آپ کو یاد ہو گا ڈیڑھ مہینہ پہلے کراچی کی ملیر سنٹرل جیل سے 80 کے لگ بھگ قیدی پیدل فرار ہو گئے تھے۔ اُن فراریوں میں سے کچھ قیدیوں نے ایک رات کی مفروری گھر میں گزاری لیکن پھر یہ ہوا کہ اُن میں سے کئی مفرور قیدی رضاکارانہ طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے خود ہی واپس آ گئے۔ باقی مفروروں میں ایک یا دو قیدیوں کو اُن کے گھر والوں نے خود لاکردوبارہ جیل میں بند کروا دیا۔ پہلی کیٹیگری کے مفروروں کا کہنا تھا: باہر کے بجائے ہم جیل میں زیادہ محفوظ ہیں۔ مفروری میں ایک رات کا کھانا اور صبح کی چائے ملنا بھی مشکل تھی۔ جیل سے بھاگنے والے مفرور قیدیوں کی اکثریت سزا یافتہ بتائی جاتی ہے۔ اس واقعے سے بہت سادہ مورل آف سٹوری ملتا ہے۔ چھوٹی جیل میں دال روٹی اور دیگ میں بنی ہوئی چائے مفت ملتی ہے۔ اکثر قیدی دال ملتے ہی فوراً دال کی پہلی قسط غٹاغٹ پی جاتے ہیں‘ پھر وارڈن سے درخواست کرتے ہیں کہ مہربانی فرمائو اور کھانے کے لیے دال دے دو۔ ان قیدیوں کو نہ بجلی کے بل کا غم‘ نہ گیس کے بل کی پریشانی۔ انہیں جو مارکھانا پڑتی ہے یا کوئی گھسیٹے اور بے عزت کر دے تو وہ اُن کے محلہ داروں اور ہم وطنوں‘ دونوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس لیے مورل آف سٹوری وہی بنتا ہے جو عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا ایکس اکائونٹ سے درج ذیل ٹویٹ میں بتایا۔ ''میں چھوٹی جیل میں قیدی نمبر 804 کی حیثیت سے آزاد ہوں۔ میں اپنی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہا آپ کو غلام بنانے والے نظام سے لڑ رہا ہوں۔باہر سارے بڑی جیل میں قید ہیں‘‘۔
قارئینِ وکالت نامہ! میں آپ کو صرف ایک طیارے کی مثال دیتا ہوں... صرف ایک طیارہ! یہ مثال پوری اُمت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ رہے گی۔ لیکن اُس سے پہلے ایک نظر 1628ء کی تاریخ پر ڈالتے ہیں جب شہاب الدین محمد شاہ جہاں (اوّل) ہندوستان میں مغل سلطنت کے تخت پر براجمان ہوا۔ اس بادشاہ نے آج کے کئی کھرب روپے لگا کر اپنی لاڈلی بیوی ممتاز محل کی یاد میں 1632 عیسوی سے شروع کر کے 1648ء میں غریب لوگوں کے ٹیکسوں‘ جبری وصولیوں اور دھونس دھمکیوں سے تاج محل کی تعمیر مکمل کی۔ اسی دور میں مغرب کے استعماری ملکوں میں ٹاپ ٹین یونیورسٹیاں زیرِ تعمیر تھیں۔ متحدہ ہندوستان تب سونے کی چڑیا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے تاج محل پر یوں تاریخی تبصرہ کیا:
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق
میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے...
مشرقِ وسطیٰ میں دنیاکی بلند ترین عمارت بُرج خلیفہ کی تعمیری لاگت 1.5 بلین ڈالر آئی ہے جبکہ اسی عرصے میں امریکہ بہادر نے ایک ایسا بمبار طیارہ B-2 کے نام سے بنایا ہے جس کی تیاری کا خرچہ 2.1 بلین ڈالر ہے۔ یہ دو مثالیں آپ کے سامنے رکھنے کی وجہ یہ بتانا ہے کہ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں؟ پچھلے کئی سو سال سے اُمتِ مسلمہ کے مینجر عمارتیں بلند کرتے رہے اور دوسری قومیں اپنی سوچ بلند کرتی گئیں۔ آج اگر ہم پیچھے ہیں اور بلا شک وشبہ بہت پیچھے ہیں‘ شرق وغرب کے تمام قابلِ ذکر ممالک ہم سے آگے ہیں اور بہت آگے ہیں‘ تو اُس کی وجہ ہمارے مینجرز کی سوچ ہے‘ جس کو سادہ الفاظ میں انگلش ناولسٹ اور تاریخ دان Dr. Archibald D.Hart کی شہرہ آفاق کتاب کے ٹائٹل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ Me, Myself and I۔ اس کتاب پر اسی نام سے ہالی وُڈ نے فلم بھی بنا رکھی ہے۔
پاکستان میں فرضی جمہوریت کے ہارے ہوئے لشکر کی پالیسیوں کے بارے میں حال ہی میں Derek J. Grossman‘ جو امریکی مصنف اور دفاعی تجزیہ کار ہیں‘ نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر ایک طنزیہ کارٹون شیئر کیا ہے۔ ڈیرک گراسمین جیل شیل‘ ٹائی شائی لگا کر ٹی وی پر آنے والے تجزیہ کار نہیں بلکہ اُن کا تعلق دنیا کے چند قابلِ ذکر تھنک ٹینک میں سے ایک رینڈ کارپوریشن سے ہے۔ اس طنزیہ کارٹون میں ایک کمرہ دکھایا گیا جہاں لُٹی ہوئی ایک دوشیزہ آدھے بدن پر چادر ڈھانپے بیٹھی ہے اور ایک مغرور عیاش اُس سے پیٹھ پھیر کر ٹائی باندھ رہا ہے۔ اس مغرور عیاش کا نام ہے انکل سام۔ اس کارٹون پر ڈیرک گراسمین نے معنی خیز تبصرہ کیا ہے مگر ہم ہیں کہ امریکی صدر کی آمد کی راہ تک رہے ہیں۔ جیسے وہ آئیں گے اور ہمارے بھاگ جگائیں گے۔ اس وقت دنیا کی دوسری اور کئی معنوں میں سب سے بڑی طاقت چین کے بارے میں پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ دن میں بھی ڈرائونے خواب دیکھتی ہے۔ چین کی تضحیک پر مبنی فلمیں ہالی وڈ سے باہر آ رہی ہیں۔ دوسری جانب عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کے سرکاری کمنٹری اکائونٹ سے ایکس پر ایک پیغام جاری کیا گیا جس میں صدر شی نے کمال کا تبصرہ کیا۔ صدر شی لکھتے ہیں: دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ 100 سال پہلے دنیاکی تجارت پر برٹش ایمپائر چھائی ہوئی تھی۔ پوری دنیا کی20 فیصد سے زیادہ دولت برٹش ایمپائر کے قبضے میں تھی۔ بہت سے لوگ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ برٹش ایمپائر پر کبھی سورج غروب نہیں ہو گا۔ 200 سال پہلے پورا یورپ‘ افریقہ اور بہت سے ایشیائی ممالک فرانس کی فوجی طاقت کے سامنے کانپتے تھے۔ صدر شی نے لکھا: ا گر امریکہ دنیا کا احترام کھو بیٹھا ہے تو وہی سبق سیکھے گا‘ جو ہر زوال پذیر سلطنت نے بہت دیر سے سیکھا۔ دنیا کسی کے لیے نہیں رکتی‘ ہمیشہ آگے بڑھتی رہتی ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان کو سرزمینِ بے آئین بنانے کی مسلسل مہم کا جائزہ لیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی پی ٹی آئی کو قوم نے 8 فروری 2024ء کو انتخابی نشان کے بغیر بھی تقریباً دو تہائی ووٹ دیے۔ پی ٹی آئی کی کامیابی چھین لی گئی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کا لیڈر اور اس کا انتخابی نشان چھینا جا چکا تھا۔ جب یہ کالم آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا تب سپریم کورٹ کے حکم کے نیچے کے پی اسمبلی کی 88 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو سینیٹ کی چھ اور باقی سیاسی یتیموں کو تحفے میں پانچ نشستیں بانٹی جا چکی ہوں گی۔ اس کے لیے بھی ایک عدالت آرڈر کام آیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1960ء کے عشرے میں ہوا تھا۔ اس ملک میں بغیر لائسنسں کے موٹر سائیکل چلانے پر پچیس سو روپے جرمانہ ہے جبکہ جعلی کاغذات پر ملک چلانے پر پٹرول‘ بجلی‘ گیس سب کچھ فری ملتا ہے۔ ساری دنیا میں میگا کشکول سر پر رکھ کر بھیک مانگنے والوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہر سال تقریباً 22 بلین ڈالر مالیت کا سیلابی پانی تینوں صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر بُرد ہو جاتا ہے لیکن ریاست کے منیجرز کو لوگوں کا ڈوب کر مرنا قبول ہے لیکن کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکتے۔ برطانیہ میں جج ساری زندگی صرف ایک گھر بنا پاتا ہے اور پاکستانی جج برطانیہ میں چار گھر بنا لیتے ہیں۔ ریاست کے مینجر سمجھتے ہیں کہ ہماری کرنسی برطانیہ سے بہتر ہو گئی۔ اب عوام کو مزید قابو میں رکھنے کے لیے صوبائی خودمختاری کا جنازہ نکالا گیا‘ جسے کہتے ہیں: فیڈرل سکیورٹی فورس سیزن ٹو...(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved