تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     16-07-2025

دو نمبر سیاست میں ایک نمبر احتجاج کیسا؟

پاکستانی سیاست کا یہ اصول لکھ لیں کہ کوئی احتجاج مخصوص محکموں کی شراکت داری یا اشاروں کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔ ایوب خان کے خلاف 1968ء کے آخر میں احتجاج کی لہر اٹھی تو تب کے کمانڈر اِنچیف جنرل یحییٰ خان نے اُن سے فاصلہ اختیار کر لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر رفیع رضا کی کتاب میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ یحییٰ خان اور بھٹو کا خفیہ گٹھ جوڑ ہو چکا تھا کہ ایوب خان سے جان چھڑائی جائے۔ پاکستان میں یہی دیکھا گیا ہے کہ کوئی لیڈر بزرگی کے رتبے پر پہنچے تو اُس کے خلاف جذبات گرم ہونے لگتے ہیں۔
بھٹو کے خلاف مارچ 1977ء میں تحریک شروع ہوئی تو جوں جوں احتجاج نے زور پکڑا جنرل ضیا الحق اور اُن کے قریبی ساتھی اُن سے دوری اختیار کرنے لگے۔ حتیٰ کہ بالآخر اُن کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا سراپا احتجاج ہوئے تو ابھرتے ہوئے احتجاج کو روکنے میں مخصوص محکموں نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ اس بات کا ذکر کئی حوالوں سے ہو چکا ہے کہ جنرل مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو مستعفی ہونے کے لیے بلایا تو اُس میٹنگ کے اختتام پر جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جو اہم محکمے کے سربراہ تھے‘ نے چیف جسٹس چودھری سے ہاتھ یوں ملایا جیسے تقویت کا اشارہ دے رہے ہوں۔ وکلا تحریک اس لحاظ سے انوکھی تھی کہ پُرزور طریقے سے اسے کچلنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ نئے نئے ٹی وی چینل آئے تھے اور ان کی وساطت سے تحریک کو مکمل کوریج ملی۔ لمبی لمبی اور جوشیلی تقریروں کی لائیو کوریج ہوتی اور کوئی روکنے والا نہ تھا۔ جو ہتھکنڈے آج کل رائج الوقت ہو چکے ہیں ان کا عشرِ عشیر بھی اس تحریک میں استعمال نہ ہوا۔
بینظیر بھٹو 1988ء میں وزیراعظم بنیں تو کیا مقتدرہ اور کیا صدر غلام اسحاق خان‘ سب ان کے خلاف تھے۔ اس زمانے میں ہر دلعزیز جماعت اسلامی مخصوص محکموں کے کام آیا کرتی تھی۔ واردات یوں ہوتی کہ آبپارہ سے احتجاج شروع ہوتا اور ڈی چوک پر دھرنا دیا جاتا۔ دھواں دار تقریریں ہوتیں۔ مقصد حکومت کو یاد دلانا ہوتا کہ حکومت ہے تو اس کے گرد دائرے بھی ہیں۔
وقت تھا جب نواز شریف مقتدرہ کے ڈارلنگ ہوا کرتے تھے۔ پنجاب تک رہے تو ڈارلنگ کی حیثیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وزیراعظم بنے تو بہت عرصہ تک ڈارلنگ رہے لیکن مشرف کا دور آیا جب مقتدرہ سے اُن کی اَن بن ہو گئی اور پھر جب 2013ء میں تیسری بار وزیراعظم بنے تو تب تک ڈارلنگ والی بات ماضی کے جھروکوں میں گم ہو چکی تھی۔ ایک نیا ڈارلنگ افق پر اُبھر چکا تھا۔ یہ بات تو اب عام ہو چکی ہے کہ 2014ء کے دھرنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ عمران خان تو یہاں پہلے سے موجود تھے اور حضرت علامہ طاہر القادری کو دھرنوں کی شان بڑھانے کے لیے لندن سے تیار کرکے لایا گیا۔
(ن) لیگ سے فراغت کے بعد ہمارا تمام زور انگریزی کالم نویسی پر ہوتا تھا۔ کس مزے سے کالموں میں زہر بھرے نشتر چلتے تھے۔ بے تاب آرزو یہی تھی کہ حکومت کی چھٹی ہو۔ ایسا نہ ہوا لیکن حکومت کمزور ضرور ہوئی اور شاید دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ یہاں تک ہی مقصد رکھتے تھے۔ اُس وقت کے اپنے کالموں پر آج کچھ شرمندگی سی ہوتی ہے۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
پاناما پیپرز مخصوص محکموں کی ایجاد نہ تھے لیکن اُن کا بھرپور فائدہ ضرور لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بنی تو اُس کے چھ ممبران تھے جن میں سے دو مخصوص محکموں کے تھے۔ ایک دفعہ بات ایک اہم عہدیدار سے ہو رہی تھی (جو بعد میں بھی اونچی اڑانوں میں رہے اور اب زیر عتاب ہیں‘ وقت کا پہیہ یوں گھومتا ہے) تو میں نے جملہ شروع کیا کہ جے آئی ٹی کے چھ ممبران ہیں‘ آگے کچھ کہنے لگا تو میری بات کاٹتے ہوئے اور ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا کہ سامنے تو چھ تھے‘ تو پیچھے چھ سو۔ یوں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مدت میں جے آئی ٹی کی رپورٹ مکمل ہوئی اور بذریعہ سپریم کورٹ نواز شریف کی چھٹی کا اہتمام ہوا۔
ہائبرڈ کا لفظ آج کل زیادہ استعمال ہو رہا ہے حالانکہ ہائبرڈ نظام کی ترتیب 2018ء کے الیکشن میں شروع ہو چکی تھی۔ (ن) لیگ پہلے ہی زخم خوردہ تھی۔ مقابلے میں پی ٹی آئی تھی جسے پوری طرح پیچھے سے آکسیجن مل رہی تھی۔ ایک دو بار تو ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا کہ کسی مخصوص جگہ پر ایک دروازے سے کوئی سیاسی آ رہا ہے اور دوسرے سے جا رہا ہے۔ الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے اور حکومت بن گئی تو ہائبرڈ نظام تشکیل پا چکا تھا‘ سامنے پوری آب وتاب سے منتخب حکومت اور پیچھے مقتدرہ کے لوازمات۔
یہ عام سی باتیں ہیں اور ہر ذی شعور سیاسی طالب علم کو ان کا ادراک ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو یہ باتیں کیوں سمجھ نہیں آ تیں؟ جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی شکل میں مقتدرہ نے ان کی حکومت سے ہاتھ اُٹھایا تو خطرے کی گھنٹی بجتی اور آنے والے وقت کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات کا سوچا جاتا۔ اس کے برعکس جماعت کسی اور ڈگر پر چلنے لگی اور جن ہاتھوں نے انہیں اوپر پہنچایا تھا اُنہی کے خلاف للکارے لگنے لگے۔ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کے ووٹ کے بعد کچھ سنبھلنے کی ضرورت تھی۔ قومی اسمبلی سے باہر نکلنا مدبرانہ عمل نہ تھا۔ کتنے جتنوں کے بعد پرویز الٰہی کی حکومت پنجاب میں بنی تھی۔ لیکن کسی عجیب سوچ کے تحت کے پی اور پنجاب کی حکومتوں کو قربانی کی سولی پر چڑھا دیا گیا۔ سوچ شاید یہ تھی کہ مقتدرہ بے بس ہو جائے گی اور کے پی‘ پنجاب اور قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر انتخاب کرانے پڑیں گے۔ ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کسی عجیب خلا میں گھوم رہی تھی۔ سوچنے کا مقام تھا کہ جس مقتدرہ نے پی ٹی آئی کو اقتدار کی سیڑھی پر چڑھایا وہ پی ٹی آئی کے سامنے کیسے بے بس ہو جائے گی؟
آج سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ الیکشن ہوئے بھی تو بہت بعد میں۔ یہ اور بات ہے کہ الیکشن کے راستے کو ہموار کرنے کیلئے تمام ہتھکنڈے ناکام ثابت ہوئے اور عوام کی اکثریت نے ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں ڈالے لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ الیکشن کی رات ناموافق نتائج سکرین پر نظر آنے لگے تو یکدم عالمِ غیب سے پیغام آیا کہ بھاڑ میں جائے ووٹوں کی گنتی‘ نتائج جنبشِ قلم سے مرضی کے تراشے جائیں۔ نہ صرف ایسا ہوا بلکہ اُن کرشماتی نتائج کی بنا پر اسمبلیاں ترتیب دی گئیں اور اُن کرامات بھری اسمبلیوں سے حکومتیں چنی گئیں۔ وہی حکومتیں آج تک قائم ہیں۔
لہٰذا کچھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان حالات کو سامنے رکھ کے ہی کوئی سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ یہ بے تکے سے اعلانات کہ فلاں تاریخ کو ملک گیر احتجاج ہو گا ‘ان کا کیا معنی اور ان سے کیا حاصل؟ چکوال میں بھاری اکثریت سے پی ٹی آئی امیدوار جیتے (گو الیکشن کمیشن نے یہ بات تسلیم نہ کی)۔ الیکشن کے ایک ہفتے بعد احتجاج کی کال دی گئی۔ تحصیل چوک سے بھون چوک تک بمشکل پچاس ساٹھ آدمی اکٹھے ہو سکے۔ ووٹ ڈالنا اور چیز ہے‘ احتجاج اور تحریک مختلف کاوشیں۔ کچھ سوچ ہو کچھ غور وفکر۔ موجودہ حالات کا کچھ ادراک ہو۔ قیادت کی افراتفری تماشا بنتی جا رہی ہے۔ مانا لیڈر جیل میں ہے لیکن لیڈر جیل جاتے ہیں اور جماعتیں چلتی رہتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved