تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     18-07-2025

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام پر نئے رشتے کی گیم

ہمارے زمانے میں انسانی رشتے کی وسعت کے اندر ایک نئے رشتے کو تلاش کر لیا گیا ہے۔ اس رشتے میں یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کو باہم رشتہ دار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چونکہ تینوں مذاہب کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے‘ تینوں ہی انہیں اپنا روحانی باپ مانتے ہیں‘ تینوں کے مذاہب الہامی ہیں لہٰذا ان تینوں کو باہم ملانے کی جو کوشش ہے‘ وہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں نظر آتی ہے باقی دنیا میں نہیں۔ اس کی ضرورت بھی مشرقِ وسطیٰ ہی میں ہے کیونکہ اسرائیل کو ''گریٹر اسرائیل‘‘ کی منزل تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ بار بار ایسے سمجھوتے کیے جائیں جن کی وجہ سے قدم بقدم اسرائیل آگے بڑھتا چلا جائے جبکہ اس کے پڑوسی عرب ملکوں کا رقبہ کم ہوتا چلا جائے۔
ان سمجھوتوں کے لیے جو لفظ استعمال کیا گیا وہ اکارڈ (Accord) کا لفظ ہے؛ اگرچہ اس کا مستعمل معنی معاہدہ ہے مگر اس کا بنیادی مطلب یکدلی‘ راضی ہونا‘ میل ملاپ‘ مطابقت اور سمجھوتا ہے۔ یقین جانیے! انہی الفاظ کے عملی پہلوئوں کی اسرائیل کو ضرورت ہے؛ چنانچہ جب سمجھا گیا کہ عربوں میں مصر ہی طاقتور فوجی قوت ہے تو اسے ''کیمپ ڈیوڈ اکارڈ‘‘ میں شامل کر لیا گیا۔ مصر کے صدر انور السادات اور اسرائیل کے وزیراعظم میناہم بیگن (Menachem Begin) بارہ دن تک خفیہ طور پر ''کیمپ ڈیوڈ‘‘ میں مذاکرات کرتے رہے۔ کیمپ ڈیوڈ امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں واقع ہے۔ میری لینڈ یعنی حضرت مریم علیہا السلام کی سرزمین‘ اس سرزمین میں ''کیمپ ڈیوڈ‘‘ ہے‘ یعنی حضرت دائود علیہ السلام کا کیمپ۔ مجھے اس کا مطلب یہ سمجھ آیا کہ یہود کا کیمپ چاروں طرف سے مسیحی حکمرانوں کی حفاظت میں زندہ وپائندہ ہے۔
یہ کیمپ 125 ایکڑ رقبے پر واقع ہے۔ یہاں امریکہ کا صدر اپنی چھٹیاں گزارتا ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت اور خوشگوار مقام ہے‘ جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ یہاں بارہ دن گزارنے کے بعد 17 ستمبر 1978ء کو وائٹ ہائوس‘ واشنگٹن میں ''کیمپ ڈیوڈ اکارڈز‘‘ فائنل ہوا۔ گواہ کے طور پر صدرِ امریکہ جناب جمی کارٹر موجود تھے۔ اسے امن کا معاہدہ (Peace Treaty) بھی کہا جاتا ہے۔ تب مسلم ملکوں نے غصے میں آکر مصر کو مسلم ممالک کے مشترکہ فورمز سے باہر نکال دیا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد اسے دوبارہ شامل کر لیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد مصر کے ایک شدت پسند گروپ کے ایک فرد نے صدر انور السادات پر حملہ کر دیا جس سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
فلسطینی مزاحمت کا ایک مؤثر نام یاسر عرفات ہے‘ جو یحییٰ حمودا کے بعد فروری 1969ء میں تحریک آزادیٔ فلسطین کے چیئرمین بنے تھے۔ جب اسرائیل اور مصر کے معاہدے کو پندرہ سال گزر چکے تھے‘ جب یاسر عرفات نے محسوس کیا کہ اب مسلح جدوجہد کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ ناروے کے دارالحکومت ''اوسلو‘‘ میں ''فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) اور اسرائیلی حکام کے مابین مذاکرات ہوئے جس کے بعد 13ستمبر 1993ء کو یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن کے مابین طے پا گیا کہ فلسطینی حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر لیا۔ سرحدوں‘ داخلی خود مختاری اور دنیا بھر میں پھیلے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا معاملہ آئندہ مذاکرات پر چھوڑ دیا گیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں مغربی کنارے اور غزہ پر فلسطینی اتھارٹی قائم ہو گئی۔ یہ معاہدہ ''اوسلو اکارڈ‘‘ کے نام سے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر بل کلنٹن کی نگرانی‘ موجودگی اور ضمانت میں ہوا تھا۔ 1996ء میں یاسر عرفات اس اتھارٹی کے صدر بن گئے مگر وعدے پورے نہ ہو سکے اور وہ دکھوں غموں کا شکار ہو کر 1996ء میں پیرس میں فوت ہو گئے۔
پہلے اور دوسرے 'اکارڈز‘ کے بعد راستے کافی ہموار کیے جا چکے تھے۔ ''بن گوریان‘‘ جو اسرائیل کا بانی یعنی بابائے قوم تھا‘ اس نے اسرائیل کے قیام سے قبل ہی اپنے بیٹے کے نام ایک خط میں مستقبل کا لائحہ عمل یہ کہہ کر طے کر دیا تھا کہ فلسطینیوں کو دیس نکالا دیتے چلے جائو۔ جو ایک بار نکل جائے اسے واپس نہ آنے دو۔ جی ہاں! عملی طور پر گزشتہ 80 سالوں سے اسی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ جس قدر بھی سمجھوتے ہو جائیں‘ ان سمجھوتوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ فلسطینیوں اور عربوں سے زمین خالی کرائو۔ جنگوں سے اس مہم کو تیز کر دو۔ عام دنوں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں اس مہم کو جاری رکھو۔ بن گوریان نے اس مہم کے رزلٹ سے بھی آگاہ کیا:
''ان مہاجرین کے باپ دادا جب اجنبی زمین پر مر جائیں گے تو تیسری نسل اپنی سرزمین کو بھول جائے گی...‘‘ جی ہاں! یہ ہے ان معاہدوں کی اصل حقیقت۔
15 ستمبر 2020ء کو اسرائیل اور اس کے معاونین کھل کر سامنے آ گئے۔ نئے سمجھوتے کا نام ''ابراہم اکارڈ‘‘ رکھا گیا۔ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے امن منصوبے (Peace Plan) کے تحت اس پر دستخط ہو گئے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کی یہ پہلی ٹرم تھی۔ اس ٹرم میں جہاں '' ابراہیمی معاہدہ‘‘ کروایا گیا‘ اس کے ساتھ ہی '' القدس شریف‘‘(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی قرار دے دیا گیا۔ مراکش نے بھی اسی سال یعنی 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ اگلے سال سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ یاد رہے کہ اردن کے سفارتی تعلقات 1994ء سے قائم ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز جنوری 2024ء سے کر چکے ہیں۔ وہ جنگوں کو رکوانے والے پُرامن صدر کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی چار روزہ جنگ انہوں نے بند کروائی۔ ایران اور اسرائیل کی بارہ روزہ جنگ انہوں نے بند کروائی۔ اب وہ غزہ اسرائیل جنگ بھی بند کرانے جا رہے ہیں... مگر غزہ کو اہلِ غزہ سے کافی حد تک محروم کر چکے ہیں۔ شہدا اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ لاکھوں زخمی علاج کے لیے دوسرے ملکوں کو چلے گئے۔ چار لاکھ کے قریب ویسے ہی جا چکے ہیں۔ جی ہاں! یہ ہے یہودو نصاریٰ اور اہلِ اسلام کے مشترکہ باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاک نام پر ہونے والا '' ابراہیمی سمجھوتا‘‘ اور باہمی رشتہ‘ جو مستقبل میں ماضی کی طرح بڑھتا چلا جائے گا...
1978ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر انور السادات اور میناہم بیگن کو نوبیل انعام ملا تھا۔ 1994ء میں اوسلو معاہدے پر اسرائیلی وزرائے اعظم اضحاک رابن‘ شمعون پیریز اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر یاسر عرفات کو نوبیل انعام ملا تھا۔ اس سے قبل یہ انعام مشترکہ پرائز کے طور پر ملا یعنی یہ ادھورا انعام تھا اور ان معاہدوں کا ادھورا امن ہمارے سامنے ہے۔ اب کے پورے کا پورا‘ سارے کا سارا‘ امن کا عالمی ایوارڈ‘ جس کا نام نوبیل ایوارڈ ہے‘ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملنے کی توقع ہے۔ اب پورے نوبیل انعام کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ نئے رشتے اور پورے کے پورے عالمی امن انعام کی کیا درگت بنتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved