تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     23-07-2025

زبیدہ مصطفی: ایک شخصیت‘ ایک عہد

وہ لاہور میں موسمِ سرما کی ایک رُوپہلی صبح تھی۔ سردیوں کی نرم سجل دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ایک خوبصورت دن تھا۔ یہ دن مجھے اس لیے بھی یاد رہے گا کہ اُس روز میری زندگی کے سفر میں ایک نیا موڑ آیا تھا۔ یہ جنوری 2000ء کی بات ہے‘ میں چند ماہ پہلے ہی کراچی سے لاہور منتقل ہوا تھا۔ کراچی میں میرا قیام تین برس کا تھا جب میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (IED) میں پڑھاتا تھا۔ وہ 1999ء کا آخرآخر تھا جب میں کراچی سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں موسمِ سرما کا آغاز ہو چکا تھا۔ مجھے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کی فیکلٹی کے قیام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ مجھے خیال آیا کیوں نہ تعلیم کے حوالے سے ملکی اخبارات میں ایک سنجیدہ بحث کا آغاز کیا جائے کیونکہ اخبارات کی رسائی کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر میں نے ڈان اخبار سے ای میل ایڈریس لیا اور ''پاکستان میں تعلیم‘‘ کے عنوان سے اخبار کو ایک مضمون ای میل کر دیا۔ یہ مضمون تنقیدی زاویۂ نظر (Critical Perspective) سے لکھا گیا تھا۔ جب مضمون بھیجے ہوئے دو ہفتے گزر گئے اور کوئی جواب نہ آیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ مضمون ایڈیٹر کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔ یوں لکھنے کی ایک لہر جو میرے دل میں اٹھی تھی‘ خود ہی دم توڑ گئی۔ میں اس سارے واقعے کو بھول کر زندگی کے ہنگاموں میں کھو گیا۔
اس بات کو گزرے تیسرا یا چوتھا ہفتہ تھا کہ مجھے اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا کہ تمہارا مضمون اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوا ہے۔ اس لمحے کی کیفیت کو میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن اس دن کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اسی روز شام کو مجھے ای میل کے ذریعے ایک طویل پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام زبیدہ مصطفی کی طرف سے تھا جو اُن دنوں ڈان کی ایڈیٹر تھیں۔ اس پیغام کو پچیس برس گزر چکے ہیں لیکن یہ میرے لیپ ٹاپ میں اب تک محفوظ ہے۔ یہ میری زندگی کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک ہے۔
زبیدہ مصطفی نے ای میل میں پہلے تو معذرت کی تھی کہ مضمون کی اشاعت میں تاخیر ہو گئی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ تعلیم جیسے اہم موضوع پر تنقیدی اور تجزیاتی اسلوب میں لکھنے والے زیادہ نہیں‘ میری خواہش ہو گی کہ آپ تعلیم کے موضوع پر تواتر سے لکھیں۔ مجھے زبیدہ کا طویل پیغام پڑھ کر مسرت بھری حیرت ہوئی۔ حیرت کی دو وجوہات تھیں؛ پہلی یہ کہ ایک بڑے اخبار کی ایڈیٹر نے ایک گمنام اور نووارد لکھنے والے کی حوصلہ افزائی کے لیے اتنا طویل پیغام بھیجنے کی زحمت کیسے کی۔ حیرت کی دوسری وجہ تعلیم کے حوالے وہ جذبہ (Passion) تھا جو زبیدہ کے پیغام کی ہر سطر میں لو دے رہا تھا۔ ان سب حیرتوں کے جواب مجھے ایک ایک کر کے تب ملے جب میں نے زبیدہ کی زندگی کے بارے میں جانا۔ زبیدہ نے ابتدائی تعلیم کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کی اور پھر معروف تعلیمی ادارے لندن سکول آف اکنامکس (LSE) سے اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ 1975ء کی بات ہے جب زبیدہ کی ملاقات اپنے زمانے کے معروف ایڈیٹر احمد علی سے ہوئی‘ جنہوں نے انہیں ادارتی صفحات پر لکھنے کی پیشکش کی۔ پھر زبیدہ اور اخبار ایک دوسرے کی پہچان بن گئے۔ زبیدہ نے اس عرصے میں صحافت کے میدان میں نت نئے تجربات کیے۔ تعلیم‘ صحت اور کتابوں کے حوالے سے نئے میگزین اور صفحات کا آغاز کیا۔ وہ معاشرے کے کمزور طبقوں کی آواز بن گئیں۔ انہوں نے روایتی سٹیٹس کو صحافت کے بجائے اپنے قلم کو معاشرے میں تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب تعلیم کے صفحے پر میرا پہلا مضمون شائع ہوا اور زبیدہ کے کہنے پر میں نے ایجوکیشن صفحے پر باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔
اس صفحے کے لیے لکھتے ہوئے اب کچھ عرصہ گزر گیا تھا اور مجھے ڈیڈ لائنز کے مطابق لکھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ میرے قارئین میں زیادہ لوگوں کا تعلق علمی میدان (Academia) سے تھا۔ زبیدہ کو خوشی تھی کہ میں ان کی توقعات پر پورا اترا تھا لیکن انہیں تو ہر دم کسی نئے افق کی تلاش میں رہتی۔ ایک روز مجھے زبیدہ کا فون آیا۔ رسمی حال احوال پوچھنے کے بعد وہ سنجیدہ لہجے میں بولیں ''شاہد! میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ کیوں نہ ہم آسان زبان میں مضامین کا ایک ایسا سلسلہ شروع کریں جس کے مخاطب طلبہ ہوں۔ ایسے مضامین‘ جو ان کی سٹڈی سکلز میں بہتری لائیں‘‘۔ یوں زبیدہ کے کہنے پر میں نے اخبار کے لیے تقریباً 22 مختصر مضامین پر مبنی سیریز Learning to Learn لکھی۔
اب زبیدہ پھر سے کسی نئے افق کی تلاش میں تھیں۔ ایک روز ان کا فون آیا‘ کہنے لگیں ''ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایڈیٹوریل صفحات میں اب تعلیم پر بھی کالم شائع ہو گا‘‘۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ ایڈیٹوریل صفحات پر تعلیم کے حوالے سے ریگولر کالم لکھیں۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ میں نے تواتر سے تعلیم کے موضوعات پر لکھنا شروع کر دیا۔ میرا کالم ہر دوسرے ہفتے شائع ہوتا۔ یہ کالم میں تقریباً نو سال تک لکھتا رہا۔
ادارتی صفحات پر لکھتے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز زبید کا فون آیا۔ ان کا لہجہ پُرجوش تھا۔ میں جان گیا کہ انہوں نے پھر سے کوئی نیا افق تلاش کر لیا ہے۔ میرا اندازہ درست تھا۔ کہنے لگیں ''شاہد! ہم کتابوں کے حوالے سے ایک نیا میگزین شروع کر رہے ہیں۔ آپ کو اس میں ہر ہفتے کتابوں پر ریویوز لکھنے ہوں گے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ یہ میگزین پوری آب وتاب سے نکلا اور میں نے اس کے ابتدائی عرصے میں کتابوں پر ریویوز لکھے۔ اُس اخبار کے ساتھ نو سال تک وابستہ رہنے کے بعد میں نے ایک اور انگریزی اخبارکے ادارتی صفحات پر تعلیم اور زبان پر لکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک تبدیلی یہ آئی کہ دنیا نیوزکے میاں عامر محمود صاحب کے کہنے پر اب میں روزنامہ دنیا میں ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں۔
اس عرصے میں زبیدہ سے کبھی کبھار فون پر بات ہوتی یا کسی کانفرنس میں ملاقات ہو جاتی۔ پھر ایک روز انہوں نے بتایا کہ وہ اخبار سے ریٹائر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اخبار کے ساتھ اپنی زندگی کے 34 برس گزارے تھے۔ ان کے سیاہ بالوں میں اب چاندنی اتر آئی تھی۔ اس چاندنی کی اپنی خوبصورتی‘ اپنی گریس تھی۔ ان کی آنکھوں کی بینائی رفتہ رفتہ مدھم پڑتی جا رہی تھی لیکن ان کے اندر ایک بیقرار روح تھی۔ ریٹائر ہو کر بھی وہ چین سے نہیں بیٹھیں۔ اپنی زندگی پر مبنی یادداشتیں لکھنا شروع کر دیں جو بعد میں کتابی شکل میں My Dawn Days کی صورت میں سامنے آئیں۔ تعلیم کے حوالے سے ان کی کتاب Tyranny of Language ایک اہم تصنیف ہے۔ وہ اپنی صحت کی خرابی کے باوجود آخر دم تک لکھتی رہیں۔
پچھلے دنوں مجھے سعودی عرب کے شہر ریاض جانا پڑا۔ اُس روز میں ریاض کی ایک کافی شاپ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب خبر ملی کہ میری مینٹور اور میری محسن زبیدہ مصطفی ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ میں نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں اور مجھے لاہو کی وہ رُوپہلی صبح یاد آ گئی جب زبیدہ سے میرا پہلا تعارف ہوا تھا۔ کیسی دلربا صبح تھی وہ۔ سردیوں کی نرم سجل دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے یوں لگا زبیدہ کی رفاقت میں گزارے 25 برس بھی سردیوں کی نرم اجلی دھوپ کی طرح تھے‘ بہت قیمتی لیکن بہت مختصر! پتا ہی نہیں چلا اور دن تمام ہو گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved