حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ اردو زبان کا ایسا محاورہ ہے جو کبھی بھی مثبت حوالے سے ذہن میں نہیں آتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک طنزیہ محاورہ ہے جو پرائے مال پر سخاوت جیسی صورتحال کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ فی الحال روئے ارض پر اس کا سب سے زیادہ اور برق رفتاری سے جو استعمال پنجاب میں ہو رہا ہے اس کی مثال مملکت خداداد پاکستان کی 78سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ویسے تو یہ حرکت اس ملک کے سیاسی منظر نامے میں کوئی نئی نہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں مگر پنجاب کے حکمرانوں نے اپنے ہی بزرگوں کی روایات کو اس تیزی اور پھرتی سے آگے بڑھایا ہے کہ پہلے سے قائم شدہ خاندانی ریکارڈ کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔
قارئین! معاف کیجئے گا! مجھے اس تحریر کے دوران ہی ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا‘ اور اب اس عمر میں یادداشت کا یہ عالم ہوتا جا رہا ہے کہ کسی بات کو تھوڑی دیر کیلئے ٹال دوں تو وہ ذہن سے نکل جاتی ہے‘ اس لیے میں نے یادداشت پر بھروسہ کرنے یا اسے آزمائش میں ڈالنے کے بجائے مناسب سمجھا ہے کہ پہلے لطیفہ بیان کر دوں۔ کالم کا کیا ہے‘ اس کا سلسلہ میں دوبارہ وہیں سے جوڑ لوں گا جہاں سے ٹوٹے گا۔ قلم ہاتھ میں ہے اور کاغذ سامنے پڑا ہے جبکہ کمبخت لطیفہ تو صرف خیال میں ہے‘ اس لیے پہلے اس سے نبٹ لوں۔ ممکن ہے جسے میں لطیفہ سمجھ رہا ہوں وہ اصلی واقعہ ہی ہو‘تاہم میں احتیاطاً اسے لطیفے کے طور پر ہی لے رہا ہوں۔
کسی بندے نے عنایت حسین بھٹی مرحوم سے انٹرویو کے دوران یہ پوچھا کہ آپ کا پسندیدہ اداکار کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ برصغیر میں بڑے بڑے اداکار پیدا ہوئے ہیں جن میں دلیپ کمار بھی شامل ہیں لیکن جو بات کیفی صاحب کی ہے وہ کسی اور میں نہیں(یاد رہے کہ اداکار کیفی مرحوم عنایت حسین بھٹی کے چھوٹے بھائی تھے)۔ اسی طرح کسی نے جب اداکار کیفی مرحوم سے ایک انٹرویو کے دوران سب سے بڑے گلو کار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ برصغیر کی سازو آواز کی دنیا میں بڑے غلام علی خان‘ سہگل اور محمد رفیع صاحب بہت بڑے نام ہیں مگر جو سُر بھا عنایت کے گلے میں ہے وہ کسی میں نہیں۔ یہی حال اس وقت حکومت پنجاب کا ہے اسکے سارے ترقیاتی کاموں‘ تعمیراتی منصوبوں اور سرکاری خرچے پر بننے والے ہسپتالوں‘ کھیل کے میدانوں‘ انڈر پاسوں، فلائی اووروں‘ سڑکوں‘ کالجوں‘ پھل کے ٹھیلوں‘ سبزی کے کھوکھوں‘ کوڑے کے کنٹینروں‘ الغرض ہر اس جگہ پر جہاں چار چھ انچ کی بھی خالی جگہ میسر ہو خود وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف اور ان کے والد گرامی سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف‘ جو آج کل خالی خولی ایم این اے ہیں‘ کے نام نامی سے مزین کی جا رہی ہے۔
چودھری پرویزالٰہی نے ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے چودھری پرویزالٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کیا تو اس عاجز نے اس پر بھی سوال اٹھایا کہ سرکار کے خزانے سے صرف کردہ رقم سے تعمیر ہونے والا یہ ہسپتال دراصل عوام کے ٹیکسوں سے وصول کردہ رقم سے بنایا گیا ہے تو اسے وزیراعلیٰ کے نام سے منسوب کرنے کا کیا جواز ہے؟ لیکن یہ تو ایک مثال تھی جو ملتان میں واقع ہونے کی وجہ سے اس ملتانی کو یاد رہی‘ وگرنہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی بڑی ''انّی‘‘ پڑی ہوئی تھی۔ سرگودھا میں گورنمنٹ میاں نوازشریف کالج بن گیا۔ سیالکوٹ میں گورنمنٹ میاں نوازشریف گرلز ڈگری کالج بن گیا۔ انکی دیکھا دیکھی منڈی بہاء الدین میں گورنمنٹ نوازشریف ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین بھی وجود میں آ گیا۔ چودھریوں کے منہ کا مزہ خراب کرنے کی غرض سے گجرات میں میاں نوازشریف میڈیکل کالج بنا دیا گیا۔
پھر ملتان کی باری آ گئی اور یہاں اکٹھی دو یونیورسٹیاں؛ ایک محمد نوازشریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور دوسری نوازشریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر بنا دی گئیں۔ یہ ان کے برادرِ خورد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے سرکار کے خرچے سے بنا کر اپنے برادرِ بزرگ کے نام منسوب کر دیں۔ اسی دوران انہوں نے ملتان میں ایک عدد شہبازشریف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنا کر خود کو بھی ملتان میں مستحکم فرما دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قصور‘ راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں اپنے نام کے سپورٹس کمپلیکس بھی بنوا ڈالے۔ میں بھول نہ جائوں‘ اسی دوران پنجاب کی تاریخ کے سب سے ہونہار اور عالی دماغ وزیراعلیٰ اور میرے یونیورسٹی فیلو جناب سردار عثمان بزدار نے ڈیرہ غازیخان میں بننے والے دل کے ہسپتال کا نام اپنے والد سردار فتح محمد خاں کے نام پر رکھ کر شہیدوں کی فہرست میں اپنے خاندان کا نام بھی شامل کروا لیا۔
اس قسم کے شوق اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بلامقابلہ رکن اسمبلی بننے کیلئے لاڑکانہ سے اپنے خلاف جماعت اسلامی کے امیدوار قومی اسمبلی جان محمد عباسی کو اغوا کروا کر اپنی مقبولیت کو بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعزاز بخشوایا‘ ان کی دیکھا دیکھی ملتان سے ان کے وزیراعلیٰ نواب صادق حسین قریشی نے اپنے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار نشتر میڈیکل کالج کے طالب علم اور سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری میاں احسان باری کو بذریعہ پولیس اٹھوا کر اپنے قائد کی سنت پر عمل کیا اور بلامقابلہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ بڑے بڑے لیڈروں کی دیکھا دیکھی چھوٹے موٹے لیڈروں نے بھی سرکاری کھاتے میں بننے والی ترقیاتی سکیموں‘ پارکوں‘ سڑکوں اور چوکوں کے نام اپنے یا اپنے بزرگوں کے ناموں پر رکھنے کی روایت پر عمل شروع کردیا۔
ملتان میں اس روایت کے آغاز کا سہرا سابق وزیر اور پیپلزپارٹی کے رہنما ملک مختار اعوان کے سر جاتا ہے‘ جنہوں نے ملتان کے قدیمی فوارہ چوک کا نام اپنے برخوردار کے نام پر گلریز چوک رکھا۔ بعد میں ملتان کے عامر ڈوگرنے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے اپنے دادا ملک عبداللہ ڈوگر‘ والد صلاح الدین ڈوگر‘ چچا لیاقت ڈوگر‘ دوسرے چچا شوکت ڈوگر اور بھائی عمران ڈوگر کے نام پر شہر کے پانچ عدد پارک اور ایک چوک منسوب کر دیا۔ لیہ میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کا کیمپس قائم ہوا تو وہاں کے رکن صوبائی اسمبلی ملک اعجاز اُچلانہ نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر بہادر کیمپس رکھوا لیا۔
لیکن اب پنجاب میں دو ناموں پر مشتمل تعلیمی اداروں‘ سڑکوں‘ فلائی اووروں‘ ہسپتالوں‘ انڈر پاسوں اور دیگر سرکاری پروجیکٹس کاجو سیلاب آیا ہے اس نے2010ء کے سیلاب کوماند کر دیا ہے۔ یہ کالم مجھے جناح ہسپتال میں چار سال قبل شروع ہونے والے ٹراما سنٹر کے عبوری حکومت کے دوران جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈلو ویسکولر ڈیزیزز میں تبدیل ہونے والے دل کے ہسپتال کا نام اس کے بورڈ آف گورنرز کی منظوری سے تبدیل کرنے کے معاملے پر اُٹھنے والے شورو غوغا سے یاد آیا ہے۔ لیکن میری نالائقی اور یادداشت کی کمزوری کہیں کہ مجھے اس دور میں میاں نوازشریف اور مریم نواز شریف کے نام پر بننے والے درجنوں منصوبوں کے ناموں کی لمبی فہرست یاد نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ فہرست میری ذہنی استعداد سے کہیں طویل ہے۔ کسی ستم ظریف نے مستقبل میں لاہور میں کسی سے پتا پوچھنے کی جو تفصیل لکھی ہے وہ کلاسیک ہے ‘جو بوجوہ یہاں لکھی تو نہیں جاسکتی مگر یوں سمجھ لیں کہ ہر انڈر پاس، فلائی اوور، چوک، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال اور سپورٹس کمپلیکس کا نام ایک ہی خاندان کے چار پانچ افراد کے ناموں پرہے۔روڈ ایک کے نام پر ہے تو فلائی اوور دوسرے کے نام پر، انڈر پاس پھر پہلے نام پر‘ چوک تیسرے نام پر ‘ہسپتال دوسرے کے نام پر‘ کالج چوتھے نام پر اور سپورٹس کمپلیکس پھر پہلے نام پر ۔ یہ لاہور کا نیا جغرافیہ ہے‘ جو ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے مرتب ہو رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved