جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26معطل ارکان کی نااہلی ریفرنس کے معاملہ پر دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوگیا۔ قبل ازیں پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی پر معطل کیے گئے اپوزیشن کے 26 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز ہو گیا تھا اور اس ضمن میں وزارتِ قانون سے مشاورت بھی کر لی گئی تھی۔ معطل ارکانِ اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے آئینی وقانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا تھا جبکہ سپیکر آفس اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو بھی زیرِ غور لا رہا تھا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اُس فیصلے کا حوالہ دیا جا رہا تھا جو انہوں نے حمزہ شہباز کے خلاف پارٹی لائن کی خلاف ورزی کے تناظر میں دیا تھا۔ سپیکر آفس اسی فیصلے کو نظیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے 26 ارکانِ اسمبلی کی رکنیت کے خاتمے کی راہ ہموار کر رہا تھا۔
سپیکر ملک احمد خان آئین وقانون کی روح کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ گزشتہ 22 برسوں سے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن بجٹ اجلاس‘ قانون سازی اور صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران جس انداز سے پارلیمانی وقار کو مجروح کرتی رہی ہے اس نے حکومت اور اپوزیشن کو اپنا مؤقف پیش کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال کے تدارک کے لیے وہ آئین کے آرٹیکل 65 اور 69 کا حوالہ دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 65 کے تحت ہر رکنِ اسمبلی کے لیے یہ حلف اٹھانا لازم ہے کہ وہ آئین کی روح کے مطابق اپنے فرائض ادا کرے گا جبکہ آئین نظمِ ایوان و حکومت کو نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کے مطابق چلانے پر زور دیتا ہے۔ آرٹیکل 69 کے مطابق پارلیمانی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی ممانعت ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت بنائے گئے قواعد‘ جو ایکٹ کی صورت میں نافذ العمل ہیں‘ ہر رکنِ اسمبلی کو پارلیمنٹ اور جمہوری اقدار کا پابند بناتے ہیں۔
بدقسمتی سے اب یہ چلن بن چکا ہے کہ اپوزیشن کسی بھی دور میں ہو‘ اس کا طریقہ کار اسمبلی میں ایجنڈا پھاڑنے‘ سپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرنے‘ ہلڑبازی‘ نعرہ بازی‘ گالم گلوچ‘ دھکم پیل‘ تشدد اور بعض اوقات مارکٹائی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ طرزِ عمل پارلیمنٹ کی تضحیک اور ملک میں تیسری قوت کی مداخلت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63(1) کے تحت پارلیمانی لیڈر کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں‘ جو بعض صورتوں میں پارٹی سربراہ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی رکنِ اسمبلی کے خلاف ریفرنس انہی پارلیمانی لیڈرز کے ذریعے سپیکر کو بھجوایا جاتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ارکان پر لازم ہے کہ وہ پارلیمانی لیڈر کے احکامات پر عمل کریں‘ جس کی وضاحت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اگست؍ ستمبر 2022ء میں حمزہ شہباز کے مقدمے میں اپنے فیصلے میں کی تھی۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان اس وقت اسمبلی کی حرمت کی بحالی کے لیے ڈٹ کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک انہوں نے 26 ارکان کی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال نہیں کیا تاہم گزشتہ دنوں ان کی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ایک ملاقات ضرور ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپوزیشن کے ارکان کے غیر جمہوری رویے اور ایوان میں حکومتی ارکان کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے پر تفصیلی گفتگو کی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں یہاں تک نوبت آ چکی ہے کہ صدرِ مملکت کے سالانہ خطاب کے دوران اعلیٰ سفارتی اہلکاروں نے اس تقریب میں شرکت سے گریز شروع کر دیا ہے جبکہ آرمی کی سینئر قیادت بھی اب اس موقع پر شرکت نہیں کرتی۔ یہ صورتِ حال نہ صرف صدرِ مملکت کی اتھارٹی کو کمزور کرتی ہے بلکہ بیورو کریسی پر ان کی گرفت بھی برائے نام رہ جاتی ہے۔ میڈیا بھی ایسے مواقع پر یہ تاثر دیتا ہے کہ حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو بلاشبہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کا حق حاصل ہے لیکن بجٹ کی بھاری کتابیں مخالف ارکان پردے مارنا‘ خواتین کی موجودگی میں غلیظ اشارے اور گالیوں کا استعمال پارلیمنٹ کی تضحیک کا باعث بنتا ہے۔ اس سے نہ صرف جمہوری اقدار بلکہ آزادیٔ اظہار پر بھی عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔
پاکستان میں 2002ء کے الیکشن کے بعد اسمبلی کے آغاز میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا۔انہوں نے اسمبلی میں ہلڑ بازی دیکھ کر اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو ایک حربے کے طور پر اپنانے کے سلسلے کا باقاعدہ آغاز صدر غلام اسحاق خان کے 1991ء کے خطاب سے شروع ہوا تھا جب بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری نے صدر کے خطاب کے دوران شدید احتجاج کیا تھا اور تب سے یہ روایت آج تک جاری ہے۔ بعد ازاں صدر فاروق لغاری کے خطاب کے دوران نواز شریف اور تہمینہ دولتانہ نے بھی تاریخی احتجاج کیا تھا۔
ایوان میں تشدد آمیز کارروائی کا آغاز 1958ء میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی سے ہوا تھا جب اپوزیشن ارکان کی جانب سے ستمبر 1958ء میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی (Shahed Ali Patwary) کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں چند دن بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ اسی واقعے کے چند روز بعد ہی‘ 8 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے 1956 کا آئین منسوخ کر دیا۔ اپنے صدارتی فرمان میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر کی ہلاکت کا حوالہ بھی شامل کیا۔ اگر بھارت کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے لیڈر آف اپوزیشن راہول گاندھی کے نازیبا رویے اور گالم گلوچ پر ان کی اسمبلی رکنیت معطل کروا کر انہیں جیل بھجوا دیا تھا۔ بھارتی قوانین وزیراعظم کو ایسے اقدامات کے لیے آئینی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اب جب سپیکر پنجاب اسمبلی پارلیمنٹ کی حرمت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں تو اس منفی روایت کے مستقل سدباب کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 63(1) میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ اختیار دینا چاہیے کہ وہ ایسے ارکان کے خلاف کارروائی کرے جو پارلیمنٹ کے وقار کو پامال کرتے ہوئے اسمبلی کی کارروائی کو معطل کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ موجودہ حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے لہٰذا سپیکر کی معاونت سے اس آئینی ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرا کر باقاعدہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت موجودہ قوانین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے تحت سپیکر الیکشن کمیشن کو براہِ راست 26 ارکان کی نااہلی کا ریفرنس بھجوا سکیں‘ ماسوائے اس کے کہ آئین کے آرٹیکل 65 اور 69 کی تشریح کی جائے اور قواعد کا سہارا لیتے ہوئے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی رولنگز کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔
دوسری جانب اس وقت مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کالعدم قرار دے کر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اقلیت اور خواتین سے متعلق دوبارہ سیٹوں کی ایلوکیشن کرے اور دس دن کے اندر تمام امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو سنے۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کسی جماعت کی نشستوں کی پہلی بار تقسیم اُس وقت ہوئی تھی جب مارچ 1971ء میں عوامی لیگ پر مشرقی پاکستان میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں عوامی لیگ کی 72 نشستیں خالی قرار دے کر یہ دیگر جماعتوں میں بانٹ دی گئیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (قیوم گروپ) اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved