تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-07-2025

تولیدی صحت کی تعلیم

بچوں کو کیسی تعلیم دی جانی چاہیے؟
اس کا ایک سادہ جواب ہے: ایسی تعلیم جو انہیں دنیا اور آخرت میں کامیاب بنائے۔ بعض کو ممکن ہے آخرت کی قید اضافی لگے۔ ان کا خیال ہو سکتا ہے کہ تعلیم کا آخرت سے کیا تعلق؟ ہمیں ساری توجہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل پر دینی چاہیے۔ تعلیم اچھا انسان بنائے جو اچھے معاشرے کی اکائی ہے۔ یہ تصور بظاہر ایسا نہیں کہ اس پر تنقیدکی جائے۔ پھر یہ کہ نتائج کے اعتبار سے دونوں میں فرق نہیں۔ آخرت میں کامیابی کو مدِنظر رکھتے ہوئے جو تعلیم دی جائے گی اس کا حاصل بھی دنیاوی اعتبار سے ایک اچھا انسان ہی ہو گا۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر اختلاف کس بات میں ہے؟
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک چینل پر پارلیمان کی دو خواتین اراکین ایک ایسے بل پر گفتگو کر رہی تھیں جس کا تعلق تولیدی صحت کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنانے سے تھا۔ ایک طبقہ یہ مؤقف رکھتا ہے کہ یہ ہماری مذہبی واخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ دوسرا ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے اسے ضروری قرار دیتا ہے۔ یہ قضیہ اس سے پہلے بھی 'جنسی تعلیم‘ کے عنوان سے زیرِ بحث رہا تھا اور اس پر اسی طرح دو مؤقف سامنے آئے تھے۔ یہاں بھی مقاصد میں اختلاف نہیں۔ دونوں گروہ صحت مند قوم چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ جان پائیں کہ دونوں کے اختلاف کا اصل دائرہ کیا ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اچھے انسان کی تعلیم کے باب میں ہم کیوں اختلاف کرتے ہیں۔
جو طبقہ تولیدی صحت کو مطلق مفہوم میں لیتے ہوئے‘ اس کی تعلیم کا حامی ہے وہ اس معاملے کو اخلاقی زاویے سے نہیں دیکھ رہا۔ اس کا زاویۂ نظر دوسرا ہے اور اس کے دلائل بھی مختلف ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بچیاں خاص طور پر جب جنسی عمل کے نتائج سے بے خبر ہوتی ہیں تو کم عمری میں ماں بن سکتی ہیں۔ اس سے جسمانی ونفسیاتی عوارض کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس لیے انہیں یہ تعلیم دی جانی چاہیے کہ وہ کیسے ماں بننے سے بچ سکتی ہیں۔ مغرب میں اسے 'محفوظ جنسی عمل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے تولیدی تعلیم سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح جنسی عمل میں مبتلا ہونے کے باوجود‘ ماں بننے سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سارے فلسفے میں اخلاقی صحت کا پہلو شامل نہیں ہے۔
جو فریق اس کا مخالف ہے‘ اس کا اعتراض اسی حوالے سے ہے۔ اس کا مؤقف یہ ہے کہ ایک بچی اگر یہ جان گئی کہ وہ جنسی عمل کو کیسے محفوظ بنا سکتی ہے مگر اس کے اخلاقی مضمرات سے واقف نہیں تو یہ اس پر آزادانہ جنسی عمل کے دروازے کھول دے گا۔ اخلاقی اعتبار سے یہ فعل‘ اگر نکاح کے بغیر بھی سرانجام دیا جائے‘ جسمانی اعتبار سے محفوظ ہونے کے باوجود قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ یہ اخلاقی صحت کے لیے بہرصورت مضر ہے۔ مذہب عام طور پر اس اخلاقی مقدمے کا وکیل ہے۔ اس لیے مذہبی لوگ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ تولیدی صحت کا یہ فلسفہ مغرب سے آیا ہے۔ وہاں کم عمر بچیاں بغیر نکاح کے ماں بن جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں صحت کے مسائل سے گزرتی ہیں‘ اس لیے انہیں ایسی تعلیم دینی چاہیے جو انہیں جنس سے متعلقہ عوارض سے محفوظ رکھ سکے۔ لبرل نظامِ اقدار میں باہمی رضامندی سے سرانجام پانے والا جنسی عمل کوئی جرم نہیں کیو نکہ یہ نظامِ اخلاق گناہ وثواب کے کسی تصور پر نہیں کھڑا۔ ان کے خیال میں یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ تصورِ حیات کے فرق سے‘ زاویۂ نظر مختلف ہو جاتا ہے۔ پھر نتائج کے اتفاق کے باوجود بھی اختلاف باقی رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فرق کے باقی رہتے ہوئے بھی اتفاقِ رائے ممکن ہے‘ اگر اس کے لیے سنجیدہ کو شش کی جائے۔ اس بات کی شرح کے لیے میں پھر اسی مثال کی طرف رجوع کر تا ہوں جس کا ابھی تذکرہ ہوا۔
ہم کسی سماج پر کوئی ایسا حل مسلط نہیں کر سکتے جو اس کے نظامِ اقدار کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ مغرب سیکولرازم کو ایک قدر کے طور پر اختیار کر چکا ہے۔ ہم اسے کسی مسئلے کا مذہبی حل تجویز نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ایک مذہبی معاشرے کو درپیش مسئلے کا غیر مذہبی حل قابلِ قبول نہیں ہوتا بالخصوص جب مذہب اسے مخاطب بنا چکا ہو۔ ہر اس آدمی کو اس بات سے اتفاق ہے جو سماج کی تشکیل کو جانتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب یہاں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے مہم چلائی گئی تو علما سے مدد لی گئی تاکہ وہ اس کے مذہبی دلائل فراہم کریں۔ یہ مہم چلانے والوں کو مذہب کے مؤقف سے فی نفسہٖ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پولیو کے خلاف مہم میں علما کو شامل کیا گیا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ مذہبی معاشرے میں غیر مذہبی مقدمہ قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اسی لیے اچھا انسان بنانے کے لیے ہمیں مذہب ہی کے راستے سے بات کو آگے بڑھانا ہوگا۔
طہارت مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔ وہ انسان کو روحانی اور جسمانی طور پر پاکیزہ بنانا چاہتا ہے۔ روحانی پاکیزگی یا اخلاقی صحت ایک ہی تصور کے دو بیان ہیں۔ جسمانی ساخت کے حوالے سے‘ بچیوں کی طہارت کے اپنے مسائل ہیں۔ بلوغت کے بعد انہیں ہر ماہ خاص ایام سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس بارے میں ہمیشہ توہمات موجود رہی ہیں۔ یہود نے اسے عورتوں کا جسمانی عیب بنا کر پیش کیا۔ قرآن وسنت نے اس باب میں ایک طرف ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور دوسری طرف ان امور پر ہدایات دیں۔ بچیوں پر ان ایام میں نماز کی فرضیت ختم کر دی گئی۔ بچیوں کو اس بات کی تعلیم دینا ضروری ہے۔ یہ معاملہ چونکہ تولیدی نظام سے براہِ راست متعلق ہے‘ اس لیے یہ تعلیم اسی وقت مکمل ہو گی جب انہیں تولیدی صحت کے بارے میں بتایا جائے گا۔ اس لیے اس کی تعلیم پر مذہبی حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارا لبرل طبقہ اس معاملے کو جب اپنے تصورِ حیات اور تصورِ انسان کی روشنی میں دیکھتا ہے تو سماج کی مذہبی حساسیت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر صرف جسمانی صحت ہے‘ اخلاقی نہیں۔ اس کے نزدیک جنسی عمل انسانی ضرورت ہے اور وہ اس باب میں کسی اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں۔ اسے بچوں کو صرف یہ بتانا ہے وہ اسے کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں تاکہ جسمانی طور پر صحت کے مسائل سے محفوظ رہیں۔ بچیاں زچگی جیسی پریشانیوں کا سامنا نہ کریں۔ اس تعلیم میں جب اس کے اخلاقی پہلو سے صرفِ نظر کیا جائے گا جس میں یہ عمل نکاح ہی کے دائرے میں جائز ہے تو یہ مذہبی سماج کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ اب مذہبی طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر نئی بات کو ردِ عمل کی نفسیات کے تحت دیکھتا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی تعلیم کی مخالفت کر رہا ہے۔
لبرل ازم بھی انسان کے اخلاقی وجود کو مانتا ہے مگر اس کی اخلاقی اساسات مادی ہیں۔ اس طرح اس کے نزدیک ایک اچھے انسان کا تصور‘ اُس اچھے انسان سے مختلف ہوگا جسے ایک مذہبی طبقہ اچھا انسان سمجھتا ہے۔ مذہب کی اخلاقی اساس روحانی ہے۔ اگر مذہبی طبقہ اس مسئلے کو اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں دیکھے اور سماج کو ایک متبادل حل دے تو یہ مخالفت برائے مخالفت نہیں ہو گی۔ ان کی یہ تنقید سماج کے ارتقا میں مثبت حصہ داری ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved