تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     12-07-2025

سیاست کے بنارسی ٹھگ

یہ سلسلہ وار کالم لکھنے کا مقصد لسانی ہے اور نہ ہی مذہبی ‘ نہ ہی ذاتی ‘گروہی یا اجتماعی مقصد ہے اور نہ ہی معاشی اور معاشرتی‘ بلکہ موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے کرتا دھرتا نو طبقات کے ہاںمیری یہ دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا عوامی مسائل پر خصوصی توجہ دیں‘اگر آپ ان مسائل کو حل نہیں کریں گے تو یہ جو خاموش لاوا پک رہا ہے ایک نہ ایک دن پھٹ جائے گا۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں45 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے ‘ جبکہ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 4.9 فیصد سے بڑھ کر 16.5 فیصد ہو گیا ہے۔اس حساب سے ملک میں تقریباً 11کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے ہیں جبکہ انتہائی غربت کا شکار افراد کی تعدادچار کروڑ سے زیادہ ہے۔اگر '' بچے دوہی اچھے‘‘کے ریاستی فارمولے کے تحت چار افراد پر مشتمل ایک عام خاندان کے ماہانہ اخراجات کا تخمینہ لگائیں تویہ کسی صورت ایک لاکھ سے کم نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہی ہوں گے۔ تین وقت کے کھانے پر کم ازکم 50 ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں‘بجلی‘ پانی اور گیس کا بل 20 ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک موٹرسائیکل پر بھی ماہانہ پندرہ ہزار روپے پٹرول کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پڑھائی‘ جوتے‘ کپڑے اور ادویات پر بھی دس‘ پندرہ ہزار کا خرچہ ہو جاتا ہے۔ اگر مکان اپنا نہیں ہے تو کرایہ ادا کرکے عام آدمی کی کمر بالکل ہی ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ پانچ کروڑ کے قریب لوگ مکان سے محروم ہیں۔ اس طرح ایک لاکھ روپے سے کم ماہانہ اخراجات کا تخمینہ کسی صورت ممکن نہیں۔ لیکن حکومت نے ایک مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کی ہے‘ یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟
ملک میں بالائی طبقہ سیاستدانوں ہی کا ہے جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کے وسائل پر ہاتھ صاف کیے لیکن ان کا پیٹ بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔ آج ملک میں صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہو رہی‘ ان کے بچوں کو خوراک نہیں مل رہی‘ لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ اجتماعی خودکشی کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی اور لوگوں کی قوتِ خرید میں کوئی توازن نہیں‘ لوگ بجلی اور گیس کے بل ادا نہیں کر پا رہے۔ یہ لوگ جائیں تو کدھر جائیں۔ یہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ یہ لوگ کہیں نہیں جا سکتے اور نہ ہی ان کو کوئی لے گا۔
1947ء میں جیسے بھی بنا‘ نیا ملک بن گیا۔ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کوئی جماعت نہیں بلکہ امیر کبیر لوگوں کا ایک کلب تھا‘ جس میں بڑے بڑے جاگیردار‘ زمیندار‘ وڈیرے اور نواب شامل تھے اور یہی لوگ مل بیٹھ کر سارے فیصلے کرتے تھے۔ مسلم لیگیوں نے اُس وقت بہت بڑے دعوے کیے تھے کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہوں گی‘ لوگوں کو عدلِ فاروقی ملے گا‘ اسلام کا بول بالا ہو گا۔ مسلم لیگ نے قیام پاکستان کیلئے پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الٰہ الا اللہ کے نعرے کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کو اسلامی ٹچ دیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی سیاست کو اسلامی ٹچ دے کر آج تک عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے لیکن اس ملک کو اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کا جو دعویٰ اور وعدہ کیا گیا تھا آج تک اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ پاکستان کو اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست توکیا بناتے ایک عوامی ریاست بھی نہیں بنا سکے۔ پاکستان کو پاکستان بھی نہیں رہنے دیا گیا۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے ہاں سیاستدانوں کی پسند اپنی اپنی رہی۔ بھارت میں جواہر لال نہرو نے بطور وزیراعظم اقتدار سنبھالا جبکہ ہمارے ہاں جمہوری راستہ اختیار کرنے کے بجائے شخصی اقتدار کا رجحان غالب رہا۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) میں پاکستان میں شمولیت اور عدم شمولیت کے سوال پر ایک ریفرنڈم ہوا۔ خدائی خدمتگار تحریک نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور نتیجتاً یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے بآسانی جیت لیا اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہو گیا۔ قیام پاکستان کے وقت خان عبدالجبار خان صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے مگر فقط آٹھ دن بعد یعنی 22اگست 1947ء کو اُن کی وزارت برطرف کر دی گئی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت نہ کر کے ملک سے عدم وفاداری کا ثبوت دیا۔ خان عبدالجبار خان کی حکومت کی برطرفی کے بعد لیگی رہنما خان عبدالقیوم خان جو بعد میں ڈبل بیرل خان کے نام سے معروف ہوئے‘ صوبے کے وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ خان عبدالجبار خان کے چھوٹے بھائی خان عبدالغفار خان جو باچا خان کے لقب سے معروف ہوئے‘ کا اصولی مؤقف یہ تھا کہ چونکہ خدائی خدمتگار کانگریس کے اتحادی ہیں اور کانگریس ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے اصول کو مان چکی ہے اس لیے منطقی نتیجے کے طور پر خدائی خدمتگار بھی پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہی منطقی بنیاد تھی جس کی بنیاد پر باچا خان نے ہندوستان کے بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی اور نئے حکمرانوں کا پہلا نشانہ یہی حکومت بنی۔ اس کے باوجود خدائی خدمتگاروں نے برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور پاکستان سے وفاداری اور اس کی خدمت کا عہد نبھایا۔ انہوں نے خان عبدالجبار خان کی وزارت کو برطرف کرنے کے غیر جمہوری اقدام کے خلاف احتجاج کیا لیکن نئی مرکزی اور صوبائی حکومت کیلئے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہ کرنے کا اعلان کیا۔
اگست 1948ء کا مہینہ تھا‘ پاکستان کے عوام آزادی کی پہلی سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اس سالگرہ سے صرف دو روز قبل 12 اگست کو موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا اور اُس وقت کے صوبہ سرحد کے شہر چارسدہ کے گاؤں بابڑہ سے اطلاع آئی کہ صوبے کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان کی حکومت کی ایک مبینہ کارروائی کے نتیجے میں 600سے زیادہ خدائی خدمتگار ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ یہ خدائی خدمتگار خان عبدالغفار خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کی طرف سے صوبہ سرحد کی طرح سندھ میں بھی کھوڑو کی حکومت ختم کی گئی۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا گیا۔ بنگال میں بھی نیا وزیراعلیٰ لایا گیا‘ مرکز میں اپنی مرضی کا وزیراعظم بنایا گیا۔ بطور جمہوری جماعت مسلم لیگ کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ایسے اقدامات کرتی لیکن اس نے ایسا کرکے ثابت کیا کہ وہ ایک جمہوری جماعت نہیں ہے۔ یہ تمام اقدامات جمہوری اور سیاسی عمل کی نفی تھے۔
پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک چند خاندان اس ملک کی سیاست پر راج کرتے آئے ہیں۔ ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد لاکھوں نہیں ہزاروں بنتی ہے۔ آج تک یہی لوگ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر غریب عوام کو خوشحال بنانے کے وعدے اور دعوے کرتے آئے ہیں۔ عوام کو بہتر روزگار‘ صحت اور تعلیم کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لارے اور نعرے لگاتے آئے ہیں۔ عوام سے ووٹ لینے کیلئے ان کو روٹی‘ کپڑا اور مکان دینے کے سبز باغ دکھائے لیکن ان سبز باغوں کا پھل آج تک غریب عوام کو نصیب نہیں ہو سکا۔ بدقسمتی سے اس وقت ہمارے ملک میں بیشتر سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں۔ ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں کے تمام تر فیصلے چند لیڈر آمرانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ایک طرف عشروں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈر ہیں اور دوسری طرف ان کی پیروی کرنے والے نسلی غلام ہیں۔ 50ء کی دہائی سے لے کر آج تک ان سیاستدانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی مفادات‘ اپنے رشتہ داروں‘ اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved