تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-07-2025

300 ملین ڈالرز سے 600 ملین ڈالرز تک

عرصہ ہوا مجھے یقین آچکا ہے کہ امریکہ نے ڈالرز بنانے کی مشین پاکستان کو دے رکھی ہے جہاں دن رات ڈالرز چھاپے جاتے ہیں اور ہر طرف ڈالرز برس رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب لاکھوں کی کرپشن یا غبن کو بھی بڑا سکینڈل سمجھا جاتا تھا۔ ایسی خبر سب کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ پھر لوگ لاکھوں کی کرپشن کو معمول سمجھنے لگے یا یوں سمجھیں بور ہونے لگے۔ لاکھوں کی کرپشن کی خبر معمول بن کر رہ گئی جو نہ فائل کرنے والے کو اچھی لگتی‘ نہ ہی وہ پڑھنے والے کے دل کو گرما پاتی۔ پھر غبن اور مال بنانے والوں نے اپنا معیار اونچا کرنے کا فیصلہ کیا اور معاملہ کروڑوں تک لے گئے۔ پھر وہی بوریت۔ کچھ عرصہ بعد اربوں کی خبریں آنے لگیں۔ اربوں روپے کی کرپشن بھی نارمل خبر بنی تو پھر ڈالرز میں سکینڈل رپورٹ ہونے لگے۔ بجلی گھروں کو فی یونٹ ریٹ ڈالروں میں دیا جانے لگا۔ کپیسٹی چارجز کا تعین بھی ڈالر ریٹ سے جوڑ دیا گیا۔ کراچی میں قطر سے ایل این جی ڈیل کے بعد فلوٹنگ ٹرمینل لگائے گئے تو شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ پٹرولیم نے 2014ء میں ایک پاکستانی کمپنی کو روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کا معاہدہ کیا۔ جی ہاں‘ اُس کمپنی کو اب تک روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز مل رہے ہیں‘ چاہے ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ اس پر ایک اور کمپنی میدان میں کود پڑی تو اس سے بھی سوا دو لاکھ ڈالرز روازنہ پر معاہدہ کر لیا گیا۔ یوں دو پاکستانی کمپنیاں حکومت سے روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز کے قریب لے رہی ہیں۔ ایسے ٹرمینل آج کل مفت لگ رہے ہیں لیکن چونکہ ڈالرز کی ہمارے ہاں بھرمار ہے لہٰذا ہم نے روپوں کے بجائے ڈالرز میں معاہدہ کیا۔ اب اس میں کس کس بڑے چھوٹے حکمران کا کتنا حصہ ہے‘ وہ اللہ جانے۔
اب جو دو خبریں سامنے آئی ہیں‘ دونوں میں ڈالرز اور دو وزیراعظم ملوث ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم ہیں تو دوسرے موجودہ۔ خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے وزیراعظم شہباز شریف کے اس حیران کن فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں کہ انہوں نے تین سو ملین ڈالرز کی چینی بیرونِ ملک سے منگوانے کی منظوری کیوں دی ہے۔ اس طرح ایک اور خبر دو تین دن پہلے نجکاری کی قائمہ کمیٹی میں سامنے آئی کہ عمران خان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پاکستانی پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں‘اس کے بعد برطانیہ سمیت کچھ یورپی ممالک میں پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی لگ گئی تھی جس وجہ سے پی آئی اے کو 600 ملین ڈالرز نقصان ہوا ہے۔ اب ان دونوں خبروں کو علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران کتنی بے دردی سے ڈالرز اڑاتے ہیں اور انہیں قومی خزانے کے نقصان کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔
چینی کو دیکھ لیں کہ اس میں کیا کیا کمال ہوتے ہیں۔ 1998ء میں جب میں ملتان سے اسلام آباد آیا تھا تو اُس وقت بھی چینی سکینڈلز گردش میں رہتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں جو پہلی بڑی خبر نکال کر لایا تھا اور ڈان اخبار میں لیڈ کے طور پر چھپی تھی وہ یہ تھی کہ درجنوں شوگر ملز مالکان نے برسوں سے کسانوں کے واجبات ادا نہیں کیے۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد نیب کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ نواز شریف حکومت پر کیسز بنائے۔ باقی کیسز کے علاوہ اُن پر چینی کی درآمد پر دی گئی سبسڈی کا کیس بھی بناتھا۔ اُس وقت کے چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری کامرس کے خلاف بھی مقدمہ بنایا گیا تھا کہ آپ لوگوں نے نواز شریف کے حکم پر چینی درآمد پر اربوں روپے کی سبسڈی دی تھی جس سے ملک اور قوم کا نقصان ہوا۔ یوں نواز شریف کو دیگر مقدمات کے ساتھ چینی درآمد پر سبسڈی دینے پر بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا‘ پھر جب ان کی جنرل مشرف سے ڈیل ہوئی تو وہ سب مقدمات روک دیے گئے تھے یا ختم کر دیے گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کیس لوگوں کی یادداشت میں نہ ہو لیکن میں نے خود یہ خبر بریک کی ہوئی ہے لہٰذا مجھے علم ہے کہ اُس وقت یہ کیس بھی زیرغور تھا۔
چینی کی درآمد پر سبسڈی کے ذریعے پیسہ کمانا بہترین طریقہ رہا ہے‘ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ اِس وقت شوگر ملز مالکان میں حکمرانوں کے اپنے خاندان شامل ہیں‘ لہٰذا وہ لاکھ کہتے رہیں کہ ان فیصلوں کا ان کی ملز سے لینا دینا نہیں‘ کوئی یہ بات نہیں مانے گا۔ وہ بیشک چینی برآمد نہ کرتے ہوں‘ یا انہوں نے چینی کی درآمد پر سبسڈی نہ لی ہو لیکن جب چینی کی برآمد کے فیصلے سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت اوپر جاتی ہے تو فائدہ سب کو ہوتا ہے۔ چینی کی فی کلو قیمت صرف ایک روپیہ بڑھنے سے‘ شہزاد اکبر کے بقول پانچ ارب روپے کا نفع شوگر انڈسٹری کو ہوتا ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ 2019ء میں جب چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تھی تو اس وقت چینی کی قیمت 52 روپے فی کلو تھی جو برآمد کی خبر کے ساتھ ہی 70روپے‘ پھر 90روپے اور پھر 120روپے تک گئی اور پھر جب سب نے مال بنا لیا تو قیمت 90 روپے پر واپس آ گئی۔ اب شہزاد اکبر کی بات کو سامنے رکھیں کہ کتنا مال بنایا گیا تھا۔
اس وقت مارکیٹ میں چینی دو سو روپے فی کلو بک رہی ہے۔ چھ برسوں میں ڈیڑھ سو روپیہ فی کلو قیمت اوپر گئی ہے۔ پہلے چینی برآمد کرکے مال بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں چینی کم پڑ گئی ہے لہٰذا درآمد کی جائے۔ یہ کھیل 2019ء سے کھیلا جا رہا ہے۔ اب کی دفعہ تین سو ملین ڈالرز کی چینی درآمد کی جا رہی کیونکہ مقامی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ چینی برآمد کرنے سے ڈالرز آئیں گے۔ ڈالر پتا نہیں کتنے آئے یا نہیں آئے لیکن تین سو ملین ڈالرز کی چینی ضرور درآمد ہو گی۔ شہباز شریف حکومت کے پاس شاید ڈالرز بہت ہیں لہٰذا درآمد‘ برآمد کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ مت بھولیں کہ شریف خاندان کی اپنی شوگر ملز بھی ہیں‘ جیسے اپنے بجلی گھر ہیں۔
اب آتے ہیں اُس چھ سو ملین ڈالرز کے نقصان کی طرف جو پی ٹی آئی حکومت کے ایک وزیر کے احمقانہ بیان کی وجہ سے پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ جب پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ پاکستانی پائلٹس کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں تو فوری طور پر پی آئی اے پر برطانیہ اور یورپی ملکوں میں پابندیاں لگ گئیں۔ برطانیہ کی پابندی کا سب سے زیادہ نقصان ہوا اور اب سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ان پانچ برسوں میں برطانوی اور یورپی روٹس کی بندش سے پاکستان کو مجموعی طور پر چھ سو ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ڈیڑھ سو پاکستانی پائلٹس کو مختلف ایئرلائن نے نکال دیا۔ سینکڑوں گھرانے متاثر ہوئے۔ غلام سرور خان سے جب اس بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے عمران خان نے کہا تھا کہ اسمبلی میں یہ بیان دو۔ یوں بغیر سوچے سمجھے ایک وزیراعظم نے ایسا کام کرایا جس کا نتیجہ بڑے نقصان کی صورت میں نکلا۔ پی آئی اے پہلے ہی تباہ حال تھی اور سرکاری رپورٹ کے مطابق اس پابندی کے بعد مجموعی طور پر 740 ارب روپے کا نقصان اٹھا چکی ہے۔ اس پابندی کا فائدہ غیرملکی ایئرلائنز نے اٹھایا۔ پاکستان کے لوگوں کو جو مشکلات پیش آئیں وہ الگ کہ جو سفر سات‘ آٹھ گھنٹے کا تھا وہ چوبیس‘ چوبیس گھنٹوں تک چلا گیا۔ کرائے الگ سے بڑھ گئے اور پی آئی اے اپنے منافع بخش روٹس کھو بیٹھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان ہوں یا ان کے وزیر غلام سرور خان‘ انہوں نے ایک دن بھی اس نقصان اور تباہی پر شرمندگی محسوس نہیں کی۔ خان صاحب کی قسمت دیکھیں کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں میں مقبول بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے پی آئی اے کا چھ سو ملین ڈالرز کا نقصان ہوا اور اس عرصے میں اووسیز پاکستانیوں کو دوسری غیرملکی ایئر لائنز پر زیادہ کرائے دے کر طویل سفر کرنا پڑا۔ پاکستانی قوم جیسا ہاضمہ بھی شاید ہی کسی اور قوم کا ہو‘ جو لیڈروں کی نالائقیوں کو بھی جشن کی طرح مناتی ہے۔ اس قوم کو اپنے قاتلوں سے بھی پیار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved