تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     19-07-2025

پنجاب کے شہروں کی خوبصورتی

یوں بھی لاہور کی خوبصورتی اور یہاں کے باسیوں کی اجنبیوں کے لیے گرمجوشی کے دور نزدیک بہت چرچے ہیں مگر بالخصوص جب اہلِ کراچی اپنے شہر کی گندگی اور بدحالی کا لاہور کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو پھر وہ داتا کی نگری کے لیے بہت رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ دنیا کے معیار کے حساب سے کسی شہر کی خوبصورتی محض رنگ برنگے قمقموں اور دیگر اشیائے زیبائش وآرائش سے نہیں بلکہ وہاں موجود سہولتوں سے ناپی جاتی ہے۔ خوبصورتی کا اصل معیار یہ ہے کہ اس شہر میں صفائی ستھرائی کیسی ہے‘ شہر برساتی ودریائی سیلابوں سے کتنا محفوظ ہے‘ ٹریفک کی روانی کیسی ہے‘ پبلک ٹائلٹس کی سہولتیں وافر ہیں یا نہیں۔ عام شہریوں کے لیے سیر گاہوں اور پارکوں وغیرہ کی کتنی سہولتیں ہیں۔
لاہور کی مال روڈ ہی نہیں‘ دوسری سڑکوں کے کنارے پابہ گل اور سربفلک اشجار اور باغوں اور پارکوں سے لاہور کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ بہنے والی نہر اور اس پر لگی مختلف ڈیزائنوں کی رنگ برنگی روشنیوں نے اس شہر کے حسن وجمال کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ البتہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے شہر کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ بدھ کے روز پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک بیان میں جہاں لاہور کی مزید تزئین وآرائش کے کام میں پیشرفت کا جائزہ لیا ہے وہاں انہوں نے پنجاب کے 189 شہروں کو لاہور کے طرز پر خوبصورت بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ ایک قابلِ تحسین ارادہ ہے۔
مریم نواز صاحبہ نے پنجاب کے جن 189 شہروں کا ذکر کیا ہے ان میں میرا شہر‘ شاہینوں کا شہر سرگودھا بھی شامل ہے۔ ایک بار پھر قارئین کو چینی مصنف Lin Yutang کی کتاب ''جینے کی اہمیت‘‘ کی دلآویز تحریروں میں سے ایک دو کا تذکرہ سناؤں گا۔ اس کتاب میں چینی مصنف نے جس مثالی شہر کا نقشہ کھینچا تھا اس پر تین چار دہائیاں پہلے کا سرگودھا بدرجہ اتم پورا اترتا تھا۔ اس مثالی شہر میں سڑکیں صاف ستھری ہوتی تھیں۔ شہر میں اِژدہام نہیں تھا۔ شہر کے اندر اور اس کے گردا گرد گھنے درخت جہاں شہر کے درجۂ حرارت کو اعتدال پر رکھتے تھے‘ وہاں اس کے حسن میں اضافے کا باعث بنتے تھے۔
قدرتی حسن کے بعد شہر کے معنوی حسن کا ذکر کرتے ہوئے فاضل مصنف لکھتا ہے کہ مثالی شہر کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ میرا شہر ایسا ہی تھا۔ سرگودھا منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا نسبتاً ایک جدید شہر ہے۔ شہر کے اندر بھی سڑکوں کے کنارے جھومتے درخت تھے اور شہر کے تینوں اطراف پھلتے پھولتے درخت اور مالٹوں کے باغات تھے۔ 1960ء کی دہائی میں شہر کے اندر پھیلے ہوئے بلاکوں کے علاوہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی نہایت منظم اور صاف ستھری کالونی کا آغاز ہوا جو جلد ہی شہر کے نسبتاً خوش حال سفید پوش لوگوں کی بستی بن گئی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں ہمارے گھر کے پچھواڑے میں بہتی گنگناتی ہر دم رواں دواں ندی تک خالی رقبہ تھا۔ گھروں کے عقب میں لوگ پھولوں‘ پودوں‘ درختوں اور سبزیوں سے استفادہ کرتے اور علاقے کے حسن میں اضافے کا باعث بھی بنتے۔ پھر دیکھتے دیکھتے گزشتہ دو اڑھائی دہائیوں کے دوران ایک مثالی شہر آشوب کا نمونہ بن گیا۔ ہوا یہ کہ شہر کے اندر بازاروں کے آگے پھیلے تجاوزات اتنے بڑھے کہ پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ہی نہیں آدھی سڑک بھی معدوم ہو گئی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں بھی تجاوزات کی بھرمار ہو گئی۔ کنٹونمنٹ کے قواعد وضوابط کا کسی زمانے میں بہت شہرہ تھا مگر سیاسی مصلحتوں اور آسان دولت کے حصول کی کشش کے سامنے سارے اصول ضابطے ڈھیر ہو گئے اور پھر چند سالوں میں خوبصورت رہائش گاہیں کباڑخانوں‘ دکانوں اور مارکیٹوں میں بدل گئیں۔ صاف ستھری سنسان سڑکوں پر اب ہر طرف دھواں اور خاک اڑاتے ٹرک اور گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ گھروں کے عقب میں سارے بیک یارڈوں میں بزور کچی بستیاں قائم ہو گئیں۔ اب نہ وہ بیک یارڈ ہیں اور نہ وہ پھول بوٹے رہے۔ یوں ایک مثالی خوبصورت شہر برباد ہو گیا۔
پنجاب کے قدرتی جمال سے مالا مالا اور حسنِ انتظام سے آراستہ تقریباً سبھی شہروں کی یہی کہانی ہے۔ اب اگر وزیراعلیٰ‘ پنجاب کے شہروں کو لاہور کی طرز پر خوبصورت بنانا چاہتی ہیں تو ان کا ویژن بہت واضح ہونا چاہیے۔ خوبصورتی میں تزئین وآرائش تو بہت بعد میں آتی ہے۔ سب سے پہلے صفائی آتی ہے۔ پھر چھوٹے بڑے ہر طرح کے تجاوزات سے نجات ہے۔ اس کے بعد رہائشی علاقوں کو تجارتی مراکز میں بدلنے سے اجتناب ہے۔
آج سے ستر برس قبل‘ جب سرگودھا شہر کی آبادی صرف ایک لاکھ تھی‘ اس وقت شہریوں کے لیے ایک چھوٹا سا پارک کمپنی باغ کے نام سے موجود تھا۔ آج شہر کی آبادی دس لاکھ ہو گئی ہے اور نئی نئی کالونیاں بھی وجود میں آ گئی ہیں مگر جہاں کم از کم وسیع وعریض پندرہ بیس پارک ہونے چاہئیں‘ وہاں کم معیار کا مزید ایک اور پارک قائم ہوا ہے۔ شہر کے مردوں‘ خواتین اور بچوں کے صحت مندانہ مشاغل کے لیے سیر گاہیں‘ پیراکی کے تالاب اور جم سنٹرز قائم ہونے چاہئیں۔
پنجاب کے شہروں کے درمیان علاقہ وار کھیلوں کے مقابلے ہونے چاہئیں۔ یہاں گزشتہ پون صدی سے شہریوں کے لیے اوپر بیان کی گئیں سہولتیں ناپید ہیں۔ لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی جم خانہ جیسے اکّا دکّا کلب صرف ایلیٹ کلاس کے لیے ہیں۔ سفید پوش کلاس کے لیے تو ایسی سہولتوں کا تصور بھی ممکن نہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے حکمران یورپ وامریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں سیر و سیاحت اور قیام کے لیے جاتے ہیں۔ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اپنے ملک کے محکوموں کو ایسی کوئی سہولت فراہم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ برطانیہ‘ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں جگہ جگہ پبلک ٹائلٹس موجود ہوتے ہیں‘ ہمارے ہاں ایسی بنیادی سہولت بڑے شہروں میں موجود ہے نہ چھوٹے شہروں میں۔
مجھے معلوم نہیں کہ موٹروے پر ریسٹ ایریاز کی مساجد کے اندر اور باہر صاف ستھرے ٹائلٹس کا انتظام کس ادارے نے کیا ہے۔ جس نے بھی کیا ہے‘ قابلِ تحسین ہے۔ نہایت اچھی سہولتوں کے ساتھ ''وی آئی پی‘‘ ٹائلٹس کا اہتمام معمولی چارجز کے ساتھ موجود ہے۔ ایسے انتظامات لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں پبلک کے لیے جگہ جگہ ہونے چاہئیں۔ ایسی سہولتوں ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم مہذب ہے۔
آب آئیے اہم ترین نکتے کی طرف! لاہور میں تو میڈم وزیراعلیٰ بنفس نفیس نگرانی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ دیگر اضلاع میں یہ کام ضلعی بیورو کریسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ انہیں شہر کی ترقی اور تزئین وآرائش میں وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی جو خود اہالیانِ شہر کو ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز بلاتاخیر بلدیاتی اداروں کو بحال کریں اور اُن کے فی الفور انتخابات کرائیں تاکہ ہر علاقے کے شہریوں کو اپنی منتخب کردہ قیادت میسر آئے جو دل وجان سے اپنے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کرے۔ عوام ایسی جوابدہ قیادت کو ضروری فنڈز بھی مہیا کر دیں گے۔ میڈم وزیراعلیٰ بس مختلف شہروں کی بلدیاتی قیادت کی نگرانی کا فریضہ سونپ دیں۔ وہ صفائی‘ شہر کی خوبصورتی اور دیگر سہولتوں کے حوالے سے شہروں کے درمیان مقابلے بھی کروائیں۔ بہترین پرفارمنس پر مثالی شہروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ غیر معیاری کارکردگی والے شہروں کو تنبیہ کی جائے۔ پنجاب کے شہروں کو خوبصورت بنانے کا یہی مجرب نسخہ ہے۔ ایک مرتبہ کر کے تو دیکھیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved