عنوان دیکھتے ہی آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے کہ اب چالاک دنیا میں بے شک کوئی حرف کی پہچان نہ رکھتا ہو‘ وقت کے تھپیڑوں نے کسی کو بھی بھولا بادشاہ نہیں رہنے دیا۔ وہ کسی اور زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ ایک تحریک‘ جو ایک سیاسی جماعت کا نام ہے‘ اس کا اب کام ہی تحریک چلانا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی وہ ایک تحریک کی صورت سیاسی میدان میں اُتری تھی کہ سیاست اور ریاست پر چند موروثی خاندانوں اور ان کے وڈیروں کا قبضہ چھڑایا جائے‘ سب کو انصاف ملے‘ ملک کو ایک نئی سمت میں اور نئے قالب میں ڈھال کر اسے پُرامن‘ خوشحال اور طاقتور بنایا جائے۔ دوسروں کے منشور بھی کبھی انقلابی اور پُرکشش نعروں سے خالی نہ تھے۔ اس تحریک کے بانی نہ تو مارکسیت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اشتراکیت کی طرف کبھی رجحان رہا ہے مگر مارکس کی سوچ غیر مارکسی سیاست اور سماجی تحریکوں میں بھی تضادات پیدا کرنے‘ ان میں چمک اور رنگ بھر کر اونچی سے اونچی دکان سجانے میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ مارکس کا تضاد طبقاتی نظام تھا‘ جو تاریخ کے ہر معاشی نظام میں استحصالی طاقتوں اور اس کے متاثرہ مظلوموں کی صورت قائم رہا ہے‘ اور اس کی بنیاد ذاتی ملکیت کا تصور ہے۔ اس نوعیت کے تضاد کو ہمارے اور کئی ممالک میں مختلف صورتوں میں حکمران ٹولوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا ہے۔ سب سے مؤثر حکمتِ عملی ذوالفقار علی بھٹو کی تھی‘ جن کے دیوانے آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک کے بانی نے تضاد عوام اور بھٹو کے جانشینوں‘ اور جنہیں وہ کبھی نفرت کی آمیزش کے ساتھ ضیاء الحق کی باقیات کہتے تھے‘ کے خلاف پیدا کیا۔ وقت اور فضا سازگار تھے ہی‘ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سازگاری میں کچھ اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
عوام ان کی لگی باریوں اور کرپشن کی دنیا کے طول و عرض میں پھیلی داستانوں سے کبھی خوش نہ تھے۔ عوام کی وہ قیادت‘ جو وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کی گنتی پوری کرنے کے لیے‘ ہر انتخابی حلقے میں‘ اکثر موروثی سیاسی گدیوں پر انگریز دور سے اب تک موجود ہے‘ وہ لین دین کی سیاست کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتی۔ بات تو سب عوام کی کرتے رہے مگر بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد‘ اور اس سے پہلے انتخابی سیاست حلقہ جاتی سیاسی گھرانوں کے ہاتھوں میں کھیلتی کودتی رہی ہے۔ درمیان میں کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں‘ اپنی شخصیت اور عوامی خدمت کی کارکردگی کے زور پر ضرور اُبھریں مگر غالب اکثریت‘ جنہیں عام سیاسی فہم میں قابلِ انتخاب سمجھا جاتا ہے‘ بڑے بڑے موروثیوں کی تخت نشینی ان کے اعداد و شمار سے ہوتی رہی۔ دو بڑی جماعتوں کی محبت اور سیاسی جادوگری کا مرکز قابلِ انتخاب سیاسی گھرانے رہے۔ لین دین کی سیاست میں آپ ان گھرانوں کو ہوا کا رُخ دیکھنے‘ اوپر سے اشاروں کو سمجھنے اور جنس کا بھاؤ منڈی میں کہاں بہتر لگے گا‘ کی معاملہ فہمی میں اونچے درجے کے سیاسی ماہرین میں شمار نہ کریں تو یہ کم ظرفی ہو گی۔ اشاروں کی بات تیسرے فریق کے بغیر تو مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان دو میں سے ایک کا پلڑا بہت بھاری ہوا اور اقتدار کے نشے میں سر بھی بھاری ہونے لگا تو تیسرے نے پھر سے نیا پاکستان بنانے کے لیے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے کر‘ خلائی اغوا کاری کا مقدمہ چلا کر قید میں بند کر دیا۔ دوسروں کو کھلا موقع دیا کہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں‘ مگر اصل بندہ اندر ہی رکھا۔ ہر سال نیا پاکستان بنتا ہی چلا گیا۔ مگر وقت کے دھارے میں دوائیوں کی شیشیوں پہ لکھی تاریخِ اختتام غیر متوقع طور پر آگے کر دی گئی۔
بنتی بگڑتی موروثی سیاست کے کھیل تماشے میں عمران خان صاحب بھی نیا پاکستان بنانے کی غرض سے آگے بڑھے۔ فلاحی کاموں اور کھیل کے میدان میں بے مثال کارکردگی‘ کرشماتی شخصیت اور ملکی سیاسی فضا کے جمود میں نئے چہرے کی کشش نے کھڑے سیلابی پانے میں لہریں پیدا کرنی شروع کیں۔ بعد از مشرف مارشل لاء انتخابات میں اکلوتی نشست ایوان میں تولی گئی مگر انصاف کی تحریک کا موازنہ استحکام کی تاریخ اور مرحوم اصغر خان سے ہونے لگا۔ اگلے انتخابات میں نمایاں کامیابیاں ملیں‘ مگر سیاسی میدان تو اب دو متبادل قابلِ انتخاب اتحادوں کے ہاتھوں میں تھا۔ بانی تحریک عوام اور عوامی قیادت کا پرچار کرتے رہے اور میرے خیال میں وہ بہترین دور تھا۔ اصول اور نظریے کی سیاست کے اعتبار سے دیکھیں تو سیاسی راگ تو وہی رہا مگر کچھ ناظمِ موسیقی اور ہدایت کار اگنی کی جاذبیت کو دیکھتے ہوئے اپنا تعاون پیش کرنے لگے۔ تو وہ جو کہتے ہیں کہ ''آپ آم کھائیں پیڑ گننے سے کیا غرض‘‘۔ اس کی مانند تعاون کا جواب تعاون سے ہی ہو سکتا تھا۔ تیسرا فریق بھی ایک تیسری قوت کے قدرتی ابھار میں اپنا حصہ ڈال کر‘ جو بعد میں بقدر جثہ ہو گیا‘ جوڑ توڑ کی پرانی سیاست میں وزن برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ سنا ہے کہ بادشاہوں کی شادیاں اوپر آسمانوں میں طے نہیں ہوتیں‘ وہ مفادات کے زمینی اصولوں پر قرار پاتی ہیں۔ جوں جوں عوامی رنگ بڑھتا گیا‘ دلچسپی اور سرپرستی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس تعاون کی بدولت تحریک کا رُخ بھی عوام سے اٹھنے والی حقیقی قیادت‘ جس میں نمایاں کامیابیاں نظر آ رہی تھیں‘ سے ہٹ کر قابلِ انتخاب گھرانوں کی طرف ہو گیا۔ نیا پاکستان بنانے کی پرانی سیاست بھی اپنے آپ کو دہرانے لگی۔ 2018ء کے انتخابات میں میرا خیال ہے کہ عوام نے پرانے کھلاڑیوں کو بانی سے خوش فہمی اور اس کی قیادت سے متاثر ہو کر قبول کیا‘ لیکن ان کے مخالفین منتخب ہونے کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ بانی کے اقتدار کے ساڑھے تین سال ملک میں استحکام نہ لا سکے۔ سب وعدے پنجاب میں بزدار کی بزداریوں‘ ملک میں کئی رنگ باز اور عجیب و غریب دھندوں اور ناقابلِ فہم اقدامات‘ اور کشمکش کی دہلیز پر دم توڑنے لگے۔ ہمارے سیانے ویسے تو بہت کچھ کہہ گئے ہیں مگر جو اقتدار کے گھوڑے کی سواری میں نشے کی باتیں ہیں وہ سب افلاطونوں کو پیچھے چھوڑ گئیں۔ شاید یاد نہ رہا کہ گھوڑے دو ہیں‘ اور جانے پہچانے شہسوار دوسرے گھوڑے پہ ہیں۔ پھر مقابلہ کیا ہونا تھا؟ مگر پھر جو ہوا وہ پہلے ایسے واقعات کی کڑی سے بہت آگے کی بات ہے۔ بانی نے جب یہ میدان سجا دیکھا تو وقت پر اپنی نظریاتی بنیاد کی طرف پلٹا تو ضرور کھایا مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ ایک نئی ابتدا‘ اپنی روایتی جرأت‘ عزم اور ہمت کے ساتھ ہی‘ اور تضاد کا رُخ اس طرف موڑ دیا‘ جس کی باتیں ایک زمانے کے ایسے انقلابی اور آج کل فرمانبرداروں کے فرمانبردار کرتے آئے ہیں۔ اس دوسرے سیاسی اوتار نے ملک کی سڑکوں‘ شہروں اور دیہات کے کونے کونے میں ایک ایسی گونج پیدا کر دی کہ اب جو ہو سو ہو مگر وہ تاریخ میں امر ہو چکے۔ ممکن ہے یہ بات آپ کو ناگوار گزرے مگر 70ء کے انتخابات سے لے کر گزشتہ انتخابات تک جو ہم نے اس ملک میں دیکھا ہے‘ واضح اور حقیقی برتری بانی ہی کو ملی۔ رات کے اندھیرے میں سب نے دیکھا کیا ہوا‘ اور کیا نہیں ہو سکا۔ آگے دیکھیں‘ ماضی کے تضادات کا اتحادی‘ تیسری قوت اور تحریک ہمیں کہاں لے جاتے ہیں۔ لگتا ہے ہم کہیں نہیں جا رہے۔ کھیل تماشا جاری ہے۔ بحران کھیل تماشا ہی ہے۔ دیکھتے رہیں اور ہماری طرح خوش ہوتے رہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved