'جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی‘ بھکاری‘ منافق‘ ڈھونگ رچانے والے‘ چغل خور‘ فتویٰ فروش فقیہ‘ جھوٹے راوی‘ جھوٹے گواہ‘ غنڈے‘ خود ساختہ حق سچ کے دعویدار‘ خوشامدی‘ طنز اور ہجو کرنے والے‘ موقع پرست سیاستدانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے۔ اہلِ ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ نظم ونسق ناقص ہو جاتا ہے‘ گفتار سے معنویت کا عنصر غائب‘ ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھملا دیا جاتا ہے۔ لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں‘ بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں‘ باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے۔ مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں۔ مبلغین کے شور شرابے میں دانشمندوں کی آواز گُم ہو جاتی ہے‘۔
یہ الفاظ 27 مئی 1332 عیسوی کو تیونس میں پیدا ہونے والے تاریخ ساز فلاسفر‘ سوشیالوجسٹ‘ مؤرخ‘ معیشت دان اور ماہرِ جغرافیہ سے منسوب ہیں‘ جس کا تعلق اُس وقت کی عرب اشرافیہ سے تھا۔ اس نادر الوجود ہستی کا اصل نام ابو زید عبدالرحمن ابو محمد ابنِ خلدون الحضرمی تھا۔ حضرمی قبیلے نے یمن سے تیونس ہجرت کی۔ اس کے فرزند ابنِ خلدون سب سے ممتاز ٹھہرے‘ جو سیاست‘ گورننس اور ریاست کی دنیا کے گرو مانے جاتے ہیں۔ یہ شخصیت سفارتکار رہی‘ مشہور اُستاد‘ عدلیہ میں جج اور اسی طرح کے نمایاں عہدوں پر فائزہوئی۔ انہیں شمالی افریقہ‘ عرب دنیا اور خاص طور سے مصر کے حکمرانوں کا احترام اور قرب دونوں حاصل رہا۔ ان کی عالمی شہرت یافتہ تصنیف ''مقدمہ‘‘ ہے۔ یہ تاریخ کی عظیم کتابوں میں سے ایک ہے۔ مغربی تاریخ دانوں اور ڈکشنریز میں اسے نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ ابن خلد ون کی معرکہ آرا تصنیف ''مقدمہ‘‘ میں ریاست کو استحکام دینے کے لیے تین بنیادی اجزا بیان کیے گئے۔ اس موضوع پر بعد میں لکھی جانے والی ساری تاریخی کتابوں میں ان تین کا حوالہ ضرور آتا ہے۔ پہلا‘ ریاست اپنے عوام کے ساتھ عمرانی معاہدہ یعنی دستوری ایگریمنٹ ہونا ضروری ہے‘ جس کے ذریعے عام آدمی خود کو مقتدر اشرافیہ کا غلام نہ سمجھے بلکہ حاکمیت میں پارٹنرشپ محسوس کرے اور پارٹنرشپ کو حاصل بھی کر سکے۔ دوسرا‘ عوام کے کم از کم طے شدہ حقوق مقرر ہونے چاہئیں۔ تازہ دساتیرِ عالم کی زبان میں آپ اسے Basic Rights, Fundamental Rights یا Civic Rights کے نام سے جانتے ہیں۔ تیسرا‘ حکمران پبلک کی دسترس میں ہوں‘ یعنی عام آدمی براہِ راست اُن تک پہنچ سکے۔ اُن پر سوال اٹھایا جا سکے اور عوام کے ٹیکس اور باجگزاری کی رقم چند طاقتوروں کی عیاشی کیلئے نہیں‘ شفاف طریقے سے استعمال کرنے کے لیے تقسیمِ دولت کا منصفانہ نظام موجود ہو۔ ان تین نکات کو تاریخ کی کتابیں عوامی مفاد یا پبلک انٹرسٹ کہتی ہیں۔ Nation States سامنے آنے کے بعد جو دستاویزات پبلک کے ان حقوق کو تحفظ دینے کے لیے منتخب پارلیمانوں نے بنائیں اُن میں پاکستان میں 1973ء کا بنایا گیا آئین بھی شامل ہے۔ جس کے آرٹیکل 184(3)میں پبلک انٹرسٹ کے تصور اور اصطلاح کو اس تشریح کے ساتھ بیاں کیا گیا ہے: A question of public importance with reference to the enforcement of any fundamental rights۔ آپ 1973ء کا پورا دستور اور لوکل لاز‘ سپیشل لاز‘ فیڈرل لاز اور پروینشل لاز نکال کر دیکھ لیں‘ پبلک انٹرسٹ کی کوئی ڈیفینیشن کہیں وضع نہیں کی گئی۔ تقریباً پانچ‘ چھ سال پہلے پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس میں نیشنل انٹرسٹ کے نام پر عوام کی زبان بندی کے قانون کو لایا گیا‘ تب اپوزیشن بینچوں کے پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے میں نے چیلنج کیا کہ آپ ہمارا سب سے سپیریئر لاء یعنی 1973ء کا دستور نکال کر دیکھ لیں‘ نہیں تو کوئی اور پاکستانی قانون بتا دیں جس میں پبلک انٹرسٹ یا نیشنل انٹرسٹ دونوں کی ڈیفینیشن موجود ہو۔
ان دنوں پبلک انٹرسٹ کے عنوان سے خاصے سوالات میڈیا میں آ رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے سامنے دستور کے بعد سروس لاز کی پریکٹس رکھی جائے۔ پریکٹس یعنی روایت کے حوالے سے مجھے دو ہفتے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محمد آصف‘ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے‘ کے روبرو ایک مقدمے میں بحث کا موقع ملا۔ دوسری جانب سے سرکاری وکیل پیش ہوئے اور کہا: اسلام آباد میں دیہاتی زمینوں کے مالکان پر کچھ زون کے اندر زمین بیچنے یا اُس پر کوئی تعمیرات کرنے کی پابندی پبلک انٹرسٹ میں لگائی گئی ہے۔ فاضل جج صاحب نے سوال کیا: یہ پابندی پبلک انٹرسٹ میں کس نے لگائی؟ سرکاری وکیل صاحب کا جواب تھا: یہ جائیداد کے فرد پر پٹواری نے پبلک انٹرسٹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس پرعدالت میں زور دار قہقہہ بلند ہوا۔ فاضل جج صاحب نے مجھ سے کہا: آپ بتائیں‘ کیا پبلک انٹرسٹ میں کسی جائیداد کی خرید وفروخت یا اُس پر تعمیرات کرنے سے پراپرٹی کے مالک کو روکا جاسکتا ہے؟ میں نے آئین کھولا اور آرٹیکل 23 اور آرٹیکل 24 دونوں عدالت کے سامنے پڑھ دیے۔ آرٹیکل 23 کا عنوان ہے: Provision as to property۔ جبکہ آرٹیکل 24‘ Protection of property rights کا ٹائٹل رکھتا ہے۔ یہ دونوں پاکستانی شہریوں کی جائیدادکی بابت اُن کے حقوق کے تحفظ کرنے والے بنیادی انسانی آئینی حقوق ہیں۔
پٹواری سے یاد آیا جب بھی کسی کلرک پٹواری یا نچلے درجے کے سرکاری ملازم سے اُس کا باس یا علاقے کا کوئی ایم پی اے‘ ایم این اے‘ سینیٹر یا وزیر ناراض ہو جائے تو اُس کے ٹرانسفر کرنے کے نوٹس میں ہمیشہ لکھا جاتا ہے کہ یہ ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ میں کیا گیا۔ آئین کی تشریح کے جتنے بھی ٹولز موجود ہیں وہ پبلک انٹرسٹ کے بارے میں چند وضاحتیں کھلے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ پہلی وضاحت: پبلک کا مطلب عام آدمی ہے۔ کسی بھی محکمے کا کوئی سرکاری ملازم چاہے وہ فراش کی ڈیوٹی کرے یا محکمے کا سربراہ ہو‘ وہ پبلک کا سرونٹ کہلائے گا‘ اُسے پبلک نہیں کہا جا سکتا۔ یہی دستور میں لکھا ہے اور یہی سارے پاکستانی قوانین کہتے ہیں‘ جو قانونی زبان میں Subordinate legislation کہلاتی ہے۔ دوسری وضاحت: پبلک انٹرسٹ کا تحفظ کرنے کے لیے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے شخص کو پبلک آفس ہولڈر کہتے ہیں۔ سادہ مطلب ہے کہ کوئی حکمران نہ بادشاہ ہے‘ نہ خلیفہ اور نہ ہی عوام غلام ہیں اور حکمران اُن کے مالک۔ تیسری وضاحت: آئین نے تمام محکموں کی حدود طے کر دی ہیں۔ پبلک انٹرسٹ کے نام پر کوئی اپنے حلف کی خلاف ورزی کرے تو اُسے روکنے کے لیے دستور میں آرٹیکل 6 شامل ہے۔
روم کی تاریخ کا ایک واقعہ Cadaver Synod کہلاتا ہے۔ 897 عیسوسی میں روم کے کیتھولک چرچ کے پوپ فارموسِس کی لاش کو مرنے کے نو ماہ بعد قبر سے نکلوایا گیا۔ لاش کو مکمل پاپائی لباس پہنا کر تخت پر بٹھایا گیا۔ اُسے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پاپائی اعزازات سے محروم کرنے کے بعد لاش کی تین انگلیاں کاٹ دی گئیں اور اُسے دریائے ٹائیبر میں پھینک دیا گیا۔ اسی شفافیت کی وجہ سے شرق اور غرب میں سلطنتِ روم کے ڈنکے بجے۔ اسے پبلک انٹرسٹ میں قبر سے نکلوایا گیا۔
ہزار راہِ مغیلاں ہے کارواں کے لیے
لہو کا رنگ ہے تزئینِ داستاں کے لیے
قدم قدم پہ بڑی سختیاں ہیں جاں کے لیے
کئی فریب کے عشوے ہیں امتحاں کے لیے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved