کیا 'خبر‘ جاں کَنی کے مرحلے سے دوچار ہے؟ کیا یقین و اعتبار سے محروم ہو کر وہ جنسِ خس و خاشاک کی طرح بے وقعت و بے وقار ہو جانے کو ہے؟ بظاہر کچھ ایسا ہی لگتا ہے اور یہ اُفتاد کی گھڑی ہے۔
'خبر‘ اُس وقت بھی سچی اور درست ہونے کے سبب معتبر تھی جب وہ صدیوں قبل گھوڑوں‘ خچروں اور اُونٹوں پر سفر کرتی تھی۔ اُس وقت بھی 'خبر ‘ کے سچ یا جھوٹ کو پَرکھنے کے پیمانے موجود تھے۔ اب زمانہ برق رفتار ہو چلا ہے یا شاید ٹیکنالوجی میں ہر آن آتی جدّت کیلئے برق سے بھی زیادہ کسی تیز پا پیمانۂ رفتار کی ضرورت ہو۔ اَب تو وقوع پذیر یا تشکیل پاتی 'خبر‘ براہِ راست دیکھی اور سُنی جا سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو بھی وہ چند لمحوں میں کرۂ ارضی کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پہنچ جاتی ہے۔ صدیوں کا سفر طے کرنے اور نئے رنگ روپ کے باوجود آج بھی 'خبر‘ کی 'صداقت‘ ہی اُس کا سرمایۂ تفاخر ہے۔
اگر 1822ء میں‘ ہری ہروت کے زیرِ سرپرستی اور منشی سدا سُکھ کی زیرِ ادارت جاری ہونے والے اُردو اخبار ''جامِ جہاں نما‘‘ کو برّصغیر پاک و ہند کا پہلا اردو اخبار مان لیا جائے تو اُردو صحافت دو سو سال سے زائد کا سفر طے کر چکی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران میں اخبارات کے ملبوس و پیرہن‘ انداز و اطوار‘ رنگ و آہنگ اور موضوع و اسلوب میں اَن گنت تبدیلیاں آئیں لیکن دو اخباری اداروں کو صحافت کی روح اور سانس کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک مدیر یا ایڈیٹر اور دوسرا رپورٹر۔ میں جانتا ہوں کہ صبح دم ہمارے ہاتھوں میں پہنچنے والے اخبار میں کتنے ہی گمنام یا پسِ پردہ کام کرنے والے کارکنوں کا خون پسینہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اُن کی محنت و ریاضت کا درجہ کسی طور کم نہیں۔ اس صنعت سے جڑا ایک لازوال کردار 'ہاکر‘ بھی ہے جو بطور خود ایک 'ادارے‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ 'ڈاکیا‘ تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ دیکھیے زقندیں بھرتے وقت کے اس سیلِ تند رَو میں 'ہاکر‘ کب تک خود کو بچا پاتا ہے۔
اخبار کی زینت ہمیشہ خبر ہی رہی۔ اس کا بانکپن بھی اُس کا غازۂ عارض و رخسار بھی۔ 'خبر‘ ہی اخبار کی اثر پذیری اور رعب و دبدبہ کی علامت رہی اور 'خبر‘ کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ 'رپورٹر‘ کے سر رہا۔ رپورٹر ہی ہے جو خبر کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ کرتا‘ دن اور رات کی تمیز کیے بغیر 'خبر‘ کی ٹوہ میں لگا رہتا‘ اقتدار کی پُراسرار خبر گاہوں میں بھٹکتا‘ مزدور اور محنت کش کی طرح خبروں کی کان میں پہروں کان کنی کرتا‘ اس کے درست ہونے کیلئے تحقیق و تصدیق کے جانکاہ مرحلوں سے گزرتا اور پھر کہیں اللہ کا نام لے کر‘ دھڑکتے دل کے ساتھ خبر فائل کر دیتا ہے۔ یہ مراحل‘ سنگلاخ چٹانوں سے جُوئے شِیر بہا لانے سے کم نہیں۔ امیر مینائی نے کہا تھا؛
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تَر کی صورت
خبر کی تلاش اور اُس کی سچائی کا یقین اچھے رپورٹر کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا مرکز و محور ہوتا ہے۔ 'خبر‘ اُس کی جان بھی ہوتی ہے‘ پہچان بھی اور مان بھی۔ سو وہ 'خبر‘ ہی کے حوالے سے جانا‘ پہچانا اور مانا جاتا ہے۔ خبر کی تلاش میں ناکامی کا دن اُس کیلئے 'یومِ سوگ‘ ہوتا ہے اور خبر کے غلط نکلنے کو وہ ماتھے کا ایسا بدنُما داغ سمجھتا ہے کہ ساتھیوں کا سامنا کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ 'مدیر‘ کا ادارہ اور 'ادارتی نظم‘ اتنا قوی تھا کہ کوئی غیرمصدقہ خبر اُس کی چھلنی سے نکل نہیں پاتی تھی۔ اخباری صحافت سے ٹیلی ویژن کے جہانِ رنگ و بُو میں آ نکلنے والے کُہنہ مشق رپورٹرز یا صحافی‘ آج بھی خبر کے بارے میں خاصی حسّاسیّت رکھتے ہیں گو اُنہیں پرانا‘ فرسودہ اور ازکار رفتہ خیال کیا جاتا ہے جو وقت کے تیز پا قافلے کی گَرد بَن چکے ہیں‘ لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ ''چھُٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔
میں جس اخباری صحافت کی بات کر رہا ہوں‘ وہ بھی اب عہدِ رفتہ کی کہانی لگتی ہے۔ گو آج بھی مستند اخبارات میں ایک طرح کا 'ادارتی نظم‘ موجود ہے اور 'رپورٹنگ‘ کا معیار بھی‘ لیکن اس نظم کی دھار پہلے جیسی تند و تیز نہیں رہی۔ جو کبھی شدید طور پر 'ناخُوب‘ تھا اَب 'خوب نہ سہی‘ 'گوارا‘ ہوتا جا رہا ہے۔ ریڈیو کے ادارے نے بھی 'خبر‘ کی اہمیت کو کم نہ ہونے دیا اور صحتِ زبان کے حوالے سے بھی نہایت اعلیٰ معیار قائم کیا۔ زیڈ اے بخاری کے عہد میں تلفظ اور زبان کے حوالے سے جو کڑے پیمانے وضع ہوئے وہ دیر تک قائم رہے۔ اب ٹی وی بھی 'میری مرضی‘ کے اصول پر کار فرما ہے۔ اگر اخبارات‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو جیسے ادارے بھی اَنٹ شَنٹ لکھنے اور بولنے لگیں گے تو 'اُردو‘ کا کیا بنے گا؟
اور اب ''سوشل میڈیا‘‘ نے ایک بڑے ریکٹر سکیل کے زلزلے کی طرح سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ صحتِ زبان اور تلفظ جیسے خرخشوں کو تو جانے دیجیے 'خبر‘ تک کا چہرہ بُری طرح مسخ کر دیا گیا ہے۔ ہر قسم کی حدود و قیود سے بے نیازی اور سچ جھوٹ کی تمیز کی بے لحاظی اس کا منشورِ اولیٰ بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ جس 'خبر‘ کو جنوں شعار رپورٹر‘ کوہِ قاف کی شہزادی جان کر‘ کھٹن راستوں پر اُس کی تلاش کو نکلتے تھے‘ وہ اب ''اُس بازار‘‘ کی بیسوا بنا دی گئی۔ خبر کی تحریم و تکریم‘ اُس پر اعتبار اور یقین میں ہے۔ جوں ہی اُس کے چہرے پر شک‘ جھوٹ اور بے یقینی کی ہلکی سی گرد پڑی‘ وہ اپنی عفّت و عصمت گنوا بیٹھی۔ سوشل میڈیا کے شہ سوار گئے عہد کے اُن رپورٹرز کی مشقت کو کارِ حماقت خیال کرتے ہیں جن کے لیے خبر تلاشنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس طرح کی سخت کوشی اور پتّہ ماری سے گزیر کرتے ہوئے وہ ''خبر تلاشنے‘‘ کے بجائے ''خبر تراشنے‘‘ کے ہُنر میں طاق ہونے کو زیادہ سود مند خیال کرتے ہیں۔ جو اس فن کا جتنا بڑا اُستاد یا فن کار ہے‘ وہ اپنے قدکاٹھ کے اعتبار سے اُتنی ہی بے بال و پَر خبر تراشتا ہے۔ ''خبریت‘‘ سے محروم اس آمیزے میں عام آدمی کے سطحی محسوسات کی تسکین کا وافر سامان موجود ہوتا ہے۔ سو گلشن کا کاروبار کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتا‘ ہمیشہ عروج پہ رہتا ہے۔ جھوٹ سے لذت کشید کرنے والے بازارِ حصص میں اس کی قیمت کبھی نہیں گرتی۔
میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکاری نہیں۔ خود اس سے استفادہ بھی کرتا ہوں۔ رہنمائی بھی لیتا ہوں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس طفلِ خود معاملہ نے 'خبر‘ کی چادرِ عصمت کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔
کچھ دن قبل صدر آصف علی زرداری کی رخصتی اور اشارے کنایے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ایوانِ صدارت کا رُخ کرنے کی خبر نے‘ ہلچل مچا دی۔ حکومتی حلقوں سے اس کی واضح تردید بلکہ کئی تردیدیں جاری ہو گئیں لیکن اس طرح کی امر بیلیں آسانی سے نہیں مرتیں۔ ایسی خبروں کے سیاسی مضمرات اس وقت میرا موضوع نہیں۔ میرے لیے تشویش کا سبب یہ ہے کہ کیا خبر کی بے اعتباری‘ بے یقینی اور بے چہرگی کا سیلِ بلا روایتی اور کسی حد تک مستند میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے؟ کیا صدیوں کے سفر کے بعد آج 'خبر‘ جاں کنی کے مرحلے سے دوچار ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ واقعی اُفتاد کی گھڑی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved