تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-07-2025

بادشاہ ہی قاتل نکلا

بلوچستان کسی نہ کسی طرح خبروں میں رہتا ہے۔ ہر وقت وہاں سے قتل و غارت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ وہاں پنجاب کے مزدوروں کو بسوں سے اتار کر مارنا اب نیو نارمل بن چکا ہے۔ پنجاب میں بھی اب ان واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ جن ملکوں کی آبادی بے تحاشا بڑھ جائے وہاں انسانی جان کی قیمت نہیں رہتی‘ وہاں لوگوں کا مرنا اتنی بڑی خبر نہیں بنتا۔ ہم یورپ کی مثالیں دیتے ہیں یا ان پر طنز کرتے ہیں کہ وہاں بلی کتا یا کوئی بھی جانور کہیں پھنس جائے تو اس کے ریسکیو پر بھی حکومتیں اور ادارے ایسے محنت اور وسائل خرچ کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ لیکن 25کروڑ آبادی کا ملک‘ جہاں اب تک اسی‘ نوے ہزار بندے دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں‘ اب اس قوم پر ایسی خبروں کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ آبادی ہی بہت ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید خیبرپختوخوا میں آبادی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ وہاں ایک گھر میں اوسط دس سے پندرہ بچے ہوتے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ وہ اٹھارہ بہن بھائی ہیں۔ لیکن میری یہ حیرانی لیہ میں اپنے گاؤں میں ہی دور ہو گئی جب مجھے پتا چلا وہاں ایک کنبے کے‘ جہاں تین چار گھر ہیں‘ 49بچے ہیں۔ تب سے میں نے دوسروں کو اس حوالے سے آگاہی دینا چھوڑ دی ہے کہ جب میرے اپنے گاؤں کا یہ حال ہے تو کسی اور کو کیا کہیں۔ زیادہ آبادی سے جہاں وسائل پر بوجھ پڑا ہے وہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہی۔ اب ایک انسان کا مرنا کوئی بڑی خبر نہیں رہا۔ پہلے بلوچستان میں مرنے والوں کی خبریں فرنٹ پیج پر لگتی تھیں۔ بس کے مسافروں کو اتار کر مارنے کی خبر بھی سپر لیڈ لگتی تھی‘ جو دھیرے دھیرے واقعات کے تسلسل کی وجہ سے پہلے تین کالمز اور پھر بیک پیج پر چلی گئی ہے۔ اب مسافروں کے مرنے کی خبر اہم نہیں رہی۔ اب سب کو کوئی بڑی خبر‘ کوئی بڑا حادثہ درکار ہوتا ہے جو قارئین کو چونکا سکے۔ اس لیے جب جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تو پھر بڑی خبر بنی کہ بڑی تعداد میں مسافر مارے گئے۔ اب چند روز قبل بسوں میں حملے پر درجن کے قریب مسافر قتل کر دیے گئے‘ لیکن وہی گھسے پٹے حکومتی بیانات کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے‘ انہیں چھوڑیں گے نہیں وغیرہ وغیرہ۔
ان بڑی خبروں میں جب یہ خبر سامنے آئے کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے قریب ایک جوڑے کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے تو یہ اتنی بڑی خبر نہیں تھی۔ غیرت کے نام پر قتل کو اکثریت نے ہمارے ہاں جائز قرار دیا ہوا ہے۔ نواب اکبر بگٹی جیسا شخص بھی جرگے میں اس اقدام کی حمایت کرتا تھا۔ قبیلے کے سردار کیلئے بے رحم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میکاولی نے کتاب ''دی پرنس‘‘ میں شہزادے کو نصیحت کی تھی کہ رعایا کو ڈرا کر رکھنا‘ خوف لوگوں کو بغاوت سے دور رکھتا ہے۔ رعایا خوف کے ذریعے قابو میں رہتی ہے۔ اس لیے انسانی تاریخ میں وہی بادشاہ کامیاب یا لمبا عرصہ حکمران رہے جنہوں نے عوام کو خوف میں مبتلا رکھا۔ اس لیے لوگوں نے محاورے ایجاد کر لیے کہ فلاں سردار یا بادشاہ کے ظلم کا دور لمبا ہو گیا ہے۔ نیک اور رحم دل بادشاہوں کے بارے میں آپ کو شاید ہی کہیں پڑھنے کو ملے گا کہ انہوں نے تیس‘ چالیس یا پچاس سال تک حکمرانی کی ہو‘ مگر دوسری طرف ہر دوسرا ظالم بادشاہ یا حکمران دہائیوں تک حاکم رہا اور اس نے ڈنڈے اور خوف کی مدد سے حکمرانی کی۔ اس لیے سردار ہوں یا بادشاہ‘ جب تک وہ رعایا کو خوف میں مبتلا نہیں رکھیں گے اس وقت تک ان کا اقتدار پر قبضہ مشکوک رہے گا لہٰذا ہر سردار کا ظالم ہونا ضروری ہے۔ اس لیے جب یہ خبر سامنے آئی کہ بلوچستان میں جس خاتون اور مرد کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا‘ اس کا فیصلہ ایک سردار نے کیا تھا تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ سردار کا کام جان لینا ہوتا ہے جان بخشی کرنا نہیں۔ بلوچستان میں یہ بربریت نئی ہے نہ ہی آخری کہ کیسے ایک مجمعے نے کھڑے ہو کر دو انسانوں کو گولیاں کھاتے دیکھا۔ ایک بھائی نے بہن کو گولیاں ماریں۔ بہن گھبرائی نہ روئی‘ نہ ہی کوئی منت ترلا کیا۔ پیٹھ بھائی کی طرف کرکے پورے قد اور اعتماد کے ساتھ کھڑی ہورہی کہ مارو گولی ‘اور بھائی نے بڑے سکون سے سات گولیاں بہن کو مار کر مجمع سے داد پائی۔ یہ وہ عام لوگ ہیں جن سے ہم یہاں پنجاب میں بیٹھ کر ہمدردی محسوس کرتے ہیں۔ اس پورے مجمع میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا۔ اس مجمع میں شریک سبھی لوگ اس عورت کے رشتہ دار تھے۔ یہ وہ بے رحم لوگ ہیں جن کے نزدیک نہ اپنی بہن‘ بیٹی‘ بھانجی یا بھتیجی کی زندگی اہم ہے نہ ہی اس کے پانچ بچوں کی زندگیاں کہ وہ ساری عمر کس زخم کے ساتھ بڑے ہوں گے کہ ان کی ماں کیوں قتل کی گئی تھی۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان بتا رہے ہیں کہ وہ شادی شدہ تھی اور اس کے پانچ بچے تھے اور وہ ایک غیر مرد کے ساتھ چلی گئی تھی۔ یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے۔ اس موقع پر ایسا بیان دینا اس جوڑے کے قتل کا جواز پیش کرنا اور ہمارے جیسے پسماندہ معاشرے میں جرم کی نوعیت کو کم کرنا ہے۔ اگر یہی جواز ہے تو قاتل عدالت میں جا کر یہ جواز پیش کریں نہ کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی پریس کانفرنس میں بیٹھ کر یہ بتائیں۔ حکومت کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ یہ واقعہ عیدالاضحی کے قریب صوبائی دارالحکومت کے نواح میں پیش آیا اور حکومت ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ تک اس سے بے خبر رہی۔ وزیراعلیٰ کو اس واقعہ کا علم بھی سوشل میڈیا سے ہوا ‘ لہٰذا اُن کے اس جوڑے کے بارے میں کسی بھی بیان پر کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس بیان کا یہ نقصان ہوا ہے کہ عوام میں جو اس خوفناک قتل پر ردعمل آرہا تھا وہ اچانک رک گیا کہ ایک عورت کے کردار پر آپ نے سوال اٹھا دیے ہیں۔ اب لاکھ کہتے رہیں کہ اس عورت کو انصاف دلائیں گئے اور یہ ٹیسٹ کیس ہے‘ تو کوئی نہیں مانے گا۔
بلوچ عوام ٹھیک کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سردار ایک دوسرے کو پروٹیکٹ کرتے ہیں‘ اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بلوچستان کے کسی اہم سردار نے اس قتل کی مذمت نہیں کی‘ نہ وہ کریں گے کیونکہ اس طرح کے جرگے وہ خود روز کرتے ہیں اور وہاں ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں وہ لوگ دہشت کی علامت ہیں جہاں وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ ان سرداروں کی اپنی اولادیں اکثر دبئی یا کراچی جیسے جدید شہروں میں پڑھتی اور رہتی ہیں اور ہر قسمی جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن اپنے علاقوں میں بانو بی بی اور احسان جیسے کرداروں کو گولی مارنے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے قبیلے کی عزت کا سوال ہے۔ قبیلے کے سامنے انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بانو اور احسان کی قبر کشائی کی تصویریں دیکھ کر سوفوکلیز (Sophocles)کا ڈھائی ہزار سال پرانا یونانی ڈرامہ ایڈپس کنگ (Oedipus the King) یاد آیا جب ریاست تھبیز پر بلائیں نازل ہوئیں تو بادشاہ نے گھبرا کر دیوتاؤں کے پاس اپنا پیامبر بھیجا کہ ہم پر عذاب کیوں اُترا ہے؟ وہاں ڈلفی کے مقام پر برگد کے درخت کے نیچے دیوتاؤں کی ترجمان بڑھیا نے برگد کے درختوں کے ہلتے پتوں کو دیکھ کر کہا کہ اپنے بادشاہ کو جا کر کہو اس کی ریاست میں ایک مظلوم کا قتل ہوا ہے‘ اس کے قاتل کو ڈھونڈو ورنہ تمہاری رعایا اور ریاست پر عذاب آتے رہیں گے‘ اسے سزا دو گے تو عوام اور ریاست بچیں گے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ جب بادشاہ اس قاتل کو ڈھونڈنے نکلا تو قاتل کوئی اور نہیں بادشاہ خود تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved