تحریر : محمد حسن رضا تاریخ اشاعت     23-07-2025

غیرت کا خون‘ ریاست کا سناٹا اور ضمیر کا جنازہ!

پاکستان میں جب کبھی غیرت کے نام پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے‘ ایک لمحے کے لیے دل دہلتا ہے‘ سوشل میڈیا پر غم و غصہ ابھرتا ہے‘ اخبارات شہ سرخیوں سے بھر جاتے ہیں‘ پھر سب کچھ ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ملک عزیز میں غیرت کے نام پر قتل کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2022ء میں 590‘ 2023ء میں 490 اور 2024ء میں کم از کم 346 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثر خواتین تھیں‘ جبکہ 2024ء میں 185 مرد بھی مارے گئے۔ 2012ء میں کوہستان کا واقعہ‘ ونی؍ سوارہ جیسے ظالمانہ رسمیں یہ سب سرداری طاقت اور قبائلی نظام کی قبیح صورتیں ہیں۔ عدالتِ عالیہ نے 2019ء میں جرگے کے فیصلہ جات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا مگر زمینی سطح پر وہ فیصلے زندہ ہیں۔ بلوچستان پر اس غیرت اور قبائلی طاقت کے حوالے سے نظر ڈالیں تو ہمیں سردار‘ جرگے‘ پنچایتیں اور طاقتور قبائلی تانے بانے ملتے ہیں جو آئینی ریاست کے مد مقابل ہیں۔ یہاں جرگے فیصلے کرتے‘ متوازی عدالتیں قائم کرتے اور اپنے قانون خود نافذ کرتے ہیں۔ عدالت اور ریاست اس سارے عمل میں بے بس نظر آتی ہے۔ لیکن بلوچستان میں اس سال عید الاضحی سے قبل پیش آنے والا یہ واقعہ محض ایک عورت اور ایک مرد کا قتل نہیں‘ یہ پورے سماجی‘ ریاستی اور عدالتی نظام کی عملداری کیلئے کھلا چیلنج ہے۔ یہ واقعہ محض ایک لمحاتی جذباتی ردعمل کا متقاضی نہیں بلکہ قومی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان کے ضلع لورالائی کے قریب ایک قصبے دُھکی میں رہنے والے میاں بیوی کو بلایا گیا اور پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی جڑیں ''غیرت‘‘ کے نام پر قبائلی جرگوں اور پنچایتوں کے غیر آئینی فیصلوں اور ریاست کی مسلسل خاموشی میں ہیں۔ خبروں کے مطابق مقتولہ ایک شادی شدہ عورت تھی‘ جس کے شوہر سے تعلقات خراب ہو چکے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ اس کا سابق شوہر طلاق دے چکا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنی مرضی سے ایک اور مرد سے نکاح کر لیا اور دونوں نے دھکی کے علاقے میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ کچھ عرصہ بعد عورت کے باپ‘ بھائیوں اور رشتہ داروں نے اسے بلایا کہ ہم آپ کو شادی کی مبارک دینا چاہتے ہیں ۔ اسے دھوکے سے بلا کر گاؤں لے جایا گیا اور عید الاضحی کے موقع پر قبیلے کے جرگے میں پیش کیا گیا۔ وہاں پہلے ہی فیصلہ ہو چکا تھا‘ اس کے نکاح کو ناجائز اور قبیلے کی توہین قرار دیا گیا۔ پھر سرعام عورت اور اُس کا شوہر ‘ دونوں مار دیے گئے۔ واقعے کی وڈیو وائرل نہ ہوتی تو کسی کو اس ظلم کی بھنک تک نہ پڑتی۔ اس واقعے کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر اتنی ہلکی تھی کہ سردار اور جرگے کے ذمہ داران ضمانت پر رہائی کے قریب ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان پریس کانفرنس‘ چینلز پر آ کرکہہ رہے تھے کہ ''سپیشل برانچ نے رپورٹ نہیں دی‘‘ گویا ریاست ایک ادارے کی رپورٹ کے بغیر حالات سے مکمل لاعلم ہے۔ یہ صرف لاپروائی نہیں بلکہ ایک مجرمانہ غفلت ہے۔
بلوچستان میں سردار ریاست کے اندر ریاست کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ طاقتور ہیں اور خود کو ریاستی قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ نجی جیلیں بنواتے ہیں‘ خواتین کو اٹھاتے ہیں‘ خصوصی جرگے کے بعد قتل کراتے ہیں‘ پھر تحفظ چاہتے ہیں اور طاقت پکڑتے ہیں۔ یہ سارا ڈھونگ قابلِ افسوس ہے۔ عید کے موقع پر‘ جب سکیورٹی ادارے چوکس ہوتے ہیں‘ ایسے معصوم لوگوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ نہ پولیس کچھ سنتی ہے‘ نہ انتظامیہ کچھ کرتی ہے اور نہ میڈیا خبر دیتا ہے۔ یہی سوچ پاکستان کے قبائلی سماج کو کھوکھلا کر رہی ہے کہ عورت کو انسان نہیں‘ جائیداد سمجھا جائے۔ اُس کی مرضی‘ اُس کی پسند‘ اُس کی زندگی قبیلے کے ''اجتماعی وقار‘‘ کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔ واقعے کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ کسی سنگین جرم کا نہیں‘ معمولی تنازع کا ذکر ہو۔ اس میں سرداروں اور جرگے کے اہم افراد کے نام یا تو شامل ہی نہیں کیے گئے یا قانونی کمزوریوں کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں تاکہ ضمانت آسانی سے مل جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ریاست کی نااہلی ایک سوال نہیں‘ الزام بن جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا سپیشل برانچ پر سارا ملبہ گرا دینا کہ ہمیں بروقت رپورٹ نہ دی گئی اسی لیے کارروائی نہ ہو سکی‘ تعجب کا باعث ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ کیا پولیس‘ مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی ایجنسیاں بے خبر ہیں؟
حکومتی دعوے اس وقت مزید کھوکھلے لگتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ عید جیسے بڑے تہوار کے موقع پر ہوا‘ جب پولیس اور انتظامیہ کی زیادہ موجودگی ہوتی ہے۔ پھر بھی اس گھناؤنے وقوعے کا حکومت نے ہفتوں تک نوٹس نہیں لیا۔ بلوچستان میں سرداری نظام ایک ایسا غیر تحریری آئین چلا رہا ہے جو آئینِ پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ جرگے آج بھی عورت کے نکاح‘ زندگی‘ موت اور آزادی کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان فیصلوں کی بنیاد دین یا قانون نہیں بلکہ غیرت‘ انتقام اور قبیلے کی اَنا ہوتی ہے۔
ابھی تو یہ بھی اطلاع ہے کہ خضدار میں ایک سردار پر الزام لگ رہا ہے کہ کسی غریب کی بیوی کو اٹھا لیا اورکہا کہ اگر کیس کیا تو ہم چھوڑیں گے نہیں‘ ان غریبوں کی بھیڑ بکریاں بھی سب لے گیا۔ شوہر نے کوشش کی اور آواز اٹھائی تو چند روز بعد اس کو بھی اٹھا لیا۔ کیا ایسے نظام چلتے ہیں؟ اب وزیراعلیٰ بلوچستان کو اس کی بھی رپورٹ سپیشل برانچ نے دینی ہے؟ سردار پہلے غریبوں کو غلام بناتے ہیں پھر ظلم کرتے ہیں اور جب وہ ان ظلم کے نظام سے بھاگنے کی کوشش کریں یا پڑھنے لکھنے لگیں تو ان پر مزید ظلم ڈھائے جاتے ہیں‘ پھر کہتے ہیں کہ پیسے دو‘ جس کیلئے کہا جاتا ہے کہ ''چارکی لائو‘‘۔ سرداروں کے فیصلے میں کچھ ان کا حصہ ہوتا ہے جس کو چارکی کہتے ہیں۔ اگر کوئی غریب آواز اٹھائے تو نجی جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے اور پھر چارکی کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ ان نجی جیلوں میں زیادہ تر عورتیں بند ہونے کی اطلاعات ہیں‘ تو کیا ان پر چھاپہ مارنے کی کسی میں ہمت نہیں؟ ملک کے آئین کا آرٹیکل 4 اور آرٹیکل 25 عورت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن کیا ان دفعات کی عملداری بلوچستان کے کسی سردار پر ہوتی ہے؟ کیا وہاں عدالت‘ قانون‘ یا آئینی حقوق کی کوئی اہمیت ہے؟ ان سرداروں اور قبائلی جرگوں نے کئی دہائیوں سے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے۔ وہ فیصلے کرتے ہیں‘ قتل کے حکم صادر کرتے ہیں‘ اور پولیس‘ انتظامیہ‘ حتیٰ کہ عدلیہ کو بھی منہ بند رکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اس واقعے میں ریاست‘ سردار‘ پولیس‘ میڈیا سب ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم سب شریکِ جرم ہیں۔ جب کسی کا بے گناہ خون زمین پر گرتا ہے اور ہم صرف موبائل اٹھا کر وڈیو بناتے ہیں تو ہم بھی قاتلوں کے برابر ہو جاتے ہیں۔ اس واقعے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ مقتولہ کے پانچ بچے ہیں۔ پانچ یتیم وجود‘ جو کل بڑے ہوں گے‘ سوال کریں گے‘ اور ہو سکتا ہے وہ اپنے سوال کا جواب بندوق سے لینا چاہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کب تک؟ کس دن ریاست جاگے گی؟ کس دن ان سرداروں‘ نوابوں اور جرگوں کو بتایا جائے گا کہ یہ ملک آئین سے چلتا ہے‘ بندوق اور اَنا سے نہیں؟ اگر ہم واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں چاہیے کہ جرگہ اور پنچایت کے غیر آئینی‘ غیر قانونی نظام پر فوری پابندی لگائی جائے۔ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات ہوں‘ ایف آئی آر میں ترمیم کی جائے اور اصل ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ریاستی اداروں کو قبائلی دائرہ اختیار سے آزاد کیا جائے۔ متوازی عدالتی نظام کو آئینی وقانونی سطح پر جرم قرار دیا جائے۔ خواتین کو قانونی معاونت اور تحفظ کے لیے فوری فنڈز فراہم کیے جائیں اور اس کے لیے مراکز اور نظام قائم کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved