تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     15-07-2025

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

مکہ میں اسلام کی دعوت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ سلیم الفطرت ارواح شدید مشکلات کے باوجود حلقہ بگوشِ اسلام ہو رہی تھیں۔ کسی ایک فرد کا بھی مسلمان ہونا یہ پیغام دیتا تھا کہ کفر کی عمارت سے ایک اینٹ گر گئی اور اسلام کی آغوش میں ایک اور ہیرا آ گیا۔ کفر کی قوتوں کو اس صورتحال نے شدید تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ اہلِ ایمان پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے کہ جن کے حالات پڑھ کر آج بھی دل دہل جاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
رسولِ رحمتﷺ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں‘ ایک جاں نثار‘ عزیمت کا کوہِ گراں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے: ظلم حد سے بڑھ چکا‘ آپ اللہ سے ہمارے لیے نصرت کی دعا کیوں نہیں کرتے؟ آپﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے‘ چہرۂ اقدس سرخ ہو گیا۔ یہ سوال کرنے والے صاحبِ عزیمت صحابی حضرت خبابؓ بن ارت تھے۔ ان کی بات سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو اس سے بھی سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا۔ ان کے جسم سے لوہے کی کنگھیوں سے گوشت نوچا گیا۔ ان کو زمین میں گاڑ کر سر پہ آرا چلایا گیا اور ان کو دو حصوں میں چیر کر رکھ دیا گیا۔ اللہ کی نصرت ضرور آئے گی مگر تم عجلت کرتے ہو۔ اللہ اس دین کو ضرور غالب کرے گا اور تم دیکھ لو گے کہ اکیلا سوار صنعا سے حضرموت تک جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا اس کو ڈر نہیں ہو گا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا‘ حالانکہ ابھی تم پر وہ آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے اہلِ ایمان پر آئی تھیں۔ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ) جان لو اللہ کی مدد قریب ہے۔ (البقرہ: 214)
حضرت خبابؓ کا تعلق قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ ابن سعد کے مطابق آپ کا نسب یہ تھا: خبابؓ بن ارت بن جندلہ بن سعد بن خزیمہ بن کعب بن سعد بن زید مناۃ بن تمیم۔ وہ ایک آزاد خاندان کے چشم وچراغ تھے مگر کسی حادثے یا قبائلی دشمنی کی وجہ سے انہیں کچھ لوگوں نے ان کے گھر کے باہر سے اٹھایا اور مکہ میں آ کر فروخت کر دیا۔ بکتے بکاتے وہ قریش کی ایک عورت ام انمار بنت سباع کے ہاتھ آ گئے۔اس خاتون کا تعلق قبیلہ بنو خزاعہ سے تھا۔ یہ بہت سنگدل‘ لالچی اور انتہائی بخیل خاتون تھی۔ اس نے اپنے غلام کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ ہر مہینے ایک مخصوص رقم اس کو ادا کیاکرے گا۔ یہ رقم بہت زیادہ تھی تاہم مجبور مگر تنومند اور ذہین غلام نے شرط قبول کر لی۔ خباب کے خاندان میں کئی لوگوں نے آہن گری کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا۔ چونکہ عرب قبائل میں جنگی ہتھیاروں کی بڑی طلب ہوتی تھی اس لیے ہتھیار بنانے والے اچھی خاصی رقم وصول کیا کرتے تھے۔ اس تمیمی نوجوان نے بھی سوچ بچار کے بعد یہی پیشہ اختیار کر لیا۔ چند مہینے سخت محنت مزدوری کرکے کچھ رقم جمع کی اور اس سے ضروری اوزار خرید لیے۔ پھر ایک بھٹی بنا کر نیزے‘ تلواریں اور تیر بنانے کا کام شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ کام پھیلتا گیا اور ڈھالیں اور زرہیں بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ اب یہ غلام مالکن کو مقررہ رقم ادا کرنے کے بعد بھی کافی بچت کر لیتا تھا۔ یہ معاشی کامیابی اپنی جگہ خوش آئند مگر یہ نوجوان آخر تھا تو غلام ہی۔ جب شمعِ اسلام نے روشنی پھیلانا شروع کی تو یہ پروانہ بھی دیوانہ وار اس کی طرف لپکا۔ حضرت خبابؓ سادس الاسلام کہلاتے ہیں‘ یعنی آپؓ اسلام قبول کرنے والے چھٹے فرد تھے۔
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خودآگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پہ اسرارِ شہنشاہی
عجیب بات یہ ہے کہ عموماً کمزور لوگ قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کرتے تھے مگر اس پُرجوش نوجوان نے اپنے اسلام کو خفیہ رکھنے کے بجائے کھلے عام اس کا اظہار کر دیا۔ بس پھر کیا تھا‘ ظلم کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے کفار نے اس مردِ حق کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچائیں مگر آپؓ نے کبھی کمزوری نہ دکھائی ۔مکہ میں سب سے زیادہ تعذیب واذیت کا شکار آپؓ ہی کو بنایاگیا۔ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا اور پہلو بدلنے سے روکنے کیلئے یا تو اوپر سے کفار دبا کے رکھتے یا بھاری پتھر سینے پر رکھ دیتے۔ اس صابر وبہادر محبِّ اسلام کا خون اور چربی پگھل کر ان انگاروں کو بجھاتی اور ساری پیٹھ جل کر زخموں سے چور چور ہو جاتی۔ آپؓ کی پیٹھ کا رنگ ان زخموں کی وجہ سے زندگی بھر یوں سفید رہا جس طرح برص کے مریضوں کا جسم ہوتا ہے۔
حضرت خبابؓ کو اللہ نے بہت اچھا ذہن اور مضبوط حافظہ عطا فرمایا تھا۔ آپ دارِ ارقم میں نبی پاکﷺ سے قرآن سنتے اور اسے یاد کر لیتے تھے۔ آپؓ آغازِ اسلام ہی سے معلم قرآن کے مقام پر فائز تھے۔ حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام میں آپؓ کا بھی حصہ ہے۔ آپؓ ہی حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور بہنوئی (عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی) حضرت سعیدؓ بن زید کو قرآن کی تعلیم دینے کیلئے ان کے گھر میں موجود تھے۔ جب عمرؓ اپنی بہن اور بہنوئی کے قبولِ اسلام کی خبر سن کر انہیں سزا دینے اور اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے وہاں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے معلم کو گھر کے پچھلے کمرے میں بھیج دیا تاکہ انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔ مختصر یہ کہ غصے سے بھرے عمر نے بہن اور بہنوئی کو مارا پیٹا‘ وہ دونوں زخمی ہو گئے۔ اس موقع پر زخمی بہن نے کہا ''عمر سن لو! تم ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو‘ ہمارے جسم کا قیمہ بنا سکتے ہو مگر ہمیں کفر کی جانب واپس نہیں لے جا سکتے‘‘۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ کے دل پر جو چوٹ لگی تو اس نے زندگی کا رخ بدل دیا۔ انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ مجھے وہ صحیفہ دو جو تم پڑھ رہے تھے۔ حضرت فاطمہؓ بنت خطاب نے کہا کہ ہم وہ صحیفہ تمہیں نہیں دے سکتے کیونکہ کوئی غیر مسلم اسے نہیں چھو سکتا۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا پھر انہیں وہ آیات پڑھائی گئیں جو سورہ طٰہٰ کے آغاز میں ہیں۔ یہ آیات سنتے ہوئے حضرت عمرؓ کی حالت بدلتی جا رہی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر حضرت خبابؓ اندرسے باہر نکل آئے اور کہا: اے عمر! میں نے نبی پاکﷺ کو دعا کرتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ! تُو اسلام کی مدد فرما‘ دو عمروں (عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام) میں سے کسی ایک کو‘ جو تجھے محبوب ہو‘ اسلام کے دامن میں بھیج کر۔ پس اس کے بعد حضرت عمرؓ سیدھے دارِ ارقم میں پہنچے اور حلقۂ بگوش اسلام ہو گئے۔ یوں اس عظیم صحابی کو اسلام کی طرف لانے میں بہن اور بہنوئی کے ساتھ حضرت خبابؓ کا بھی اہم کردار ہے۔
اہلِ ایمان کو ہر طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ایمان کی حلاوت اپنے دل میں پا لیتے ہیں وہ ہر امتحان میں اللہ کی نصرت سے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ قریش کے بدبخت سردار عاص بن وائل نے حضرت خبابؓ سے ایک اچھی خاصی رقم قرض لی۔ جب آپؓ نے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا: میں تمہیں ایک درہم بھی واپس نہیں کروں گا جب تک تم ہمارے دین میں واپس نہ آ جائو۔ آپؓ نے فرمایا: جب تک تم مر کے دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہ آ جائو‘ میں دامنِ رسالت مآبﷺ کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ (یعنی جس طرح تمہارا مر کر دنیا میں دوبارہ جنم لینا ناممکن ہے‘ میرا اسلام چھوڑنا بھی ناممکن ہے) اس کے جواب میں وہ بدبخت تمسخر کے انداز میں کہتا: اچھا پھر انتظار کرو‘ جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تمہارا قرض چکا دوں گا۔ وہ کافر تو تمسخر میں یہ بات کہتا تھا مگر دیکھیے اس کے اندر کتنی حقیقت ہے۔ اُس روز جب مردے زندہ ہوں گے اور دربارِ ربانی میں حاضری ہو گی تو ایک ایک پائی کا حساب چکایا جائے گا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved