تحریر : محمد حسن رضا تاریخ اشاعت     16-07-2025

تحریک یا تماشا؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عوامی تحریکوں نے ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ کبھی آمریت کے خلاف مزاحمت بنیں‘ کبھی عدلیہ کی آزادی کیلئے لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے‘ تو کبھی ایک قیدی سیاستدان کی رہائی کو مقصد بنا کر تحریک نے جنم لیا۔ 1968ء کی ایوب مخالف تحریک ہو یا 2007ء کی وکلا تحریک‘ ہر ایک نے کسی نہ کسی موڑ پر ملکی سیاست کی سمت کا تعین کیا۔ ان تحریکوں کی کامیابی کا راز ان کی قائدانہ یکجہتی‘ واضح بیانیے‘ عوامی شرکت اور نظم وضبط میں پنہاں تھا۔ مگر آج جب پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کے نعرے کے ساتھ خود کو ایک عوامی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ماضی کی تحریکوں کے مقابلے میں اس کا عکس دھندلا‘ بے ربط اور غیر سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔
26 اپریل 2024ء کو اعلان کیا گیا کہ اگر انصاف نہ ملا تو خیبر پختونخوا سے ایسی لہر اُٹھے گی جو عمران خان کو رہا کروا کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ 10 اگست کو حلفیہ بیان آیا کہ اگر ایک سے دو ہفتے میں خان صاحب کو قانونی طور پر رہا نہ کیا گیا تو ''خدا کی قسم ہم خود رہا کریں گے‘‘۔ 9 نومبر کو جذباتیت اپنے عروج پر پہنچی جب کہا گیا کہ ''اگر ہم گھروں سے نکلے تو میتیں نہ لانا‘ جنازے پڑھ لینا‘‘۔ یہ الفاظ کسی سنجیدہ انقلابی جدوجہد کا پیش خیمہ نہیں لگتے بلکہ ایسی سیاست کا پتا دیتے ہیں جس میں لب ولہجہ بلند ہے مگر حکمتِ عملی ندارد۔
اب جولائی 2025ء میں یہی قیادت تین ماہ کی نئی مہلت دے رہی ہے۔ نہ کوئی لائحہ عمل‘ نہ کوئی عملی قدم۔ وہی تکراری بیانات‘ وہی ڈرامائی انداز‘ اور نتیجہ صفر۔ عوامی جذبات سے کھیلنے کا یہ انداز اب ایک بداعتمادی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی رہنما کو قید میں ڈالا گیا ہو۔ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا 1962ء میں گرفتار ہوئے بعد میں عمر قید سنائی گئی‘ افریقین نیشنل کانگریس اور دنیا بھر میں تحریک چلائی گئی‘ بین الاقوامی پابندیاں‘ بائیکاٹ اور سفارتی دباؤ بڑھ گیا‘ بہت دیر تک تگ ودو کے بعد آخر کار 11 فروری 1990ء کو رہا ہوئے اور رہا ہو کر جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بھی منتخب ہوئے۔ ملک میں اپارتھائیڈ سسٹم کا خاتمہ ہوا۔ یہ ایک کامیاب ترین مثال ہے۔ جواہر لال نہرو کو انگریزوں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار جیل بھیجا‘ قید کا مجموعی دورانیہ تقریباً نو سال بنتا ہے‘ کانگریس پارٹی نے بھرپور تحریک چلائی‘ پھر رہائی ملی اور بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے‘ یہ تحریک آزادی کی جنگ کا حصہ تھی۔ میانمار (برما) سے تعلق رکھنے والی آنگ سان سوچی‘ جو پہلی بار 1989ء میں نظربند ہوئیں‘ کئی بار رہا ہوئیں اور پھر گرفتار ہو گئیں۔ 2010ء میں مکمل طور پر رہا ہوئیں اور رہا ہو کر میانمار کی ڈی فیکٹو لیڈر بن گئیں۔ 2021ء کی فوجی بغاوت میں دوبارہ گرفتار ہو گئیں۔ یہ کامیابی جزوی رہی کیونکہ فوج نے دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ برازیل کے لولا ڈیسلوا 2018ء میں کرپشن کیس میں قید ہوئے‘ 580 دن تک جیل میں رہے‘ ورکرز پارٹی نے بھرپور سیاسی اور عوامی تحریک چلائی‘ ساتھ میں سپریم کورٹ میں قانونی جنگ بھی لڑی‘ عالمی دباؤ بھی بڑھایا‘ 2019ء میں رہا ہوئے۔ 2022ء میں دوبارہ برازیل کے صدر بنے۔ شیخ مجیب الرحمن 1971ء میں پاکستان میں گرفتار ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش بننے تک تحریک چلی اور 1972ء میں رہا ہوئے‘ بنگلہ دیش کے پہلے صدر اور بعد میں وزیراعظم بھی بنے۔ فلپائن کی کوریزون اکینو سیاستدان تو نہیں تھیں البتہ مارشل لاء مخالف رہنما ضرور تھیں‘ انہوں نے اپنے شوہر Ninoy Aquino کے قتل کے بعد مارشل لاء کے خلاف تحریک شروع کی۔ فردیناند مارکوس کے خلاف عوامی تحریک پی پی آر (پیپل پاور ریولوشن) کامیاب ہوئی۔ مارکوس جلاوطن ہوا اور کوریزون اکینو صدر بن گئیں۔ یہ رہائی نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی اور اقتدار میں تبدیلی کی بڑی مثالیں تھیں۔ سب کی رہائی ان کی تحریکوں کی سنجیدگی اور تسلسل کی مرہون منت تھی۔
تحریک انصاف کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری کو ایک مؤثر عوامی تحریک میں بدلتی‘ مگر اندرونی خلفشار نے ہر امید کو روند ڈالا۔ آج تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کم اور مفادات کا میدان زیادہ لگتی ہے۔ علیمہ خان‘ نورین خان‘ خدیجہ شاہ‘ قاسم زمان اور شیر شاہ پر مشتمل خاندانی گروپ اپنی جگہ فعال ہے۔ دوسری طرف بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ قانونی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔ علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے الگ پرچم اٹھائے کھڑے ہیں‘ جبکہ عالیہ حمزہ‘ صنم جاوید اور طیبہ راجہ فیلڈ میں متحرک ایک اور گروپ کی قیادت کرتی ہیں۔ پارٹی میں یہ تقسیم اختلافِ رائے نہیں‘ واضح گروہ بندی ہے جو فیصلہ سازی‘ تنظیمی اتحاد اور تحریک کی افادیت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ہونے والی ملاقات کو پارلیمانی مشاورت قرار دیا گیا مگر حقیقت میں یہ محض ایک سیاسی کھانے کا اجتماع تھا۔ منتخب ارکانِ اسمبلی کو باہر گیٹ پر کھڑا رکھا گیا‘ سینئر قیادت کو بلایا ہی نہ گیا‘ چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ اور سینئر رہنما اعظم سواتی لاعلم رہے۔ نہ کوئی ایجنڈا تھا نہ کوئی تحریری لائحہ عمل۔ جنہوں نے تحریک کو مہم کے طور پر پیش کرنا تھا وہ تصویریں بنوا کر چلتے بنے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔ سنجیدگی‘ مشاورت اور مرکزیت جیسی بنیادی خصوصیات ناپید ہیں۔ پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے غیر واضح مگر اہم عنصر رہے ہیں۔ ماضی میں عمران خان انہی اداروں کی حمایت سے اقتدار میں آئے مگر موجودہ حالات میں جماعت نہ صرف حکومتی صفوں سے الگ تھلگ ہے بلکہ مقتدرہ کے ساتھ بھی ایک فاصلے پر کھڑی ہے۔ جنوری 2025ء میں شروع ہونے والے مذاکرات جو عدالتی اصلاحات اور سیاسی قیدیوں کی رہائی پر مرکوز تھے‘ محض چند ہفتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ حکومت نے مذاکرات کو سنجیدہ لیا نہ اپوزیشن نے عملیت کا مظاہرہ کیا۔ نتیجہ؟ احتجاج‘ پھر احتجاج‘ اور آخرکار خاموشی۔
ادھر حال ہی میں حکومت نے فیڈرل کانسٹیبلری کے قیام کا اعلان کیا ہے جو ملک گیر سطح پر احتجاجوں اور سیاسی اضطراب پر قابو پانے کیلئے نیم فوجی ادارہ ہو گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فورس خاص طور پر پی ٹی آئی کی ممکنہ تحریکوں کو محدود کرنے کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے: اب مزاحمت محض نعرے بازی سے نہیں منظم اور نظریاتی حکمتِ عملی ہی سے کامیاب ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کو حکومت دینے کی تجویز بھی زیر غور آئی ہے‘ مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پی ٹی آئی کو برقرار رکھا جائے تاکہ اس کی کارکردگی اس کے خلاف ایک سیاسی چارج شیٹ بن جائے۔ یہ حکمتِ عملی سیاسی طور پر کارگر تو ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو اب نہ صرف رہائی کی جنگ لڑنی ہے بلکہ اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا دفاع بھی کرنا ہے۔
تحریکیں صرف جلسے‘ نعرے اور وڈیوز سے نہیں چلتیں۔ تحریک قربانی‘ نظریہ‘ اور مشترکہ ویژن کا نام ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس عوامی سپورٹ‘ کارکن اور سوشل میڈیا موجود ہے مگر نہ قائدانہ صلاحیت ہے‘ نہ سمت کا تعین۔ اگر یہی صورتحال رہی تو یہ تحریک انصاف نہیں بلکہ تحریکِ اَنا کہلائے گی جہاں ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے اور کوئی کسی کو سننے کو تیار نہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن جماعتوں میں داخلی اتحاد اور نظریاتی پختگی نہ ہو وہ بڑے سے بڑا موقع بھی گنوا دیتی ہیں۔ اگر عمران خان کی رہائی ایک عوامی مطالبہ ہے تو اس کیلئے پہلے جماعت کو اپنی صفوں میں اتحاد‘ سنجیدگی اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا ورنہ آنے والے وقت میں یہ تحریک تاریخ کے صفحات پر ایک غیرسنجیدہ تجربہ بن کر رہ جائے گی۔ ایک ایسا تماشا جو سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا مگر اندر سے مفاد پرستی اور انا پرستی کا مجموعہ تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved