تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-11-2013

پرورشِ گلشنِ غم

دیدۂ تر کی شبنم ابھی باقی ہے ، رحمتِ پروردگار کی آرزو اور امید باقی ہے…یار زندہ ، صحبت باقی ۔ بستر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر جسم نے انکار کر دیا۔ گھڑی دیکھی تو حیران رہ گیا۔ دس گھنٹے گزر چکے تھے ۔ خالد مسعود خان اور بہاولپور کے کچھ دوستوں سے بات کرنا تھی کہ دسویں محرم الحرام کو ان سے ملاقات کا وعدہ تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ جمعرات کی شب فیصل آباد میں بِتائی جائے ۔ جمعہ کو ملتان کا قصد کیا جائے ۔ ہفتے کو چولستان کے لیے رختِ سفر باندھا جائے، ربع صدی سے جس کی آرزو ہے ۔ موبائل اٹھایا کہ صبح سے اب تک موصول ہونے والی کالوں کا جواب دیا جائے ۔وہ گونگا۔ جو کہانی خالد صاحب نے لکھی تھی ، ارادہ یہ تھا کہ اس کا وہ حصہ بیان کیا جائے ، جو مجھ سے متعلق ہے ۔ اپنی غیر متوقع صحت یابی کو انہوںنے معجزہ قرار دیا تھا۔ معجزہ نہیں ، یہ دعا کی قبولیت تھی ۔ ایک ایسی دعا، جو سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے ۔ دو طرح کی التجا اللہ کی بارگاہ میں ہوتی ہے ۔ قرآنِ کریم میں پیغمبرانِ عظام کے حوالے سے جن کا ذکر ہے اور وہ دعائیں جو ابو القاسمؐ کے مقدس ہونٹوں کو چھو کے بابرکت ہو گئیں ۔ عصرِر واں کے نثر نگار جناب مشتاق یوسفی نے ایک بار اس ناچیز سے پوچھا : کتنی دیر میں تم لکھ ڈالتے ہو۔ عرض کیا: آج کا کالم چالیس منٹ میں تمام کرنا پڑا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا تھا۔ قدرے تعجب کیا اور اس انکشاف سے خوف زدہ کر ڈالا کہ وہ اس کی ہر تحریر پڑھتے ہیں ۔ پھر مشورہ دیا کہ سب کا سب جمع کر کے چھاپ ڈالو۔ بالکل اسی طرح ۔ فرمایا: یہ Ghost Writingہے ۔ جلدی میں لکھا گیا ادب۔ یہ سات برس پہلے کا قصہ ہے ۔ ایسی توانائی تواب نہیں۔ پھر یہ کہ الیکٹرانک میڈیا نے ماحول یکسر بدل ڈالا ہے۔ اب زیادہ ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ درویش کا کہنا یہ ہے کہ لکھنے اور بولنے والوں کو سامع اور قاری کا وقت ضائع کرنے کا ہرگز کوئی حق نہیں ۔ تین بجے تک بستر پہ چت لیٹا رہا۔ بخار نہ کوئی اور خرابی مگر ایسی تکان کہ خدا کی پناہ ۔ کل شام ایسی بشاشت میں بسر ہوئی کہ مدتوں یاد رہے گی ۔ پسندیدہ لوگ ، پسندیدہ کھانا اور وہ موضوعات ، جن پر طبیعت رواں ہوتی ہے ۔ ایک شاندار اور عجب حسّ ِ مزاح وہ رکھتے تھے ۔ ایک ضیافت میں شریک ہونے کے لیے علّامہ اقبالؔ گھر سے نکلے تو کوئی صاحب ایک سوال کے ساتھ نمودار ہوئے ۔ ہنس کر بولے : راستہ چھوڑ دو ، فوج پلائو کھانے جاتی ہے ۔ پلائو کے باب میں خوش خوراک سید ابوالاعلیٰ مودودی کا شعار بھی یہی تھا۔ ایک بار کہا: اس کھانے کا ایک خاص منفرد ذائقہ ہے ، بالعموم جسے (دوسری چیزوں کی ملاوٹ سے ) ضائع کر دیا جاتا ہے ۔ ہوٹلوں میں یہ کھانا اب نہیں پکتا ۔گھروں میں بھی کم کم ۔ وقت گزرنے کے ساتھ رواج بدل جاتے ہیں ۔ اس کی جگہ اب بریانی نے لے لی ، جو کبھی خوش نہ آسکی۔ چیزوں کا چیزوں سے رشتہ ہوا کرتا ہے ۔ کھانا بھی ایک آہنگ طلب کرتا ہے ، آرکسٹرا کے سازوں کی طرح ۔ باسمتی چاول کا مرچ سے کیا رشتہ؟ روایتی کھانا ، روایتی لوگ ۔ بہت جوش و خروش کے ساتھ محترم میزبان خاتون کو اصرار تھا کہ مجھے فلاں فلاں اخبار نویس اور لال ٹوپی والے مفکر کے ساتھ مل کر ایک محاذ تشکیل دینا چاہیے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ کارنامہ وہ خود ہی انجام دیں ۔ ان کی ترجیحات کاناچیز قائل نہیں ۔ اس سے زیادہ ان کا جذباتی روّیہ۔ ’’ملک اور معاشرے تعلیم سے سنورتے ہیں اور تدریج کے ساتھ‘‘ ان کی خد مت میں عرض کیا مگر مذکورہ مفکرین کی طرح ان کا خیال بھی یہ تھا کہ ڈنڈے سے ۔ اب گفتگو زیادہ سنجیدہ ہو گئی ۔بنیادی قومی مسائل سے ہوتی ہوئی ، تخلیقِ کائنات تک ۔ میری گزارش یہ تھی کہ انسانوں کا کوئی ہجوم، خواہ کیسی ہی مشترک اقدار رکھتا ہو ، چند عشروں کے اندر قوم نہیں بن جاتا۔ ریاست کی تشکیل میں قومی اتفاقِ رائے سب سے زیادہ اہم عنصر ہوتاہے ، دستور کی بالاتری ۔ لازم ہے کہ بہترین لیڈروں کو یہ کام سونپا جائے۔ رائے عامہ کی پیہم تربیت ہی سے یہ کارِ دشوار ممکن ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروںمیں میرٹ پہ تقرر اور سیاسی مداخلت کا خاتمہ ۔ اول امن وامان کا حصول ، اس کے ذریعے سیاسی استحکام ، نظامِ انصاف کی ممکنہ حد تک مثالی تشکیل، معیشت اور پھر ٹیکس کلچر کا فروغ۔ اسی سے دفاع مضبوط ہوتا اور آزاد خارجہ پالیسی کی منزلِ مراد ممکن ہے ۔ بیرونِ ملک سے لایا گیا ایک طالبِ علم کا تحفہ ۔ تخلیقِ کائنات پر بنائی گئی 17عدد فلمیں ، جو پروفیسر احمد رفیق اختر کی خدمت میں پیش کی گئیں ۔ اس موضوع سے اس قدر انہیں دلچسپی ہے کہ ایک دن میں پانچ فلمیں دیکھ ڈالیں ۔ عزیزم بلال الرشید کو بھی اس عنوان سے شغف ہے ؛چنانچہ بات اس پر ہونے لگی ۔ ستارے کس طرح تخلیق ہوتے اور بچا کھچا مواد کیسے سیارے تشکیل دیتا ہے ۔ ہیلیم اور ہائیڈروجن کا اتصا ل نور میں کیسے ڈھلتا ہے اور اربوں برس بعد کیسے وہ فنا ہوتا ہے ۔ جوپیٹر کو سورج بن جانا تھا مگر کیوں نہ بن سکا ۔ کرّہ خاک کو حادثات سے بچانے کا کردار قدرت نے کیوں کر اسے سونپا۔تقریبا ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں وہ خوفناک بلیک ہول کیا ہیں ، جو ہمارے سورج جیسے ستاروں کو نگل جاتے ہیں ۔ ٹالسٹائی نے کہا تھا : جب کوئی محفل کسی کو پھبتیوں کے لیے چنتی ہے تو اس کے پیچھے صرف ہنسنے ہنسانے کا جذبہ کارفرما ہوتاہے ۔ احتیاط یہ لازم ہے کہ حسّ مزاح پاتال میں اتر نہ جائے ،وگرنہ محفل اسی سے آباد ہوتی ہے ۔ یہ فرمان سرکارؐ کا یاد رہے کہ بہت نہ ہنسا کرو کہ دل اس سے مردہ ہو جاتے ہیں ۔ مزاح ایک چیز ہے ، غیر سنجیدگی بالکل دوسری۔ ایک نمک ، دوسری مٹی ۔ مٹی بیمار بچے کھایا کرتے ہیں ۔ ایک یادگار محفل کے بارے میں فیضؔ نے کہا تھا : ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے ، صحبتِ شب۔ یہ ایسی ہی ایک صحبت تھی ، جو مدتوں یاد آتی اور ہمیشہ دل آویز رہتی ہے ۔ میرؔ صاحب تو بس ایک ہی ہوئے مگر ہر اچھی رفاقت ایک انعام ہے ؎ مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے وہ لوگ، جن کی صحبت میں ہم شادکام ہوتے ہیں ۔ سیکھتے ہیں اور توفیق عطا ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ ملتان ، بہاولپور اور لاہور کے احباب کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر جسم نے انکار کر دیا ہے ۔ سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری گھر سے نکلے۔ چند منٹ بعد لوٹ کر آئے تو لباس مٹی سے آلودہ ۔ جان چھڑکنے والی نورِ نظر رودی تو ارشاد کیا: یہی زندگی ہے ۔ فرمایا: اپنی رعایا سے ناروا سلوک کرنے والے بادشاہ کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ مجھ ناچیز کا اس درویش سے کیا مقابلہ مگر جسم اب مانتا نہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی بیماری نہیں ، شوگر ، بلڈ پریشر نہ کولیسٹرول، کچھ بھی نہیں ۔ تکان ہے اور اس قدر کہ مشکل سے خود کو یہ سطور لکھنے پر آمادہ کر سکا۔ چند دن اب گھر پہ آرام کرنا ہو گا ۔ موبائل کا نظام آج بھی بند رہے گا؛ لہٰذا اخبار کا قیمتی ورق ضائع کرنا پڑا۔ معذرت اور بہت معذرت۔ شاعر کے ساتھ یہ ہوا تھا ؎ اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم دیدہ ٔ تر کی شبنم ابھی باقی ہے ، رحمتِ پروردگار کی آرزو اور امید باقی ہے…یار زندہ ، صحبت باقی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved