تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     14-07-2025

یہ کون لوگ ہیں؟

کالی آندھی اور گرد وغبار کے طوفان میں کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ ایک قدم آگے کیا ہے‘ اور ہم جونہی آنکھیں کھول کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں طوفان آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ملکی حالات کی ہے۔ واقعی ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ اگلے دن کیا ہوگا۔ عجیب بات ہے کہ آج کے دور میں سینکڑوں ٹی وی چینلز‘ اخبارات اور دیگر سماجی ابلاغ کے ذرائع موجود ہیں‘ پھر بھی ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے‘ کون کیا کرنے پر تُلا ہوا ہے‘ کون سی سازش کس کونے میں یا دنیا کے کس ملک میں بیٹھ کر رچائی جا رہی ہے‘ اور غریب عوام اور اس ملک کے وسائل کے استحصال کے منصوبے کن کے زیر نگرانی اور کہاں بنائے جا رہے ہیں؟
عبوری حکومت‘ جو انتخابی مرحلے کے دوران سرکاری اداروں کے معمول کے کام کو دیکھنے کے لیے بنائی گئی تھی‘ اُس کے وزیراعظم اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے عین اُس وقت جب سندھ اور پنجاب کے کسان اپنی گندم منڈی میں لانے کو تیار تھے‘ لاکھوں من گندم باہر سے درآمد کر لی۔ سینکڑوں ارب روپوں کا زرمبادلہ برباد کر ڈالا اور ساتھ ہی ملک کی زراعت کی کمر بھی توڑ دی۔ جب ملک کی سب سے بڑی فصل گندم کے کاشتکاروں کو مقررہ قیمت یعنی 3900 روپے فی من کے بجائے صرف 2300 روپے می بیوپاریوں کو فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سینکڑوں ارب جو متوقع طور پر کاشتکاروں کو ملنے تھے‘ وہ اس سے محروم ہو گئے۔ قرض داروں کے قرض بڑھ گئے اور چھوٹے زمیندار اپنی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ملک کی چھوٹی صنعت کو بے پناہ دھچکا لگا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کاشتکار گھریلو استعمال کی چیزیں خریدتے ہیں‘ گھر بنانے کا سامان لیتے ہیں اور شادی بیاہ کی تیاری کرتے ہیں۔ نجانے کتنے لاکھ لوگوں کے خواب بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں نے اجاڑ دیے۔ ظلم اور دیدہ دلیری کی انتہا دیکھیں کہ اس قومی بحران‘ بلکہ زراعت پر خودکش حملے کے دو بڑے کرداروں میں سے ایک ایوانِ بالا میں ''بہت سی ملکی خدمات‘‘ کے صلے میں دوبارہ سے مامور ہے‘ تو دوسرے کے بارے میں کیا کہنے کہ وہ وزیروں‘ مشیروں اور دیگر عہدیداروں پر بھاری ہے۔ ظاہر ہے‘ ان میں ٹیلنٹ ہے تو اتنی اہمیت ہے کہ نجانے ملک کے کتنے محکمے چلا رہے ہیں۔ یاد آیا کہ ممتاز علی بھٹو مرحوم‘ جب سندھ کے بہت ہی طاقتور وزیراعلیٰ تھے تو وہ بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن کے طور پر مشہور تھے۔ اس سے کچھ زیادہ کہنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
ہماری بے بسی دیکھیں کہ اس ملک میں گندم سکینڈل پر سینکڑوں پروگرام سکرینوں پر عوام نے دیکھے ہوں گے‘ کوئی ایسا کالم نگار نہ تھا جس کا رشتہ زمین سے ہو‘ اور ان کرداروں کے بارے میں نہ لکھا ہو۔ ایک کمیٹی تحقیقات کے لیے بنی‘ جس طرح ایسے زندہ مسائل پر مٹی ڈالنے کے لیے بنائی جاتی ہے‘ اور اس کے بعد کچھ پتا نہیں چلتا کہ کیا ہوا۔ کچھ ہوتا تو ہم بھی دیکھ لیتے کہ ہماری اپنی گندم ایک سال تک گلتی سڑتی رہی۔ نمی‘ سردی اور گرد میں خراب ہوتی رہی اور پھر آخر کار جو نرخ ملا‘ بیچ کر اگلی فصل کی سرمایہ کاری کی۔ اسی طرح گزشتہ کئی سالوں سے ہماری کپاس کی فصل تباہ ہو رہی ہے۔ زراعت کی تعلیم کے لیے اب تو بیسیوں یونیورسٹیاں ہیں‘ تحقیقی ادارے ہیں‘ دوا ساز کمپنیاں اور مہنگی کھادیں ہیں‘ لیکن اب یہ فصل کاشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں رہی۔ جن چھوٹے کاشتکاروں کو نقصان پہ نقصان اٹھانا پڑا‘ انہوں نے توبہ کر لی ہے۔ کاشتکاروں سے پوچھیں وہ کیا کہتے ہیں کپاس کے بارے میں‘ جو ہماری سب سے بڑی صنعت کو چلاتی ہے۔ دوائیاں دو نمبر‘ بیج تین نمبر‘ کھاد مہنگی اور بعض اوقات جعلی اور سرکاری محکمے اپنی دنیا میں مگن۔ سنا ہے کہ کروڑوں ڈالرز بلکہ تقریباً ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ کپاس دوسرے ملکوں سے درآمد کی جا رہی ہے۔ ہم کہاں جائیں؟ کس سے شکایت کریں؟ کہاں کوئی ہماری سنے گا؟ ایسی بے بسی پہلے کبھی دیکھی نہ تھی۔ جعلی جمہوریت اور تابع دار نظاموں میں عوام اور ان کے ووٹ کی اہمیت نہ رہے تو ان کی آواز آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کپاس کے بیجوں کا امریکہ کی ایک مشہور کمپنی سے سودا کیا اور ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایک مشہور امریکی دوست‘ جو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں‘ کچھ دہائیاں پہلے بتاتے تھے کہ ایک کمپنی نے بھاری رقم کے عوض انہیں ہمارے ملک میں اس بیج کی درآمد کے لیے سماجی اور سیاسی ذہن ہموار کرنے کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے اس لیے ٹھکرا دیا کہ یہاں کے کسانوں اور کاشتکاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ظاہر ہے جس طرح دیگر عالمی کمپنیاں یہاں کے طاقت کے ایوانوں میں اپنی جگہ بناتی ہیں‘ کپاس والوں نے بھی بنا لی۔ اب ہر طرف تباہی کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے خلائی حکمران ہیں۔ اس کا مطلب آپ غلط نہ لیں‘ اس کی وضاحت کر دیتا ہوں: یہ وہ نسل ہے جو صرف تیسری دنیا کے ان ملکوں میں پائی جاتی ہے جہاں عوام کے چناؤ اور ان کی آوازوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایسوں کا ٹھکانہ ‘ کاروبار‘ سرمایہ کاری اور بڑے اثاثہ جات مغرب کے سابق استعماری ممالک میں ہوتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ملک کی انہوں نے جو خدمت اور ترقی اور یہاں امن وسکون کی جو راہیں ہموار کی ہیں‘ اب ان کے رہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ صرف اس صورت میں یہاں قیام ہوتا ہے جب وہ اقتدار میں ہوں اور وسائل کے سہارے کئی تہوں پر مشتمل حفاظتی حصار میں رہ سکیں۔
آج کل عوام‘ جسے میٹھا کھانے اور چائے کے ہر پیالے میں کئی چمچ چینی ڈالنے کی عادت ڈال دی گئی ہے‘ دُہائی دے رہے ہیں کہ یہ نعمت بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ حکمران طبقے کے لوگ جب چائے‘ کافی منگواتے ہیں یا پیش کار ان کے سامنے رکھتے ہیں تو سرگوشی میں کہتے ہیں: بغیر چینی کے۔ یہی وہ سیاسی گھرانے ہیں‘ سندھ سے لے کر خیبر پختونخوا تک‘ جو چینی بنانے کے کارخانوں کے مالک ہیں۔ پہلے کہیں بغیر چینی کے چائے کے کپ پر ملک اور عوام کے مفاد میں فیصلہ کیا کہ لاکھوں ٹن چینی برآمد کی جائے‘ جو آناً فاناً ہو گئی۔ یہ معلوم نہیں کہ خریدار کون اور کس ملک کے تھے۔ آج کل پھر فیصلہ ہوا ہے‘ وہ بھی بغیر چینی کے کالی کافی کے کپ پر کہ عوام کے مفاد میں چینی درآمد کی جائے‘ جو ہو رہی ہے یا جلد ہو نی ہے۔ عوام کی آہ وبکا اور قومی معیشت کی حالت دیکھ کر دل میں جو سوال اٹھتے ہیں‘ وہ ہم قلم کی نوک پر لانے کی سکت نہیں رکھتے۔ صرف ایک سوال اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں کہ جو اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں دہائیوں سے جانے پہچانے لوگ ہیں‘ آخر بار بار ہمارے مفاد میں زراعت ہو‘ صنعت ہو یا تجارت‘ ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں؟ محسوس نہ کریں تو ہلکا سا جواب بھی دیتا ہوں کہ وہ ''منتخب‘‘ ہیں۔ آپ خواہ مخواہ کوئی اور مطلب نہ نکالیں۔ آخر میں ایک اور بات بھی آپ کی سمع خراشی کے لیے کرنا چاہتا ہوں کہ اب معیشت اور سیاست صرف ایک ہی طبقے کے ہاتھ میں ہے‘ اور مفادات کے ٹکراؤ کی بات کرنا ہم دیوانوں کا کام رہ گیا ہے... دیوانوں کی کون سنتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved