تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     13-07-2025

زندگی کے ٹوٹتے تار و پود

اداکارہ حمیرا اصغر اگلے جہان جا چکیں لیکن ایسے حالات میں گئیں جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً دس ماہ گزر چکے تھے لیکن ارد گرد رہنے والوں‘ ان کے ساتھیوں اور قریبی رشتے داروں کو اب پتا چلا کہ وہ جا چکیں۔ ان سے پہلے اداکارہ عائشہ خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا کہ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے کئی روز گزر چکے تھے تو تب پتا چلا کہ یہ سانحہ رونما ہو چکا ہے۔ انسان کی زندگی کبھی اتنی ارزاں نہ تھی جتنی اب ہو چکی ہے۔ کسی کو کوئی ملال ہی نہیں۔
پنجابی کا محاورہ ہے کہ 'بندہ بندے دا دارو ہوندا اے‘ یعنی ایک بندہ ہی دوسرے بندے کے درد کا درماں بن سکتا ہے۔ انسان کے مسائل کا حل بھی انسان خود ہی ہے۔ دنیا کے سارے مسائل اگر انسان کے دم سے ہیں تو سارا رَس‘ ساری خوبصورتی اور سارے مسئلوں کا حل بھی انسان خود ہی ہے۔ جب تک بندہ بندے کا دارو رہا‘ اس کے مسائل کم رہے اب جبکہ بندوں نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنا دارو بنا لیا ہے تو وہ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔ اتنے دور کہ انہیں ایک دوسرے کے مرنے کی خبر بھی کئی کئی ماہ بعد ملتی ہے۔
جب جدید ٹیکنالوجی کا دور نہیں تھا‘ جب ٹیلی کمیونی کیشن ابھی اتنی تیز نہیں ہوئی تھی اور یہاں پاکستان سے امریکہ‘ یورپ یا کینیڈا کال کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے لگتے تھے تو خبریں دیر سے ایک دوسرے تک پہنچتی تھیں۔ اس سے بھی پہلے جب رابطوں کا سلسلہ بالکل ہی محدود تھا اور کسی منزل کے لیے کہیں سے رخصت ہونے والے کو بالکل ہی خدا حافظ کہہ دیا جاتا تھا کہ پتا نہیں پھر ملاقات ہو گی یا نہیں‘ تب ایک خبر یا ایک واقعہ کی روداد ایک شہر سے دوسرے شہر‘ ایک ملک سے دوسرے ملک اور دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے تک دنوں‘ مہینوں بلکہ برسوں میں پہنچتی تھی اور چونکہ تب خبروں کی ترسیل زبانی ہوتی تھی اس لیے ایک سے دوسری جگہ پہنچتے پہنچتے اس کا مفہوم ہی نہیں سیاق و سباق بھی تبدیل ہو چکا ہوتا تھا۔
آج کے اس جدید دور میں جب دنیا کے ایک کونے پر بیٹھ کر دوسرے کونے پر بیٹھے کسی فرد سے بات کرنا اور اس کا حال معلوم کرنا محض چند سیکنڈز کا کھیل بن چکا ہے‘ انسان قریب ہونے کے بجائے الٹا ایک دوسرے سے ہفتوں بلکہ مہینوں دور ہوتا چلا جا رہا ہے کہ لاش گل سڑ جاتی ہے تب پتا چلتا ہے کہ کوئی مر گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب گھر کے لوگ رات کو جمع ہو کر ایک جگہ بیٹھتے تھے اور مختلف ایشوز پر تبادلہ خیالات کرتے تھے۔ سردیوں میں لحافوں میں بیٹھ کر ہم لوگ اپنی دادی اماں یا نانی اماں سے کہانیاں تو سنتے ہی تھے‘ اہلِ خانہ کے درمیان دوسری باتیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک دوسرے کے مسائل سنے جاتے تھے اور پھر سب مل کر ان مسائل کا کوئی حل تلاش کرتے تھے۔ تب لوگ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ ایک کے بغیر دوسرے کو چین نہیں آتا تھا‘ سب مل بیٹھتے تھے تو سب کو چین آ جاتا تھا۔ وہ وقت تھا جب ایک اور ایک دو نہیں گیارہ ہوتے تھے۔ ریڈیو آیا تو یہ سلسلہ جاری رہا۔ ٹی وی آیا تو بھی لوگ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی مل کر بیٹھ ہی جاتے تھے۔ لیکن جب سے یہ سوشل میڈیا آیا ہے کسی کے پاس کسی دوسرے کے لیے وقت نہیں رہا۔ ایک ہی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے چھ یا آٹھ کے آٹھ افراد کے ہاتھوں میں موبائل ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کرتے‘ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے سے بے خبر‘ لا تعلق سب اپنی اپنی دنیا میں گم نظر آتے ہیں۔ صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے بلکہ سونے کے لیے بیڈ پر جانے تک بس یہی روٹین ہے ہر ایک کی۔ ایسے میں کسی کو کیسے خبر ہو سکتی ہے پڑوس میں کوئی نئی پیدائش ہوئی ہے یا کوئی مر گیا ہے۔
سوشل میڈیا کی وافر دستیابی پر مستزاد مادیت پرستی۔ پاکستان کی بات کی جائے تو کرنسی اتنی ڈی ویلیو ہو چکی ہے کہ آپ چاہے ہزاروں کما لیں‘ ایک بندے کا بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ وہ زمانے لد چکے جب گھر کا سربراہ چند سو روپے کماتا تھا اور ان چند سو روپوں سے گھر بھر کے افراد کا کھانا پینا بھی چلتا تھا اور تعلیم سمیت دوسرے اخراجات بھی پورے ہوتے تھے۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ سو روپے کا نوٹ تڑوا لیں تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں گیا‘ اب حالت یہ ہے کہ ہزار روپے میں بھی چند ایک چیزیں ہی خریدی جا سکتی ہے۔ مہنگائی کس قدر بڑھ چکی ہے اور لوگوں کی کسمپرسی میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ دو روز پہلے گھریلو ملازم کو سبزی لانے بھیجا گیا تو کدو‘ جسے لوکی بھی کہتے ہیں‘ 320روپے میں ایک کلو ملی۔ پہلے سبزی خریدیں تو سبز مرچیں اور دھنیا دکاندار خود ہی ڈال دیتا تھا‘ اب ایسا کرنے سے کتراتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ اتنی تیز ہو چکی ہے کہ انسان اور انسانیت دونوں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔
بات ہو رہی تھی حمیرا اصغر کی۔ کئی سوال ہیں جو اس اداکارہ کی موت نے سامنے لا کھڑے کیے ہیں۔ انسان ایک دوسرے سے جتنا بھی ناراض ہو‘ جتنا بھی لا غرض ہو‘ کبھی نہ کبھی تو ایک دوسرے کا حال پوچھ ہی لیتا ہے۔ حمیرا اصغر کی فیملی نے انہیں اتنے لمبے عرصے کے لیے نظر انداز کیسے کر دیا؟ پھر ان کی ساتھی اداکاراؤں‘ جن کے ساتھ وہ ڈراموں میں کام کرتی رہی ہیں‘ کو بھی حمیرا کی کبھی یاد نہیں آئی کہ فون پر حال چال ہی پوچھ لیتیں؟ پڑوسیوں نے بھی کبھی نہیں سوچا کہ یہاں ایک لڑکی رہتی تھی‘ اب کئی دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں سے نظر نہیں آ رہی ‘ پوچھنا تو چاہیے کہ کہاں گئی؟ کس حال میں ہے؟
مرنا تو سب نے ہے لیکن مرنے مرنے میں بھی فرق ہوتا ہے۔ تنہائی میں مرنا اور چیز ہے اور اپنوں کے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی بانہوں میں مرنا الگ معنے رکھتا ہے۔ اپنوں کے پاس مرنے سے موت کی اذیت تو کم نہیں ہوتی لیکن ایک اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ اب میری لاش لا وارث نہیں پڑی رہے گی۔ میرے اپنے اس کا جلد مناسب بندوبست کر لیں گے۔ ممکن ہے حمیرا اصغر اور عائشہ خان نے بھی ایساہی سوچا ہو لیکن افسوس کہ ویسا ہوا نہیں۔ اسے بدلتے انسانی رویوں کا المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک بندہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کسی کی آنکھ میں ایک آنسو تک نہ اترے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تار و پود ٹوٹ رہے ہیں اور تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کا ٹوٹنا بہت سے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ انسان انسان سے دور ہو چکا ہے اور ساتھ ہی ان لذتوں سے جو جوائنٹ فیملی سسٹم کا خاصہ ہیں کہ کسی ایک فرد کو کوئی مسئلہ ہوتا تھا‘ کوئی تکلیف ہوتی تھی تو سب مل کر اس کا ازالہ کر دیتے تھے۔ ایک تو پھر اکیلا ہی ہوتا ہے‘ گیارہ نہیں ہوتے۔ میرا خیال نہیں یقین ہے کہ حمیرا اصغر اور ان سے پہلے عائشہ خان انسانی زندگی کے تار و پود ٹوٹنے کے عمل کا شکار ہوئیں۔ ایک دوسرے سے دوری کی یہ دوڑ پتا نہیں کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اچھی زندگی گزارنا ہے تو زندگی کی طرف آنا ہو گا۔ انسانی زندگی کے نازک تار و پود کو مزید ٹوٹنے سے بچانا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved