کسی بھی سماج میں معلم یا استادکا کردار اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ نسلِ نو کا معمار ہوتا ہے۔ اس کے طرزِ عمل کے اس کے شاگردوں پر بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام کو یہ منصب عطا کیا کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریمﷺکے اس منصب کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی بعثت کے ذریعے مومنوں کے اوپر احسان کیا اور آپﷺ کوکتاب وحکمت کی تعلیم اور تزکیہ کی ذمہ داریاں عطا فرمائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت: 164 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہی میں سے رسول بھیجا (وہ) ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے‘ اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے 23 برس تک لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دی اور ان کا تزکیہ بھی فرمایا۔ نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے ایک کامیاب معلم کی خصوصیات بڑی واضح ہو جاتی ہیں‘ جن میں چند اہم درج ذیل ہیں۔
1۔ طلبہ کے ساتھ نرمی اختیار کرنا: نبی کریمﷺ اپنے تلامذہ اور اپنے اصحاب کو بہت نرمی کے ساتھ تعلیم دیا کرتے تھے۔ آپﷺ نے ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی تو نہایت حکمت اور محبت کے ساتھ دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس بات کو واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت حکمت اور نرمی کے ساتھ دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیت: 125 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلائو‘ اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کرو‘ بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور ہدایت یافتہ کو بھی (وہ) خوب جانتا ہے‘‘۔ اسی طرح کتبِ احادیث میں بھی نرمی کی اہمیت کو بہت اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم درج ذیل ہیں۔
مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو علم سکھائو‘ آسانیاں پیدا کرو‘ مشکلات پیدا نہ کرو اور تین مرتبہ فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے سکوت اختیار کر لینا چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
2۔ سوال کرنے والے کی بات توجہ کے ساتھ سننا: جب کوئی شاگرد یا سوال کرنے والا علم سے متعلق سوال کرے تو اس کی بات کو نہایت توجہ کے ساتھ سننا چاہیے۔ اس حوالے سے سنن نسائی میں حدیث ہے کہ حضرت ابو رفاعہؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپﷺ خطاب فرما رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ایک اجنبی آدمی آیا ہے‘ دین کے بارے میں سوال کرتا ہے‘ وہ نہیں جانتا کہ دین کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہﷺ متوجہ ہوئے‘ اپنا خطبہ چھوڑا اور میرے پاس پہنچ گئے۔ آپﷺ کے پاس ایک کرسی لائی گئی۔ میرا خیال ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے۔ رسول اللہﷺ اس پر تشریف فرما ہو گئے اور مجھے وہ علم سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو سکھایا تھا۔ پھر دوبارہ خطبے کی جگہ تشریف لے گئے اور اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔
3۔ سوالات کا مدلل‘ واضح اور جامع جواب دینا: سوال کا مدلل‘ واضح اور جامع جواب دینا بھی معلم کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ سوال کرنے والوں کو بہت جامع جواب دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے دو اہم واقعات احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے کسی ایک بات پر عمل کرنے کا حکم دے دیجیے (زیادہ باتوں کا نہیں‘ تاکہ میں اسے اچھی طرح سمجھ جاؤں) نبی کریمﷺ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ اس نے کئی مرتبہ یہی سوال پوچھا اور نبی کریمﷺ نے اسے ہر بار یہی جواب دیا کہ غصہ نہ کیا کرو۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اللہ کی بندگی کرو‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘ نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے‘ فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ وہ کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی کروں گا۔ جب وہ واپس جانے لگا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایک جنتی آدمی کو دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔
4۔ طلبہ سے سوال کرنا: ایک کامیاب معلم گاہے گاہے طلبہ سے بھی مختلف موضوعات کے حوالے سے سوالات کرتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی دلچسپی اور استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ ہی اس کے بارے میں بتلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ کھجور ہے۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (حضرت عمرؓ) کو بتلائی تو وہ کہنے لگے کہ اگر تُو (اُس وقت) کہہ دیتا تو (یہ عمل) میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔
5۔ علم کی اہمیت سے آگاہ کرنا: ایک کامیاب معلم کو اپنے طلبہ کو علم کی اہمیت سے بھی آگاہ کرنا چاہیے اور اس کو یہ بات بتانی چاہیے کہ علم والے اور بے علم لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ علم کی اہمیت ہی کے حوالے سے ایک اہم حدیث صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اُس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔
6۔ کردار سازی اور شخصیت سازی: ایک معلم کی خصوصیات میں یہ بھی بات شامل ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی اچھے طریقے سے کردار وشخصیت سازی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اگر علم کے ساتھ تربیت نہ کی جائے تو انسان میں کبر اور مادہ پرستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ تربیت کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو علم سے بھی نوازتے ہیں اور عاجزی اور خوش اخلاقی بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ایک حدیث اس حوالے سے مسند احمد میں ہے‘ جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو مبعوث ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کر دوں۔ کتبِ سیرت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ انتہائی بلند اخلاق کے مالک تھے اور وہ اپنے صحابہ کرام کو بھی اچھے اخلاق کی تلقین کیاکرتے تھے۔
ایک کامیاب معلم بننے کے لیے مذکورہ بالا خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ شاگردوں اور تلامذہ کی صحیح طریقے سے رہنمائی کی جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے اساتذہ کی صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے تاکہ وہ قوم کی صحیح طریقہ سے تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دے سکیں‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved