تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     17-07-2025

ٹرمپ برکس سے کیوں ناراض ہیں؟

رواں ماہ کے آغاز میں برازیل کے دارالحکومت ریوڈی جنیرو میں ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے گیارہ ممالک کی تنظیم برکس (BRICS) کے سربراہی اجلاس کا انعقاد بین لااقوامی تعلقات میں یقینا ایک اہم واقعہ ہے مگر اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے برکس کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا۔ برکس‘ جس میں روس‘ چین‘ بھارت‘ برازیل‘ جنوبی افریقہ‘ انڈونیشیا‘ ایران‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل ہیں‘ کرۂ ارض کے جنوبی حصے سے تعلق رکھنے والے ممالک کی ایک ایسی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد معاشی ترقی‘ تجارت کا فروغ‘ سرمایہ کاری میں اضافہ اور سیاسی‘ سلامتی اور ثقافتی امور میں تعاون کو آگے بڑھانا ہے۔ اس تنظیم نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں 126مختلف شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے باہمی تعاون کو وسعت دینے پر زور دیا‘ اور امریکہ اور اسرائیل کا نام لیے بغیر ایران پر حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر ان کی مذمت کی۔ اس کے ساتھ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے علاوہ مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیل کے انخلا اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو مسئلے کا واحد حل قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے برکس کی پالیسیوں کو امریکی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے ارکان اور دیگر ممالک‘ جو برکس کی پالیسیوں کو اپناتے ہیں‘ پر معمول سے 10فیصد زیادہ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے برازیل خاص طور پر اس کے صدر لولا ڈی سلوا (Lula da Silva) کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کیا برکس کی پالیسیاں واقعی امریکی مفادات کے خلاف ہیں؟ وہ کون سے امریکی مفادات ہیں جنہیں ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ برکس سے اُن کو سب سے زیادہ اور فوری خطرہ ہے؟ کیا برکس اس پوزیشن میں ہے کہ موجودہ عالمی نظام میں تبدیلی لا کر امریکہ اور مغربی ممالک کی صدیوں سے قائم مالی اور سیاسی بالادستی ختم کر دے؟ کالم میں آگے انہی سوالات کو سامنے رکھ کر امریکہ اور برکس کے درمیان موجودہ محاذ آرائی کا تجزیہ کیا جائے گا۔
امریکہ کو اس وقت برکس سے سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ یہ تنظیم امریکی ڈالر کے مقابلے ایک متبادل کرنسی لانا چاہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برکس میں شامل متعدد ممالک ڈالر کے مقابلے میں ایک متبادل کرنسی لانا چاہتے ہیں‘ ان کی اس کوشش کو برکس سے باہر بھی متعدد ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اس سلسلے میں ابتدائی اقدامات بھی کیے جا چکے ہیں۔ مثلاً چین اور روس کے درمیان توانائی کی خریداری میں روسی کرنسی روبل اور چین کرنسی یوآن کو قبول کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات اپنے تیل کی قیمت درہم میں وصول کرنے پر رضا مند ہے۔ جہاں تک برکس کی مجموعی صلاحیت (Potential) کا تعلق ہے وہ یقینا اس قابل ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی صدیوں سے قائم معاشی بالادستی کیلئے چیلنج بن سکے۔ تقریباً دو دہائی قبل جب صرف چار ممالک یعنی برازیل‘ روس‘ چین اور بھارت پر مشتمل ''گلوبل ساؤتھ‘‘ میں معاشی اور تجارتی تعاون کے فروغ کیلئے اس بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اُس وقت کئی تجزیہ کاروں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اگر ان ملکوں میں ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو آئندہ 30برسوں میں ان کی مجموعی قومی پیداوار امریکہ کے برابر ہو جائے گی۔ اس وقت برکس کے گیارہ مستقل ممبر ملکوں کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہے اور ان کی مجموعی پیداوار دنیا کی کل جی ڈی پی کا 37.3فیصد بنتی ہے۔ برکس یورپی یونین‘ آسیان اور ایس سی او کی طرح ایک باقاعدہ رسمی اور سٹرکچرڈ تنظیم نہیں بلکہ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا‘ خلیج فارس‘ مغربی اور جنوبی افریقہ اور جنوبی (لاطینی) امریکہ سے تعلق رکھنے والے ممالک پر مشتمل ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم ہے جو دو وجوہات کی بنا پر بین الاقوامی سیاست میں تیزی کے ساتھ ایک نمایاں مقام حاصل کر رہی ہے۔ ایک یہ کہ براہِ راست بیرونی سرکاری کا سب سے زیادہ بہاؤ اس طرف ہے اور دوسرے کرۂ ارض کے جنوبی حصے کے ممالک کی زیادہ سے زیادہ تعداد اس کی رکنیت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے گیارہ مستقل ارکان ہیں‘ نو پارٹنرممالک ہیں اور 30کے قریب ممالک اس کی رکنیت یا پارٹنر شپ حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ رکنیت میں اس اضافے کو اس تنظیم کی ہر دلعزیزی اور اس بنا پر اسے ممکنہ طور پر مستقبل کی ایک کامیاب تنظیم سے قرار دیا جا سکتا ہے۔ رکنیت میں اضافہ اپنی جگہ لیکن اس سے ہر ملک کے اپنے علیحدہ قومی مفادات‘ خارجہ پالیسیوں میں اختلافات اور جیو پولیٹکل بنیادوں پر کیے گئے فیصلوں میں اتفاق رائے کے حصول میں رکاوٹیں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثلاً برکس کے مستقل اراکین میں چند ممالک ایسے بھی ہیں جن کے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ گہرے اور قریبی تعلقات ہیں اور وہ فی الحال ڈالر کی جگہ کسی اور کرنسی کے حق میں نہیں۔ اس وقت دنیا کے سبھی ملکوں کے مابین ادائیگیوں کیلئے 90فیصد سے زیادہ ڈالر استعمال ہوتا ہے۔ برکس میں شامل ملکوں کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا نصف ہے مگر ان ملکوں کی باہمی تجارت دنیا کی کل تجارت کا صرف تین فیصد ہے (2024کے اعداد و شمار کے مطابق 33ٹریلین ڈالرز میں سے صرف ایک ٹریلین ڈالر)۔ موجودہ عالمی مالیاتی نظام‘ جسے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اپنے اور اپنے اتحادی مغربی ممالک کے مفادات کے تحفظ کیلئے قائم کیا تھا‘ امریکہ کے ہاتھ میں ایک سیاسی ہتھیار بن چکا ہے جسے وہ مخالف ممالک کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی صورت میں استعمال کرتا ہے۔ روس‘ چین اور ایران کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے دنیا میں ایک متبادل مالیاتی نظام کے قیام کی خواہش موجود ہے‘ مگر اس خواہش کی تکمیل میں بہت عرصہ لگے گا۔ نیو ڈویلپمنٹ بینک جسے برکس ممالک کی طرف سے اسی خواہش کے تحت قائم کیا گیا‘ اس وقت تک صرف 39بلین ڈالر کے قرضے جاری کر سکا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ورلڈ بینک نے ایک ٹریلین ڈالر کے قرضے جاری کر رکھے ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک‘ جہاں دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 80 فیصد رہتی ہے‘ موجودہ غیرمنصفانہ اور استحصالی مالیاتی نظام کے مقابلے میں ایک متبادل نظام لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں‘ برکس کا قیام ان کوششوں کا حصہ ہے۔ اس لیے ٹرمپ برکس کی حالیہ سربراہی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں استعمال کی گئی زبان اور مقاصد پر سیخ پا ہیں۔ برکس کے اراکین کے خلاف ٹیرف میں اضافے کی دھمکی دراصل ایک ایسے خوف کی پیداوار ہے جو گزشتہ تقریباً 500برس سے دنیا کی دولت اور وسائل پر نوآبادیاتی اور سامراجی ہتھکنڈوں سے حاصل کردہ قبضے کے عنقریب خاتمے کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ برکس سے ٹرمپ کی ناراضگی کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ برکس کے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور حلیف مغربی ممالک مشرق وسطیٰ میں اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں الگ تھلگ کیے جانے کا یہ احساس ٹرمپ کیلئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved