تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-07-2025

بیرونی سرمایہ کاری کا تاریک مستقبل

جس طرح اس ملک میں اپوزیشن کا کام حکومت کے ہر کام میں صرف کیڑے نکالنا اور خرابیاں دریافت کرنا ہے عین اسی طرح حکمرانوں کا کام اپنے ہر خراب کام میں سے خوبی دریافت کرنا اور ہر غلط حرکت سے بہترین نتیجہ تلاش کرکے عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ کم از کم اس عاجز نے آج تک کسی حکمران‘ کسی صاحبِ اقتدار سیاستدان اور کسی حکومتی عہدیدار کے منہ سے کبھی نہیں سنا کہ سرکار کے اس کام کے نتیجے میں یہ خرابی واقع ہوئی یا فلاں غلط حکومتی پالیسی کے باعث ملک کو یہ نقصان اٹھانا پڑا یا حکومت کے اس فیصلے سے ملک و قوم کو فلاں نتیجہ بھگتنا پڑا۔ تاہم اس کے برعکس حکمران‘ ان کے بغل بچے‘ ان کے ڈھنڈورچی‘ ان کے ترجمان اور ان کے احمق اور بے حس رضاکار ہر حکومتی خرابی میں سے ایسی ایسی خوبی تلاش کر لیتے ہیں کہ انکے ذہنِ رسا پر حیرت اور ان کی چاپلوسی اور بے حسی پر افسوس ہوتا ہے۔
پاکستان میں مائیکرو سافٹ نے اپنا دفتر بند کر دیا ہے۔ بجائے اسکے کہ اس کی وجوہات تلاش کی جاتیں‘ اسکے عواقب پر غور کیا جاتا‘ مستقبل میں اس قسم کے امکانات کو روکنے کی سعی کی جاتی‘ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے اسکی پیش بندی کی جاتی اور آئندہ کیلئے اس کا تدارک کیا جاتا‘ ہوا یہ ہے کہ پاکستان میں مائیکرو سافٹ کی جانب سے دفتر بند کرنے اور آپریشن ختم کرنے کے احمقانہ جواز تراشے جا رہے ہیں اور عالمی سطح کے اتنے بڑے ادارے کی جانب سے اٹھائے جانے والے قدم کا جائزہ لینے کے بجائے اس بندش کو عالمی سطح کے معاملات سے جوڑ کر اپنی غلطیوں کے اعتراف کے بجائے سارا ملبہ اٹھا کر پوری دنیا کے سر پر ڈال دیا ہے۔
وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے مائیکرو سافٹ کی جانب سے پاکستان میں اپنا دفتر مکمل طور پر بند کرنے کے جواز میں فرمایا ہے کہ مائیکرو سافٹ نے صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ڈاؤن سائزنگ کی ہے۔ بندہ پوچھے کہ ڈاؤن سائزنگ اور کسی دفتر کی مکمل بندش میں کوئی فرق نہیں؟ ڈاؤن سائزنگ کا مطلب مکمل بندش کب سے ہو گیا ہے؟ اور بھلا صرف پانچ بندوں پر مشتمل دفتر میں مزید کیا ڈاؤن سائزنگ ہو سکتی تھی؟ 25کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کو بھلا کوئی تجارتی کمپنی یا کاروباری ادارہ فالتو میں کیوں چھوڑے گا؟ تجارتی رشتوں میں بندھی ہوئی دنیا میں جہاں ملکوں کے باہمی تعلقات مارکیٹ اور خریداروں کی تعداد سے جڑے ہوئے ہوں‘ کوئی بھی کاروباری یا تجارتی ادارہ بلاوجہ ایسا کیوں کرے گا؟ ہم جب پاکستان کے مقابلے میں مغرب حتیٰ کہ مسلم ملکوں میں بھارت کی زیادہ پذیرائی کی بات کرتے ہیں تو نتیجہ یہی نکالا جاتا ہے کہ بھارت چونکہ ہم سے زیادہ بڑی مارکیٹ ہے اور آج کل دنیا میں ملکوں کے باہمی تعلقات مذہب یا رنگ و نسل کے بجائے تجارت اور کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے بھارت اپنی بڑی مارکیٹ کے باعث ہمارے مقابلے میں زیادہ ترجیحی سلوک کے مزے لیتا ہے۔ تو سوچنا ہو گا کہ کوئی بھی تجارتی ادارہ یا کاروباری کمپنی جس کا بنیادی مقصد کاروبار اور تجارت کے ذریعے منافع کمانا ہے‘ آخر دنیا کی پانچویں بڑی آبادی پر مشتمل مارکیٹ کو کیوں چھوڑ کر جا رہا ہے اور صرف مائیکرو سافٹ پر ہی کیا موقوف‘ گزشتہ چند سال کے اندر درجنوں بین الاقوامی تجارتی‘ کاروباری اور پیداواری کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر جا چکی ہیں اور کئی مزید اس تیاری میں ہیں۔
پٹرول کی سیلز اور مارکیٹنگ کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی سمیت درجنوں بین الاقوامی کاروباری اور تجارتی کمپنیاں گزشتہ چند سال کے دوران اپنا کاروبار اور سرمایہ سمیٹ کر پاکستان سے جا چکی ہیں۔ یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ محض ایک کالم میں اسے سمیٹنا ممکن نہیں۔ اگر ہم صرف اس ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے پیداواری یونٹ اور رسد کے حوالے سے کام کرنے والی دوا ساز کمپنیوں یعنی فارماسوٹیکل انڈسٹری کی ہی بات کریں تو نہایت ہوشربا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی درجنوں ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں نے اس ملک میں کام شروع کر دیا۔ گو کہ اس سارے عمل کے دوران ان کمپنیوں میں سے بیشتر نے وہ تقاضے بہرحال پورے نہ کیے جو انہیں کرنے چاہیے تھے جن میں خام مال کی مقامی سطح پر تیاری بھی شامل تھی مگر اس میں ان کمپنیوں کی بدنیتی اور نالائقی سے کہیں زیادہ حصہ ملک کی افسر شاہی‘ متعلقہ وزارت اور ریگولیٹری باڈی کا ہے جنہوں نے معاہدے کرتے وقت ملکی مفاد سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ایسے واہیات معاہدے کیے جن میں ملک اور اس ملک کے عوام کو وہ دور رس فوائد حاصل نہ ہو سکے جن سے انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے دیگر ممالک مستفید ہوئے۔ ظاہر ہے جب ریگولیٹر ہی نہ پوچھے تو مینوفیکچرر کیوں فکر مند ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود کام بہرحال چلتا رہا اور لوگوں کو بہتر کوالٹی کیساتھ ساتھ ایسی جان بچانے والی ادویات بھی ملتی رہیں جو کئی امراض کیلئے اس ملک میں میسر واحد ذریعہ تھیں۔ ان کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کرنے‘ اپنا مینوفیکچرنگ یونٹ اور آپریشن فروخت کر دینے سے جہاں ادویات کی کوالٹی میں بہت زیادہ تنزلی ہوئی وہیں کئی ادویات کا لائسنس نئے خریداروں کو دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
ادویات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے جب پاکستان میں اپنا آپریشن بند کیا تو اس کے نتیجے میں شدید ڈپریشن کی دوا Frisiumبند ہو گئی۔ 100گولیوں پر مشتمل اس دوا کا ڈبہ جو پہلے 540روپے میں دستیاب تھا‘ آج کل27ہزارروپے میں مل رہا ہے۔ جی ہاں! 27 ہزارمیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں اس دوا کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دنیا کی چند بڑی ادویہ ساز کمپنیوں میں سے ایک فائزر اس ملک سے اپنا کاروبار سمیٹ کر رخصت ہوئی تو جاتے جاتے Xanax کی رجسٹریشن بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ ایک ملی گرام کی گولیوں کا ڈبہ جس کی قیمت کبھی 550روپے تھی اب دس ہزار روپے میں بھی سفارشوں اور حوالوں سے مل رہا ہے۔ اس قسم کی جان بچانے والی اور دیگر نہایت ہی پیچیدہ بیماریوں کیلئے میسر ادویات کی ایسی قلت ہے کہ جن پر گزر رہی ہے صرف وہی جانتے ہیں۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی مرگی کے علاج کی نہایت ہی سستی دوا Tegral بناتی تھی۔ یہ دوا مریض کو ساری عمر کھانا پڑتی ہے۔ اس دوا کا 200mg کا پچاس گولیوں پر مشتمل ڈبہ صرف ایک سو دس روپے میں مل رہا تھا‘ اب نایاب ہے۔ ڈاکٹر اس کی جگہ مہنگی دوا لکھ کر اپنا کمیشن کھرا کر رہے ہیں اور مریض مجبور ہے۔ کمپنیوں کے بند ہونے‘ آپریشن فروخت کرنے اور بھاگ جانے کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ لکھیں تو ریاستی نااہلی‘ حکومتی بدانتظامی‘ سیاسی بے اعتدالی‘ ان کمپنیوں کی مقامی انتظامیہ کی بدنیتی‘ ریگولیٹری باڈی کی بے ایمانی اور بیورو کریسی کی کرپشن کی اس داستان پر بندہ شرم سے ڈوب کر مر جائے۔ چلیں مان لیا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چور تھیں‘ ڈاکو تھیں‘ لٹیری تھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کمپنیاں اپنی لوٹ مار‘ کرپشن (اگر وہ واقعتاً کر رہی تھیں) اور منافع کی بہتی گنگا چھوڑ کر اس ملک سے کیوں بھاگ گئیں؟ اور جو باقی ہیں وہ تیار بیٹھی ہیں۔ فی الحال صرف چند کمپنیوں کے نام درج ذیل ہیں‘ جو اپنا چلتا کاروبار چھوڑ کر اس ملک سے رخصت ہو گئی ہیں لیوفارما‘ وائیتھ‘ بائیر‘ روش‘ سولو‘ سیبا وژن‘ لِلی‘ مرک‘ ایوانٹس‘ آئی سی آئی‘ فائزر‘ جانسن‘ ایم ایس ڈی‘ سینڈوز‘ جی ایس کے اور ایسٹرازینیکا کے علاوہ اور بھی کئی کمپنیاں ہیں جن کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا۔یاد رہے کہ ساری کمپنیاں صرف پاکستان سے بھاگی ہیں جبکہ باقی ساری دنیا میں کاروبار اور پروڈکشن کر رہی ہیں۔ سرکار سے پہلے سرمایہ کاری کرنے والے سنبھالے نہیں جا رہے اور دعوے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان لا رہے ہیں۔ پاکستان میں تو اب خود پاکستانی سرمایہ کاری پر تیار نہیں‘ باہر سے کون بیوقوف آئے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved