چند روز قبل وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں نہیں بنتے اس لیے ان کی قیمتیں کنٹرول نہیں کی جا سکتیں۔صحیح کہا! مگر معاملہ یہ ہے کہ جو اشیا ملک میں بنتی ہیں‘ حکومت سے ان کی قیمتیں کب کنٹرول ہو رہی ہیں۔ چینی کو دیکھ لیں‘ بنتی تو پاکستان ہی میں ہے مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 0.37 ڈالر فی کلو گرام ہے جو تقریباً 105 روپے بنتی ہے جبکہ پاکستان میں فی کلو چینی کی قیمت 185 سے 215 روپے تک ہے۔ پاکستان گنا خود پیدا کرتا ہے اور چینی بھی پاکستان کی شوگر ملوں میں تیار کی جاتی ہے اس کے باوجود ملک میں چینی کی قیمت عالمی مارکیٹ سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اشیا کی قیمتیں کنٹرول نہ ہونے کی ممکنہ وجہ حکومت کی عدم دلچسپی‘ اہلیت میں کمی اور ذاتی لالچ ہو سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں بننے والی چینی کا تقریباً 51 فیصد حصہ چھ بڑی شوگر ملوں میں تیار ہوتا ہے اور شوگر ملز مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ ملک کی وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں عوامی مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسمبلیاں عوامی مسائل پیدا کرنے اور انہیں بڑھاوا دینے کی زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اس سال ایک بار پھر اربوں روپے شوگر سکینڈل کی نذر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور بیس بڑے خاندان ایک مرتبہ پھر پیسہ بنانے کی کامیاب حکمت عملی پر عمل پیراہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہر سال پاکستانی عوام یہ بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ شاید عوام کو بھی اس کی عادت ہو گئی ہے اس لیے وہ احتجاج نہیں کرتے۔ البتہ عوام کو شعور دینے کی ذمہ داری ادا کرتے رہنا ضروری ہے۔ جولائی 2024ء سے مئی 2025ء تک تقریباً سات لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی اور تقریباً 114 ارب روپے کمائے گئے۔ اب مزید پیسہ بنانے کے لیے تقریباً سات لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جس کی مالیت تقریباً 198 ارب روپے ہے۔ یعنی مزید 84 ارب روپے کمائے جائیں گے۔ اگر وفاقی کابینہ چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دیتی تو نہ یہ بحران کھڑا ہوتا۔ کسی مہذب ملک میں ایسا سکینڈل سامنے آتا تو وزیراعظم عوامی دبائو میں مستعفی ہو چکا ہوتا‘ کیبنٹ ممبرز کے ٹرائل چل رہے ہوتے اور چینی فوراً سستی کر دی جاتی لیکن ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں لگتا کیونکہ اکثر سیاسی خاندان اسی کاروبار سے وابستہ ہیں۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت میں شوگر مافیاز کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے شوگر مافیا کی خفیہ نیٹ ورکنگ عوام کے سامنے ایکسپوز کی تھی اور وزیراعظم نے اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف انکوائری بھی شروع کرائی تھی۔ جب کیسز حتمی مراحل میں پہنچے تو شوگر مافیا نے پارٹی میں فارورڈ بلاک بنا لیا‘ اس سے حکومت کمزور ہو گئی اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت رخصت ہو گئی۔ ہر سال شوگر مافیا عوام سے اتنا دھن کما لیتا ہے کہ حکومتیں بدلنا اس کے لیے بڑا مسئلہ نہیں رہتا۔ موجودہ سکینڈل میں ہر پاکستانی شہری تقریباً اڑھائی ہزار روپے چینی کی مد میں اضافی خرچ کرے گا جس کی مجموعی مالیت 84 ارب روپے بنتی ہے۔ عمومی طور پر حکمرانوں کا تاثر رابن ہڈ جیسا ہوتا ہے جو امیروں سے پیسہ لے کر غریبوں کو دیتے ہیں لیکن پاکستان میں حکمران غریب عوام سے پیسہ لے کر امیروں کو دیتے ہیں۔ غریب عوام امیر صنعتکاروں کو پال رہے ہیں۔ یہ معاملہ صرف چینی تک ہی محدود نہیں۔ آئی پی پیز کو بھی پاکستان کے غریب عوام پال رہے ہیں۔ ملک میں چار کروڑ سے زائد بجلی کے میٹرز ہیں‘ جو 110 آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اسے کھلی کرپشن کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسی غیر قانونی ٹرانزیکشنز کو اسمبلیوں اور کیبنٹ کے ذریعے قانونی تحفظ دیے جانے کی روایت ہے‘ جو ملکی معاشی بدحالی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں عوام کا پیسہ غریبوں کو بنیادی اشیا فراہم کرنے کے بجائے ملک کی اشرافیہ کو مزید سہولتیں فراہم کرنے پر استعمال ہوتا ہے۔ کوہستان میگا کرپشن سکینڈل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ جس میں اب تک بینک اکائونٹس سے پانچ ارب روپیہ ریکور کیا گیا‘ گاڑیاں‘ گھر اور دیگر اشیا اس کے علاہ ہیں۔ جب عوامی پیسے کا بے دریغ استعمال ہو توعوام کیوں ٹیکس دیں گے؟ عوامی سطح پر ایسے میں یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ عوامی پیسہ ملک کی بھلائی کے بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہو گا۔ اس تاثر سے ٹیکس اکٹھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر تاجروں کی ہڑتال کی بات کی جائے تو ملک میں چیمبرز اور تاجروں کی ہڑتال کوئی نئی بات نہیں۔ ہر بجٹ کے بعد اس طرح کی ایکٹویٹی کو ایک معمول سمجھا جاتا ہے لیکن ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو بے جا اختیارات دینے کے خلاف احتجاج شاید وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہڑتالیں اس وقت کامیاب سمجھی جاتی ہیں جب ان کے نتیجے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام ہو اور کچھ معاملات پر اتفاقِ رائے ہو جائے لیکن موجودہ ہڑتال کے بعد ابھی تک ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر معاملات جلد طے نہ ہوئے تو تاجروں کی جانب سے راستے اور شہر بند کرنے کے دوسرے مرحلے کا عندیہ دیا جا رہا ہے‘ جس سے ملک کو معاشی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اربوں روپے کا نقصان کروا کر مطالبات ماننا سمجھداری نہیں ہو سکتی۔ ٹیکس اکٹھا کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے لیکن جبراً ٹیکس وصول کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ حکومت ایف بی آر کے ذریعے نت نئے تجربات کر رہی ہے تاکہ ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جا سکے لیکن نئے تجربات کے بجائے پرانے تجربوں سے سیکھنا زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ناروے نے تین سال قبل ٹیکس دہندگان کو سہولتیں دیے بغیر ویلتھ ٹیکس کو 20 فیصد تک بڑھا دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاروباری طبقے نے ناروے چھوڑ کر سوئٹزرلینڈ میں کمپنیاں بنانا شروع کر دیں۔ تقریباً پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک سے نکل گئی۔ ناروے حکومت کو 150 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا اور سرمایہ کاری پانچ فیصد سے زائد گر گئی۔ 2019ء میں نائیجیریا نے کاروباری طبقوں کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس سے آمدن صرف پانچ فیصد بڑھی اور جس شعبے پر ٹیکس لگایا گیا وہ تقریباً 70فیصد گھانا منتقل ہو گیا۔ اسی طرح 2013ء میں سخت ٹیکس قوانین سے تنگ آ کر فرانس سے تقریباً 42 ہزار امیر ترین لوگ دیگر ممالک میں منتقل ہو گئے۔ جنوبی افریقہ میں بھی غیر منصفانہ ٹیکس پالیسیوں کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور 2018ء میں حکومت کو سخت پالیسیوں کی وجہ سے تقریباً50 ارب کا نقصان ہوا۔ اٹلی‘ کینیا اور یونان میں بھی غیر منصفانہ اور یکطرفہ سخت ٹیکس قوانین نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان میں جب سے ٹیکس قوانین سخت ہونا شروع ہوئے ہیں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان اقدامات سے شارٹ ٹرم میں ٹیکس اکٹھا ہو جائے لیکن لانگ ٹرم میں معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایف بی آر آفیسرز کے اختیارات پر نظر ثانی کی جائے اور بغیر اجازت اور بغیر ثبوت کے کاروباری افراد کی گرفتاری کو روکا جائے۔ بصورت دیگر سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ غیر یقینی کی اس صورتحال کے سبب ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جب سے بجٹ پیش ہوا ہے‘ ڈالر لگاتار اوپر جا رہا ہے۔ ایکسچینج کمپنیوں کو بینکوں کے برابر اختیارات دینے سے نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت بینکوں کے پاس ڈالرز کی شدید قلت ہے۔ کئی برانچز کے پاس کلائنٹس کو دینے کے لیے 1500 ڈالر بھی نہیں ہیں۔ مبینہ طور پر منی چینجرز نے ڈالر سٹاک کر لیے ہیں۔ سرمایہ کار ملک سے پیسہ باہر منتقل کرنے کے لیے منی چینجرز کا سہارا لیتے ہیں۔ اس وقت گرے مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے میں بھی دستیاب نہیں اور خدشہ ہے کہ یہ 310 روپے کی حد بھی عبور کر سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved