تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     13-07-2025

عظیم قوم کی منقسم قوتِ برداشت

کیا کچھ قوم برداشت کر جاتی ہے اور کن نسبتاً چھوٹی نوعیت کے افسانوں پر آہ و بُکا ہونے لگتی ہے۔ پچھلے انتخابات‘ جو ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے‘ کو قوم نے برداشت کر لیا‘ لاٹری میں ملی حکومتوں کو قوم برداشت کر رہی ہے‘ من پسند کے عدالتی فیصلوں پر کوئی شور شرابا نہیں لیکن فلائی اووروں اور انڈر پاسوں پر ایک ہی خاندان کی تختیاں لگ گئیں تو غیور قوم سراپا احتجاج بن گئی کہ یہ کیا زیادتی ہو رہی ہے۔ بندر بانٹ کی حکومتیں‘ کہ لو تمہیں عطا ہوا یہ وفاقی منصب اور لو فلاں صوبے کی منصب داری تمہارے حصے میں آئی‘ تو ایسے میں کون سی قیامت آئی کہ عوام کے پیسوں سے تعمیر کیے گئے منصوبوں پر ایک ہی مخصوص اور منتخب خاندان کی تختیاں لگ جائیں۔ خلقِ خدا سے کوئی پوچھے کہ ایسی لاٹری میں حکومتیں آئی ہوں تو ایسا ہی نہیں ہونا؟ قدرتی امر ہے‘ حکمرانی کے ڈھانچے ایسے بنائے جائیں تو پھل بھی ایسا ہی ہونا ہے۔ اس میں کوئی عجیب بات نہیں لیکن پنجاب کی مڈل کلاس ہے اور وہ ویلے عوام جن کا اور کوئی کام نہیں سوائے سوشل میڈیا پر تماشے دیکھنے کے شور مچائے جا رہے ہیں کہ کیا غضب ہو گیا۔
اُس کتابچے کو‘ جس کا نام آئینِ پاکستان ہے‘ آپ فٹبال بنا دیں‘ عدلیہ کے ساتھ وہ کریں جو بڑے سے بڑا نواب کالا باغ نہ کر سکا‘ میڈیا کو ایسا رام کریں جیسا کہ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس نہیں کر سکا تو قوم کے مزاج میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ لیکن سڑکوں اور چوراہوں پر یکساں قسم کی تختیاں لگ جائیں تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو جائے۔ یہ دہرا معیار نہیں چلے گا۔ جہاں پچھلے الیکشن ہضم ہو گئے‘ الیکشن کمیشن کی عظمت کے سامنے ساری قوم سرنگوں ہو گئی‘ عدلیہ کو سیدھا کرنے کے لیے اقدامات پر بہادر وکلا مکمل چپ اختیار کر لیں‘ وہاں تختیوں کی کون سی اتنی بات کہ برداشت سے باہر ہو جائے۔ ابھی تو کھیل کا آغاز ہوا ہے۔ پچھلے انتخابات کو ایک ڈیڑھ سال ہی گزرے ہیں۔ ان من پسند کی اسمبلیوں نے 2029ء تک رہنا ہے۔ آگے کیا کرامات ہونی ہیں وہ تو خدا ہی جانے۔ لہٰذا تختیوں پر بلبلا اٹھنا کوئی بات نہیں بنتی۔ قوم اپنے برداشت کے مادے کو ذرا درست کرے۔ جہاں تھوک کا کاروبار قبول کر لیا جائے وہاں پرچون کے سودے پر کیا چوں چوں کرنا۔ اور ویسے بھی ابھی تو بہت کچھ باقی ہے۔
ہاں‘ یاد آیا کہ سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی میں اس خبر کا انکشاف ہوا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی لاہور سے رائیونڈ تک کے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر موٹر وے بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ اس منصوبے پر اخراجات پنجاب حکومت برداشت کرے گی۔ فضول کی تنقید کرنے والے کہیں گے کہ لاہور سے رائیونڈ تک یا خاص طور پر جاتی امرا تک تو پہلے ہی بڑی عمدہ اور وسیع سڑکیں ہیں۔ اس مختصر سے فاصلے پر موٹروے کی کیا ضرورت؟نادان ہیں‘یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گھر کی چوکھٹ تک موٹروے نہ بن سکے تو حکمرانی کا مزہ کیا۔ بات تو تب ہے جب لاہور سے موٹروے پر پندرہ منٹ میں آپ اپنے آستانے پر ہوں۔
حکمرانی ہوگی تو ایسے ہی ہوگی۔ مری تک محض ٹرین نہیں چلے گی بلکہ شیشوں والی ٹرین ہوگی۔ ٹرین میں سفر جاری ہوگا اور پہاڑ اور وادیاں‘ جنگل اور آسمان کی رعنائیاںسب کا نظارہ ہو رہا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ( ن) لیگ کے پچھلے دورِ حکمرانی میں راولپنڈی سے مظفر آباد تک ٹرین کا خاصا چرچا ہوا۔ وہ منصوبہ کہیں فائلوں میں دب کر رہ گیا اور پھر اُس کا کبھی سنا نہ گیا۔ مری تک شیشے والی ٹرین کے ساتھ بھی ایسا ہی نہ ہو۔ لیکن ہماری سوچ ہمارے تخیل کی تو داد دیجئے۔ سوچ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے ۔ فضول کی تنقید کرنے والے کہیں گے کہ مسئلے اور ہیں اور آپ کو شیشے والی ٹرینوں کی پڑی ہوئی ہے۔ کیا جانیں ایسے لوگ قوموں کی تعمیروترقی کے راز۔
چچا جان (جو قوم کی بدستور خدمت بطورِ وزیراعظم کررہے ہیں) جب حاکمِ پنجاب تھے تو ایک ہی درخشاں منصوبہ اُن کے ذہن پر سوار تھا کہ لاہور میں جنگلابس کیسے بنائی جائے۔ فضول کے ناقدوں نے لاکھ کہا کہ شہر کا جو حسن رہ گیا ہے تباہ ہو جائے گا اور یہ کہ اس کی جگہ بہتر منصوبہ بن سکتا ہے‘ پر حاکم کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ارادے کے پکے ہیں۔ جب چین کا دورہ ہوتا تو جنگلا بس سروس کا ذکر چھڑ جاتا۔ آخرکار چینی بھائیوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے اور یوں جنگلا بس سروس چینی قرضے پر مکمل ہوگئی۔ پھر ایک اور دھن سوا رہوئی کہ اورینج لائن ٹرین لاہور میں بچھانی ہے۔ چینیوں سے پھر رجوع اور لمبی تقریریں۔ اورینج لائن ٹرین منصوبہ بھی مکمل ہو گیا۔ ان دونوں سفید ہاتھیوں سے کیالاہور کی ٹریفک اور آمدورفت کے مسائل ختم ہو گئے ہیں؟ لاہور میں خوشحالی پھیل گئی ہے؟ لیکن نہیں‘ اب تیسرا منصوبہ جنم لے رہا ہے کہ کینال کے دونوں اطراف الیکٹرک بسوں کو چلانا ہے۔ اس منصوبے کی جو خبریں سامنے آئی ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ کینال کے گرد درختوں کا پھر حشر ہوگا۔ جہاں پہلے ہی دونوں اطراف چار چار لینیں بنی ہوئی ہیں وہاں ایک اور لین بنائی جائے گی۔ تصور تو ہو کہ درختوں پر کیا گزرے گی اور لاہور کے ماحولیاتی نظام پر کیا اثر پڑے گا۔ لیکن ہماری سوچ بہت بلند اور دور کی ہے۔ تم کیا سمجھو ہمارے تصورات کو۔
یہ تو رہیں چھوٹی باتیں‘ ادھر کی سڑک‘ وہاں کی ٹرین اور پبلک کے پیسوں سے بنے جملہ منصوبوں پرمخصوص تختیاں۔ اصل اور بڑی بات کچھ اور ہے۔ قوم کبھی سمجھنے میں دیر لگاتی ہے لیکن اب اُسے سمجھ جانا چاہیے کہ جو نظام یا بندوبست بن چکا ہے‘ یعنی جس نظام کو ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں‘ اسی نے رہنا ہے۔ یہ کوئی شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں‘ اسے لانگ ٹرم نظروں سے دیکھنا چاہیے۔ اور جس قسم کی جمہوریت کارفرما ہے ایسی جمہوریت کے نعرے یہاں لگیں گے۔ جیسے پچھلے ا لیکشن ہوئے تھے یہی اعلیٰ معیار آئندہ الیکشنوں کا ہوگا۔ آئندہ تو شاید وہ تکلف بھی نہ برتا جائے جو گزرے انتخابات میں دیکھا گیا۔ یعنی ووٹ ڈلے اور پھر ہنگامی بنیادوں پر ووٹوں کی گنتی میں تصحیح ہونے لگی۔ آئندہ شاید ان مراحل سے نہ گزرنا پڑے اور نتائج خاطر خواہ طریقے سے پہلے ہی تیار ہو جائیں۔ جہاں تک الیکشن کمیشن ہے اُس کے آئینی کردار کا تعین ہو چکا۔ آئندہ کے الیکشن کمیشنوں نے وہی کردار اداکرنا ہے جو 2024ء میں دیکھا گیا۔
لہٰذا زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ مستقبل آئے گا اپنے وقت پر لیکن اُس کے خدوخال بچھائے جا چکے ہیں۔ جیسے عمارت بعد میں تعمیر ہوتی ہے اُس کا نقشہ پہلے تیار ہو جاتا ہے۔ سکیل کا ماڈل بھی بنایا جاتا ہے کہ عمارت ظہورپذیر ہوگی تو ایسی ہوگی۔ وہ ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ حکمرانی کا ایک اصل ہے جس کے بارے میں قوم دھیرے دھیرے باخبر ہو رہی ہے۔ اور حکمرانی کی ایک نمائش ہے جس کا اولین کام تختیاں لگانا ہے۔ مڈل کلاسیے زیادتی نہ کریں‘ تختیاں لگانے والے تختیاں نہ لگائیں تو اور کیا کریں۔
یاد رہے کہ پی اے ایف کے پائلٹوں نے ہندوستانی جہاز گرائے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ ہم سب شاہین ہو گئے ہیں۔ شاہینوں کا اپنا کام اور لاٹری سے نکلنے والے جمہوروں کی اپنی ترجیحات اور مصروفیات۔ ہمارے شاہینوں نے جہاز کیا گرائے کہ ہم سمجھ بیٹھے کہ پوری قوم پائلٹوں جیسی ہونے والی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved