تاریخ‘ علمی ہو یا واقعاتی‘ ظن سے زیادہ کچھ نہیں۔ حیرت ہے لوگ صدیوں پرانے واقعات جزئیات اور تیقن کے ساتھ سناتے ا ور ان پر عقیدہ وافکار کی عمارت بھی تعمیر کرتے ہیں۔
چند دن پہلے علامہ اقبال کے پیر جلال الدین رومی کا واحد نثری مجموعہ 'فیہ ما فیہ‘ کا اردو ترجمہ نظر سے گزرا۔ ترجمہ عبدالرشید تبسم صاحب نے کیا ہے۔ یہ رومی کے ملفوظات ہیں‘ کوئی باضابطہ تحریر نہیں۔ پیش لفظ میں اس کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب پر چند صدیوں میں کیا گزری‘ یہ ابتدائیہ اس کی کہانی سناتا ہے۔ اس کے مطابق‘ سب سے پہلے مولانا عبدالماجد دریابادی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ یہ ایڈیشن 1928ء میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن پروفیسر بدیع الزماں نے 1950ء میں تہران سے شائع کیا۔ اس وقت اس کے دو ایڈیشن‘ ہندی اور ایرانی دستیاب ہیں۔ اب یہ قطرہ گوہر کیسے بنا‘ اس کی کہانی مترجم کی زبانی سنیے:
''مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے ایڈیشن کا جو دیباچہ لکھا‘ اس سے ہندی ایڈیشن کی یہ ہسٹری معلوم ہوتی ہے کہ 1920ء میں ریاست رام پور کے سرکاری کتب خانہ میں ''فیہ ما فیہ‘‘ کا ایک بوسیدہ اور کِرم خوردہ نسخہ ان کی نظر سے گزرا۔ اس سے ان کے دل میں تجسس پیدا ہوا۔ 1923ء میں انہیں حیدرآباد دکن میں دو نسخے ہاتھ آ گئے۔ ان میں ایک نسخہ کتب خانہ آصفیہ کا تھا۔ تینوں نسخوں کا باہم مقابلہ کیا تو کتب خانہ آصفیہ والا نسخہ زیادہ صحیح نکلا۔ انہوں نے اس باب میں پروفیسر نکلسن سے خط وکتابت کی اور کتب خانہ آصفیہ والے نسخے کی نقل انہیں ارسال کر دی۔ پروفیسر نکلسن نے وہ نقل اپنے ذی علم دوستوں کے پاس قسطنطنیہ بھیج دی جنہوں نے وہاں اس پر ریسرچ کی‘ اور 1924ء میں رسالۂ مذکور کی ایک نہایت خوشخط اور صحیح نقل قسطنطنیہ سے مولانا دریابادی کے پاس پہنچ گئی۔ یہ نقل قسطنطنیہ کے چار قلمی نسخوں سے مقابلہ کے بعد تیار ہوئی تھی۔ مزید تسلی کے لیے مقابلہ وتصحیح میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے سات علما سے مدد لی‘ جن میں سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی بھی شامل ہیں‘‘۔
''ایرانی ایڈیشن کی سرگزشت بھی تقریباً ایسی ہی ہے۔ ایران کے پروفیسر بدیع الزمان فروزانفر جب مولانا روم کا منظوم کلام‘ مثنوی اور دیوانِ شمس تبریز مطالعہ کرتے تو وہ سمجھنے کے لیے مولانا روم ہی کے ملفوظات یعنی 'فیہ ما فیہ‘ کی طرف رجوع کرتے۔ ان کے پاس خطِ نسخ میں لکھا ہوا 'فیہ ما فیہ‘ کا ایک نسخہ تھا‘ جس کی صحت کے متعلق وہ متردد رہے۔ آخر انہیں کتاب خانہ میں سے ایک معتبر نسخہ مل گیا‘ جس کی کتابت 888ھ کی تھی۔ آقائے ڈاکٹر محمد معین سے انہوں نے ان دو نسخوں کا مقابلہ کرایا تو خطِ نسخ والے نسخے میں بہت تحریف واضافۂ عبارات پایا۔ انہوں نے آقائے تقی تفضّلی سے‘ جو کتاب خانہ مجلس شوریٰ ملی سے متعلق تھے‘ مزید تحقیق کرائی تو معلوم ہوا کہ استنبول میں تین نسخے موجود ہیں۔ یہ وہی نسخے تھے جن سے مولانا عبدالماجد دریابادی نے پروفیسر نکلسن کی وساطت سے کتب خانہ آصفیہ والے نسخہ کا مقابلہ کر لیا تھا۔ بہرحال ڈاکٹر غاظنوی کی جدوجہد سے پروفیسر بدیع الزمان فروزانفر کو ان استنبولی نسخوں کے عکس مل گئے۔ ان نسخوں سے پروفیسر صاحب نے نسخۂ ملی کا مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر موجودہ ایرانی ایڈیشن معرض وجود میں آیا۔ پروفیسر صاحب نے کل آٹھ نسخوں سے نسخہ ملی کا مقابلہ کیا‘ لیکن زیر نظر ایرانی ایڈیشن کی بنیاد استنبولی نسخوں ہی پر رکھی۔
اوپر بیان کردہ واقعات سے ظاہر ہے کہ ہندی ایڈیشن اور ایرانی ایڈیشن کے متن استنبولی نسخوں پر مبنی ہیں۔ اس اعتبار سے ان دو ایڈیشنوں کے متن میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے متن میں جابجا اختلاف موجود ہے‘ یہاں تک کہ بعض جگہ ایک متن کے صفحوں کے صفحے دوسرے متن سے نہیں ملتے‘ اور بعض مقامات پر تو ان کا مطلب ایک دوسرے کی ضد ہو کر رہ گیا ہے۔
غرضیکہ فیہ ما فیہ کے ہندی ایڈیشن کا متن اور ایرانی ایڈیشن کا متن ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے سامنے نہ تو کتب خانہ آصفیہ والا نسخہ ہے‘ نہ ایران کا نسخہ ملی‘ اور نہ استنبولی نسخوں تک ہماری رسائی ہے۔ اس لیے ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں زیادہ معتبر متن کون سا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں مولانا عبدالماجد دریابادی کی رائے ایرانی ایڈیشن کے متعلق کیا ہے لیکن پروفیسر بدیع الزمان فروزانفر نے اپنے ایڈیشن کے دیباچہ میں کہا ہے کہ ''مولانا دریابادی والے نسخے کی بنیاد قدیم نسخوں پر نہیں‘ اس لیے وہ قابلِ اعتماد نہیں‘ اور یہ کہ اس میں حشوو زوائد راستہ پا گئے ہیں‘‘۔ پروفیسر صاحب کا یہ بیان غلط ہو یا صحیح‘ دو باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ مولانا عبدالماجد دریابادی اس وادی میں پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کا ہندی ایڈیشن‘ جیسا بھی ہے‘ معرض وجود میں نہ آتا‘ تو آج ایرانی ایڈیشن بھی موجود نہ ہوتا۔ دوسرے یہ کہ 'فیہ ما فیہ‘ کو صحیح ترین صورت میں شائع کرنے کے لیے ابھی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس ریسرچ کا صحیح طریق یہ ہے کہ کوئی صاحبِ ذوق اور صاحبِ توفیق ریسرچ سکالر یہاں سے اور ایران سے وہ اصل مواد حاصل کرنے کے بعد‘ جسے مولانا عبدالماجد اور پروفیسر بدیع الزمان نے استعمال کیا‘ ترکیہ کا سفر اختیار کرے اور وہاں بیٹھ کر تمام قلمی نسخوں سے خود استفادہ کرے۔ اس قبیل کے نسخوں کی ''نقلوں‘‘ اور ''عکسوں‘‘ میں ہمیشہ اختصار اور کفایت شعاری سے کام لیا جاتا ہے جس سے مسودہ کامل اعتبار کے درجہ سے گر جاتا ہے‘‘۔
یہ طویل اقتباس اپنے مفہوم میں اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی کمی بیشی کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی علمی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہمارا علمی ذخیرہ بڑی حد تک منگولوں نے تلف کر دیا۔ پھر مسلمانوں میں مطالعۂ تاریخ بطور ایک علم‘ کبھی مستحکم نہیں ہوا۔ اس باب میں ہمارے پاس لے دے کے مقدمہ ابن خلدون کے سوا کچھ نہیں۔ تاریخ کے ایسے ذخیرے کی بنیاد پر کوئی مقدمہ قائم کرنا ایک قیاس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لوگ بالعموم پہلے ایک نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں اور پھر اس کے لیے تاریخ سے دلائل جمع کرتے ہیں۔ متضاد نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کو تاریخ نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ آج ہرکسی کے پاس ظن اور پھر اس کی بنیاد پر قیاس کے سوا کچھ نہیں۔
حاصل یہ ہے کہ تاریخ ایک علمی و واقعاتی سرگرمی کے لیے ایک عمدہ اور ضروری میدان ہے۔ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے ساتھ مگر اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس باب میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ مذہبی معاملات زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔ احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس تفہیم کو زیادہ مصدقہ سمجھتے ہیں اسے قبول کیجیے اور دوسرے کو بھی یہ موقع دیجیے کہ وہ واقعات میں اپنی ترجیح قائم کرے۔ اس کے ساتھ محض ظن کی بنیاد پر کسی پر لعنت نہ بھیجئے کہ کہیں خدا کے حضور میں اس کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved