعلقی تربیت کی کمی کا حاصل ہے یا مادی فکر کا نتیجہ۔ ماں نے کیا کل بچوں کو سکھایا تھا کہ خاندان کیا ہوتا ہے‘ تہذیب کس کا نام ہے‘ رشتے کیوں ہوتے ہیں اور ان کا احترام کیوں کرنا چاہیے؟ کیا اس نے بتایا تھا کہ اچھا انسان بننا کتنا ضروری ہے؟
تربیت ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں ہے۔ والدین بچوں کی اخلاقیات سے لاتعلق ہیں۔ انہیں صرف اس بات کی فکر ہے کہ وہ پیسے کمانے والی مشین بن جائیں۔ یہ مشین اگر جذبات سے عاری ہے تو پھر گلہ مشین سے نہیں کرنا‘ مشین بنانے والے سے کرنا چاہیے۔ ایک والد اگر کل بیٹی کی تربیت سے غافل رہا تو آج اس کی لاش سے لاتعلق ہو کر اسے نمائشی غیرت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ آج والدین اور اساتذہ نے بچے کے مستقبل سے کھیلنے کا متفقہ فیصلہ کر رکھا ہے۔ والدین کو اخلاقیات کی فکر نہیں۔ استاد بھی صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کے مضمون کا نتیجہ اچھا ہے یا برا۔ رہا بچے کی اخلاقیات تو یہ والدین کا مسئلہ ہے نہ استاد کا۔
ترقی یافتہ دنیا اپنی اقدار کے مطابق بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ کھانے سے لے کر باہمی تعلقات تک‘ آداب سکھائے جاتے ہیں۔ کہاں شکریہ ادا کرنا ہے‘ کہاں معذرت کرنی ہے‘ یہ سب آداب تعلیم کا مستقل حصہ ہیں۔ ہم جس خاندانی روایت پر فخر کرتے ہیں‘ یہ بھی تربیت ہی سے مستحکم ہوئی تھی۔ سماج کو اس کی فکر تھی‘ اس لیے یہ روایت زندہ رہی۔ آج لوگ عالم بن جاتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اختلاف کے آداب کیا ہیں۔ یہ تعلیم اور تربیت میں طلاق کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ہمیں مل کر خاندان کے ادارے کو بچانا ہو گا۔ بیٹی اور ماں کی المناک اموات دراصل یاددہانی ہے کہ ہم اپنی سماجی ذمہ داریوں سے غافل ہیں اور ہمارا خاندانی نظام بکھر رہا ہے۔ اس کو منضبط کرنے کے لیے ہمیں اپنے نظامِ اقدار کے بارے میں فکرمند ہونا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved