تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-11-2013

’’اب پیاز بم سے مارے گا پاکستان!‘‘

پیاز نے علاقائی سُپر پاور پر ’’وختا‘‘ ڈالا ہوا ہے اور ٹماٹر بھی اُس کا خوب ساتھ دے رہا ہے۔ جو حکومت مریخ کی طرف تحقیقی مشن روانہ کرکے شادیانے بجا رہی ہے اُسی کو پیاز اور ٹماٹر نے پریشانی میں مبتلا اور شرمندگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ سے زیادہ اب دِلّی سرکار کو فوڈ سکیورٹی کی فکر لاحق ہے۔ سیاست کے ڈرامے میں رومانس نام کو بھی نہیں بچا، صرف ٹریجڈی رہ گئی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پیاز حکومت اور عوام دونوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ دِلّی کی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ نے بھی یہ بیان دے کر لوگوں کو مزید دہلادیا کہ اُن کے گھر میں کئی کئی دن بعد پیاز والا سالن پکایا جاتا ہے! چند ماہ کے دوران بھارت میں پیاز کے ستم ہائے بے جا نے ایک طویل تاریخ رقم کی ہے۔ بنی اسرائیل نے من و سلویٰ اتارے جانے پر بھی پیاز کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اللہ ہی جانے پیاز میں ایسا کون سا جادو ہے کہ برِ صغیر کے لوگ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی کرنے کو تیار نہیں۔ پیاز نے بھارت میں چند ماہ کے دوران ایسے گل کھلائے ہیں کہ دِل و دِماغ اُن کی ’’خوشبو‘‘ سے پھٹے جاتے ہیں! پیاز سامنے ہو تو لوگ کسی کی جان بچانے کا تصور بھی ذہن سے کھرچ کر پھینک دیتے ہیں۔ مشرقی بھارت میں بہار سے متصل ریاست جھاڑ کھنڈ میں یہی ہوا۔ رانچی پٹنہ شاہراہ پر پیاز کی بوریاں لے جانے والا ٹیمپو تیز رفتاری کے باعث اُلٹا تو ایک راہ گیر اُس کے نیچے دب گیا۔ لوگوں نے سڑک پر پیاز کی بوریاں دیکھیں تو اُن کی آنکھیں چمک اٹھیں اور پیاز کی بوریاں اِس طرح لے بھاگے جیسے وہ کرنسی نوٹوں سے بھری ہوئی بوریاں ہوں! یہ تماشا بہت دیر تک جاری رہا۔ وہاں سے گزرنے والی چند گاڑیاں بھی رُکیں، اُن میں سے لوگ اُترے اور پیاز کی بوریاں لاد کر چل دیئے! کافی دیر بعد لوگوں کو اُس غریب کا خیال آیا جو ٹیمپو کے نیچے دبا ہوا تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے سے اُس کی حالت غیر ہوچکی تھی۔ اُسے ہسپتال لے جایا گیا مگر کچھ ہی دیر میں وہ چل بسا۔ پیاز کا تنازع کبھی کبھی فائرنگ رینج میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔ اُتر پردیش کے شہر اِٹاوا کے علاقے علی گنج میں چند دوست ایک ہوٹل پر ناشتے کے لیے پہنچے۔ ہوٹل والے نے آملیٹ میں پیاز نہیں ڈالا۔ جب اِن نوجوانوں نے پیاز ڈالنے کی فرمائش کی تو ہوٹل والے نے کہا یہ مُنہ اور مَسور کی دال! یعنی پیاز اتنی مہنگی ہے کہ آملیٹ میں ڈالی ہی نہیں جاسکتی۔ معاملہ بڑھا، تکرار ہوئی اور پھر یہ ہوا کہ ایک نوجوان نے ریوالور نکال کر گولی داغ دی جس سے ہوٹل والا زخمی ہوگیا! پیاز کی ایسی عزت افزائی پر ہمیں تو رشک آرہا ہے۔ نوجوان اِس تیزی سے تو ’’پیار‘‘ کے معاملے میں بھی جذباتی نہیں ہوا کرتے! پیاز کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ وہ اب بھارتی عوام کے جسم سے خون بھی نچوڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ گجرات کے شہر سُورت میں ایک بلڈ ڈونیشن کیمپ کی انتظامیہ نے ایک پوائنٹ خون کے بدلے ایک کلو پیاز اور ایک پٹرول دینے کا اعلان کیا تو رگوں میں خون جس رفتار سے دوڑتا ہے اُس سے کہیں زیادہ رفتار سے سیکڑوں افراد بلڈ ڈونیشن کیمپ کی طرف دوڑے۔ کیمپ انتظامیہ نے خون کا ’’عطیہ‘‘ لینے کے بعد اُنہیں پیاز اور پٹرول دے کر رخصت کیا۔ اگر غالبؔ ہوتے تو اِس صورت حال کو یوں بیان کرتے ؎ رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جو پیاز پر نہ ’’نُچڑ‘‘ جائے وہ لہو کیا ہے! حالات کا چمتکار یہ ہے کہ دِلّی سرکار پیاز اور ٹماٹر پاکستان سے خریدنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایران، چین اور مصر سے بھی پیاز منگوانے پر غور کیا جارہا ہے مگر ترجیح پاکستان کو دی گئی ہے کیونکہ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے پیاز سستی بھی ملے گی اور بار برداری کے اخراجات بھی برائے نام ہوں گے۔ اگر پاکستان کے تاجر دُگنی قیمت پر بھی پیاز بھارت کو بیچیں تب بھی اُسے سستی پڑے گی کیونکہ اس وقت بیشتر بھارتی ریاستوں میں پیاز کے نرخ 80 اور 100 روپے فی کلو کے درمیان ہیں۔ پاکستان میں پیاز 30 تا 50 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔ بھارت میں یہ نرخ 35 روپے فی کلو تک بنتا ہے۔ پاکستان سے پیاز خریدنے کی بات سُن کر انتہا پسند ہندوؤں کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے ہیں۔ حالات کے چمتکار نے انتہا پسند ہندوؤں کے ’’اہنکار‘‘ کو خوب ہوا دی اور ملک کے مقبول ترین ہندی اخبار ’’جاگرن‘‘ نے پیاز درآمد کرنے کی خبر ’’اب پیاز بم سے مارے گا پاکستان!‘‘ کی سُرخی لگاکر شائع کی۔ حسد اور بغض کی شدت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان سے خاصی سستی پیاز مل رہی ہے تب بھی یہ غم ستائے جارہا ہے کہ پاکستان سے کچھ لینا پڑ رہا ہے! یعنی خواہش یہ ہے کہ تجارت کے نام پر پاکستان ہی کچھ نہ کچھ منگاتا رہے، بھارت کو کچھ نہ لینا پڑے۔ یعنی توازنِ تجارت کبھی ناموافق یا متوازن نہ ہو بلکہ پاکستان کے خلاف ہی رہے۔ خوار اگر آنا ہی ہے تو پیاز پر آنا چاہیے نہ کہ پاکستان پر۔ ایک ذرا سی ڈلی نے علاقائی سُپر پاور کو تِگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اور انتہا پسند ہندوؤں کو زیادہ یا اصل دُکھ اِس بات کا ہے کہ دِلّی سرکاری اور انٹیلی جنس مشینری ’’پیاز اسکینڈل‘‘ کے ڈانڈے کسی بھی طور پاکستان سے نہیں مِلا پارہی! اِتنے بڑے دردِ سر نے ملک کی نصف ریاستوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور پاکستان پر الزام لگانے کا موقع ہاتھ نہیں آرہا! بھارت میں تہواروں کا موسم چل رہا ہے۔ ایسے میں اگر سالن میں پیاز ہی نہ ہو تو کھانے کا کیا خاک مزا آئے گا۔ تہواروں کی لذت کو پھیکا پڑنے سے روکنے کے لیے پاکستان کو پیاز بھیجنے کی زحمت دی جارہی ہے! ویسے پاکستانی پیاز کئی ہفتوں سے دِلّی کے بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عوامی ردِعمل سے بچنے کے لیے بوریوں پر لیبل افغانستان کا لگایا گیا ہے! ایک زمانہ تھا جب مسلم فنکار بالی وڈ کی فلموں میں ہندوانہ ناموں سے کام کرتے تھے کیونکہ اِس صورت میں اُنہیں فلم بین آسانی سے قبول کرلیتے تھے۔ پچاس ساٹھ سال پہلے کی ذہنیت نے دم نہیں توڑا۔ اب یہ ذہنیت پیاز کے معاملے میں اُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ پاکستان کی پیاز کھانی ہے مگر لیبل افغانستان کا چڑھانا ہے! یہ تو ’’مشرقی عورت‘‘ والی ذہنیت ہوئی جو شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved