وطنِ عزیز کو آج کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی اور معاشی عدم استحکام سرفہرست ہیں‘ تاہم ایک خاموش مگر زیادہ سنگین خطرہ‘ جو تیزی سے ابھر رہا ہے اور ان تمام مسائل کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے‘ وہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے عالمی یومِ آبادی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں اس مسئلے کو موسمیاتی تبدیلی کی طرح ' بقا کا خطرہ‘ قرار دیا ہے‘ جو اس کی شدت کو واضح کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی طرح بڑھتی آبادی بھی ہماری بقا اور سالمیت کیلئے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی 25کروڑ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے اور آبادی کے لحاظ سے وطنِ عزیز دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس میں سالانہ 50سے 60لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری معاشی ترقی کی شرح تو تقریباً دوفیصد ہے لیکن آبادی میں اضافے کی شرح 2.6فیصد سالانہ ہے۔ یہ عدم توازن اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ ملکی آبادی اپنی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وطنِ عزیز اُن 25ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں اضافے کی شرح انتہائی بلند سطح پر ہے۔ اگر یہی رجحان رہا تو 2030ء تک پاکستان انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑجائے گا جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کاچوتھا بڑا ملک ہے۔ آبادی میں اضافے کا سب سے بڑا اور فوری اثر وسائل پر پڑتا ہے۔ ہمارے پانی‘ خوراک‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار جیسے بنیادی وسائل پہلے ہی محدود ہیں۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب یہ ہے کہ ان وسائل پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح دو فیصد پر بھی برقرار رہتی ہے تو بھی پاپولیشن کونسل کے اعداد و شمار پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2040ء تک ہمیں مزید ایک کروڑ 55لاکھ گھروں کی ضرورت ہو گی جبکہ روزگار کے میدان میں بھی کم از کم 10کروڑ 40لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت پڑے گی۔ تعلیم کے شعبے میں بھی صورتحال مختلف نہیں جہاں57ہزار نئے پرائمری سکولوں کی ضرورت ہو گی۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اگر آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھا گیا تو ہمارے موجودہ وسائل ناکافی ہو جائیں گے‘ جس کے نتیجے میں چند برسوں میں رہائش‘ بے روزگاری اور تعلیمی سہولتوں کے نئے مسائل جنم لیں گے اور ملک کی پائیدار ترقی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 45فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے جا چکی ہے۔ یہ ایک ہولناک حقیقت ہے کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے 40فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں‘ یعنی غذائی قلت مستقبل کی نسلوں کی صحت اور کارکردگی پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی صورتحال تشویشناک ہے جہاں تقریباً اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ بچے نہ صرف تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں بلکہ ہاتھ میں کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے یہ مستقبل میں ملک کی افرادی قوت کا حصہ بھی نہیں بن سکیں گے‘ جس سے ملک میں غربت کی شرح مزید بڑھے گی۔ آبادی میں اضافہ ماحولیاتی تبدیلیوں کیلئے بھی عمل انگیز کا کام کر رہا ہے۔ شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ‘ جنگلات کی کٹائی اور آلودگی میں اضافے کی بنیادی وجہ بڑھتی آبادی ہے۔ وسائل میں توازن کے فوائد اور آبادی میں اضافے کے مسئلے کو آسان انداز میں سمجھنے کیلئے نیوزی لینڈ کی مثال کافی ہے۔ نیوزی لینڈ کی کل آبادی 53لاکھ ہے جبکہ ہمارے صرف جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کی آبادی نیوزی لینڈ سے کہیں زیادہ ہے۔ اب ذرا تصور کریں کہ نیوزی لینڈ کے شہریوں کو فی کس کتنے وافر وسائل میسر ہوں گے اور ہمارے ہاں محرومی کا عالم کیا ہے۔ اگر لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کا موازنہ کریں تو صورتحال مزید گمبھیر ہو جاتی ہے۔ آبادی کے اس بوجھ سے پانی کی شدید کمی ہو رہی ہے اور آلودگی کے مسائل بڑھ گئے ہیں جو نہ صرف انسانی صحت بلکہ زرعی پیداوار کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ زمینیں تیسری نسل میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ 70سال پہلے جس گھرانے کے پاس 12ایکڑ زمین تھی‘ دوسری نسل میں یہ زمین تقسیم ہو کر تین سے چار ایکڑ فی گھرانہ رہ گئی‘ پھر تیسری نسل کے پاس یا تو سرے سے زمین ہے ہی نہیں یا ایک دو ایکڑ ہے۔ اس قدر کم زمین خاندان کی کفالت کیسے کر سکتی ہے؟ ماں اور بچے کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان نوزائیدہ اور ایک سال تک کی عمر کے بچوں کی اموات میں سرفہرست ہے اور زچگی کے دوران خواتین کی وفات کی شرح بھی یہاں بلند ترین ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور ناکافی سہولتوں سے پردہ ہٹاتے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلے پر ہمارے ملک میں کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سیاسی‘ سماجی اور مذہبی سطح پر اس پر کھل کر بات کرنے اور اس کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافے پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی محض ایک عددی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا وجودی خطرہ ہے جو ہمارے ملک کے مستقبل کو تاریک کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس پر فوری توجہ نہ دی اور ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ہمارے معاشی اور سماجی چیلنجز میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا اور ہم ایک ایسے بحران میں گھر جائیں گے جس سے نکلنا بے حدمشکل ہو گا۔ آبادی اور وسائل میں عدم توازن کا براہِ راست تعلق حکومتی ترجیحات سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آبادی اور وسائل میں توازن حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ این ایف سی ایوارڈ کا وہ فارمولا ہے جو وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کرتا ہے یعنی جس صوبے کی آبادی زیادہ ہو گی‘ اسے زیادہ وسائل ملیں گے۔ اس نظام نے صوبوں کو آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پر مجبور کیا۔ یوں یہ مسئلہ ریاستی ترجیحات میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے نہایت گمبھیر صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ اگر عالمی مالیاتی ادارے اس جانب توجہ نہ دلاتے تو شاید یہ مسئلہ اب بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہ ہوتا۔ وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان اور ورلڈ بینک کے درمیان ایک 10سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک طے پایا ہے جس کے چھ میں سے چار ستون آبادی اور ماحولیاتی مسائل پر مبنی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت اگلے 10برسوں میں تقریباً 20ارب ڈالر کی رقم آبادی سے متعلق اقدامات کیلئے مختص کی جائے گی۔ یہ خوش آئند اقدام ہے لیکن جب تک ریاست متحرک نہیں ہو تی اور آبادی اور وسائل میں توازن کو اپنی اولین ترجیح نہیں بناتی‘ بڑھتی آبادی کی وجہ سے ہمارے وجود کو لاحق خطرات برقرار رہیں گے۔ محض بیرونی امداد سے اس سنگین مسئلے کا مستقل حل ممکن نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved