تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-07-2025

ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے

بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میں لکھنا تو کسی موضوع پر چاہتا ہوں مگر حالات وواقعات دھکیل کر کچھ اور لکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ تک سیاسی موضوعات سے دور رہنے کا ارادہ کر رکھا تھا مگر حالات کے جبر کے سامنے میرے ارادے کی بھلا کیا اوقات؟ بعض حالات میں بڑے بڑے لوگ اپنے ارادوں پر قائم نہیں رہ سکتے‘ مجھ جیسے بے حقیقت آدمی کی بھلا کیا اوقات ہے کہ اپنے ارادوں کی مضبوطی پر اترا سکے اور ان پر قائم رہ جائے۔
مجھ کم علم شخص کو کئی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ اس میں جہاں میری کم علمی کا دخل ہے وہیں الفاظ کے ''ول پھیر‘‘ قواعد وضوابط کی چک پھیریوں اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کا بھی بہت عمل دخل ہے اور ان امور کے ماہرین کی ساری مہارت اس بات میں پوشیدہ وپنہاں ہے کہ انکی باتوں کی تشریح کرنا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہ ہو اور اپنی بات کی وضاحت اور تشریح بھی وہ خود ہی کریں۔ کسی زمانے میں ایک بزرگ سے کہاوت سنی کہ ''لکھے موسیٰ پڑھے خدا‘‘ یہ کہاوت سن کر بڑی حیرانی ہوئی کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ اللہ جنت نصیب فرمائے ماسٹر عبدالقادر صاحب کو‘ مجھے کوئی ایسی مشکل یا الجھن درپیش آتی تو میں اُن سے رجوع کرتا تھا۔ ماسٹر عبدالقادر گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی (حالیہ ماڈل سکول) میں میرے آٹھویں جماعت کے انچارج اور انگریزی کے استاد تھے مگر میں ان سے اُردو وغیرہ کے مشکل محاورے اور ضرب الامثال بھی سمجھنے کیلئے رابطہ کر لیتا تھا۔ وہ بھی خوشدلی اور محبت سے مجھے سمجھاتے۔ ان سے یہ تعلق دسویں جماعت پاس کر کے سکول سے کالج جانے تک قائم رہا۔ بعد ازاں ان سے ملنے کا سلسلہ کئی سال جاری رہا مگر پھر سب کچھ وقت کی دھول میں گم ہو گیا۔ اب اس بات کا ملال ہے کہ میں ایسے نابغہ استاد کی خدمت کا حق ادا نہ کر سکا۔ رابطہ ختم ہو گیا اور برسوں بعد معلوم ہوا کہ وہ اپنے مالک کے ہاں جا چکے ہیں۔
ماسٹر عبدالقادر صاحب سے اس محاورے کا پوچھا تو وہ مسکرا پڑے اور کہنے لگے: یہ محاورہ اس طرح نہیں بلکہ اصل محاورہ ہے کہ ''لکھے مُو سا، پڑھے خود آ‘‘ یعنی بال جیسا باریک لکھتا ہے اور پھر اسے خود ہی آکر پڑھتا ہے۔ مزاحیہ شاعری کا بہت بڑا نام اور عصرِ حاضر میں مزاحیہ شاعری کی آبرو جناب انور مسعود‘ جو بے بدل شاعر ہونے کیساتھ ساتھ نہایت شاندار استاذ اور عالم ہیں‘ وہ اسی محاورے سے ملتا جلتا واقعہ سناتے تھے جس میں دو آدمی آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ایک نے بتایا کہ وہ خط لکھتا ہے اور اس خط سے دو پیسے کما لیتا ہے۔ دوسرا نے حیرت سے پوچھا کہ وہ دو پیسے کس طرح کما لیتا ہے جبکہ خط لکھنے کا معاوضہ تو ایک پیسہ ہے۔ پہلے نے بتایا کہ وہ خط لکھنے کا تو ایک پیسہ ہی لیتا ہے۔ تاہم اس کا لکھا ہوا خط کیونکہ خود اسکے علاوہ اور کوئی نہیں پڑھ سکتا‘ اس لیے اسے خط پڑھنے کیلئے بلایا جاتا ہے اور مکتوب الیہ اسے خط پڑھنے کے عوض ایک پیسہ دیتا ہے اس طرح وہ اپنے لکھے ہوئے خط کے طفیل دو پیسے کما لیتا ہے۔ پھر اس نے دوسرے شخص سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ اس نے بتایا کہ کرتا وہ بھی یہی کام ہے مگر وہ دوسرے کام سے یعنی اپنے لکھے خط کو پڑھنے والے ایک پیسے سے محروم ہے کیونکہ وہ اپنا لکھا ہوا خط خود بھی نہیں پڑھ سکتا۔ دراصل یہ ساری باتیں مجھے اس سال کے بجٹ کے حوالے سے یاد آئی ہیں۔
'سال‘ تو میں نے ایسے ہی لکھ دیا ہے‘ اس کم علم شخص کو مملکت خداداد پاکستان کا کوئی بھی بجٹ‘ کبھی بھی سمجھ نہیں آیا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ بجٹ وغیرہ جیسی محیر العقول دستاویز جن لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے‘ وہ بھی سمجھانے کے بجائے قوم کو مزید کنفیوز اور پریشان کرتے ہیں کہ یہ جھوٹ کا پلندہ حقیقت میں ان کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ اور بھلا سمجھ بھی کیسے آئے؟ یہ بنایا ہی اس طرح جاتا ہے کہ نہ کسی کو سمجھ آئے اور نہ ہی اس پر کوئی حقیقی بات واضح ہو سکے۔ بجٹ جتنا پوشیدہ‘ کنفیوز اور غیر واضح ہو گا اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا۔ اندھیرے میں سر پر پڑنے والے ڈنڈے کا نہ تو پتا چلتا ہے کہ کس نے مارا ہے اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے کہ کیوں مارا گیا ہے۔ یہی حال بجٹ کا ہے کہ کسی طبقے کو سمجھ نہیں کہ اس کیساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے ہر بجٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ غریب آدمی کا بجٹ ہے‘ وہ واقعتاً غریب آدمی کا بجٹ ہوتا ہے کیونکہ ٹیکس کا سارا بوجھ اسی غریب کے کندھوں پر لادا جاتا ہے۔ ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ غریب آدمی سے وصول کیا جاتا ہے اس لیے سرکار یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہ غریب آدمی کا بجٹ ہے۔ مجھے بجٹ کی تکنیکی چالاکیوں‘ اعداد وشمار کی گھمن گھیریوں اور استادیوں کی چک پھیریوں کا تو کوئی علم نہیں لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بجٹ کے اس سارے میلے میں غریب کا ''پَرنا‘‘ اتار لیا جاتا ہے۔
اب گاڑی کا نام کیا لکھوں‘ گاڑی غریب آدمی کی تو نہیں ہوتی۔ آپ اس گاڑی کو غریب آدمی کی نہ سہی‘ مگر چھوٹی سے چھوٹی گاڑی کی استطاعت رکھنے والے کے حوالے سے کم ترین آدمی کہہ لیں۔ تو اس گاڑی (جو گاڑیوں میں سستی ترین اور نیچے سے شروع ہونے والی نمبرون گاڑی ہے) کی قیمت میں دو لاکھ کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یعنی غریب قسم کی گاڑی جو پہلے بھی سستی نہیں رہی‘ اسکی قیمت میں مزید دو لاکھ کے قریب اضافہ ہو گیا ہے اور بمشکل پیسے جوڑ کر گاڑی لینے والوں کیلئے مزید مشکل پیدا کی گئی ہے لیکن دوسری طرف لگژری گاڑی یعنی پُرتعیش گاڑیوں کی قیمت میں ساٹھ لاکھ روپے تک کمی کی گئی ہے۔ یہ کمی اور زیادتی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں کی گئی ہے۔ یعنی اب گاڑی خریدنے کی کم ترین استطاعت رکھنے والے کو مبلغ دو لاکھ کے لگ بھگ زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی اور وہ طبقہ جسے پیسے کی نہ کوئی فکر ہے اور نہ ہی کمی‘ اسے موج میلے والی گاڑی کیلئے مبلغ ساٹھ لاکھ روپے تک کی مزید سہولت دی گئی ہے۔ کم آمدنی والے کو مزید ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کو لگژری برانڈ کی گاڑیوں کی خرید میں ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ دی گئی ہے۔ جن کے پاس محدود آمدنی اور محدود تر بچت ہے ان کے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور جن کے پاس لامحدود آمدنی اور ناقابلِ یقین حد تک مال پانی موجود ہے ان کو ٹیکس میں سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
گاڑیوں کی بات چلی ہے تو آئندہ سال سے ملک میں درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں پر ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں بتدریج کمی کرتے ہوئے اسے تین چار سال میں زیرو ڈیوٹی پر لے آیا جائے گا۔ یعنی چند سال بعد استعمال شدہ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کھل جائے گی۔ خدا جانے یہ مشورہ کس عقلمند نے دیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی جائے۔ میں ڈیوٹی وغیرہ کے نفاذ کا مخالف نہیں ہوں لیکن اگر اس قوم کا رویہ اور عادات دیکھی جائیں تو یہ ساری سوسائٹی پہلے سے اپنی اوقات اور حیثیت سے زیادہ خرچ اور نمود و نمائش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہم بحیثیت قوم کنزیومر سوسائٹی ہیں اور ایک بار ڈیوٹی فری گاڑیوں کی درآمد شروع ہو گئی تو امپورٹ بل راکٹ کی رفتار سے اس طرح اوپر جائے گا کہ پہلے سے درآمد اور برآمد میں موجود بے تحاشا فرق ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔
ایک ایک ارب ڈالر کیلئے دنیا بھر میں کشکول لے کر پھرنے والوں کا آمدنی اور خرچ کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اسے پورا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد سے صرف گاڑیوں کی خرید کے سلسلے میں زرِمبادلہ خرچ نہیں ہوگا ان گاڑیوں کیلئے درآمد کیے جانیوالے پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ بھی دُگنا ہو جائے گا اور مجھے نہیں امید کہ تب تک ہمارا قرضہ رول اوور کرنے والے اور مؤخر شدہ ادائیگی پر تیل فراہم کرنے والے ہم پر مزید کرم نوازی کر رہے ہوں گے۔ ہر بات کی آخرکوئی حد ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved