ہمارے ملک کو بیک وقت کئی آفتوں کا سامنا ہے۔ کئی مسائل ہیں جو ہمارے سامنے ایک اژدھے کی مانند بڑا سا منہ کھولے ہمیں سالم نگل جانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ کئی مشکلات ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چل رہا‘ اور جن پر قابو پانے کی ہماری تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں یا ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ یہ زندگی کا ایک لازمہ ہے کہ حالات جب کٹھن ہوں تو طرزِ عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آندھی یا طوفان آ جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے وقتی طور پر کوئی آڑ لے لینا بھی بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ آج کے دور کی سب سے بڑی آفت (آپ اسے قدرتی کہیں یا انسانوں کی پیدا کردہ) موسمیاتی تبدیلیاں ہیں‘ جس کے اثرات اب روزانہ ظاہر ہو رہے ہیں لیکن ہم نہ تو ان تبدیلیوں کے سد باب کے لیے کوئی جامع اور ٹھوس کوشش کر پا رہے ہیں اور نہ ہی ان تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے طرزِ عمل ہی میں کوئی گنجائش پیدا کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں منگل کے روز شدید مون سون بارشوں کے باعث مزید 11 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 26 جون سے اب تک یعنی کم و بیش ایک ماہ میں ملک بھر میں بارشوں اور سیلابوں سے منسلک حادثات کے نتیجے میں اموات کی تعداد 245تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ روز کی شدید بارشوں نے کے پی اور گلگت بلتستان کے کئی اضلاع میں اچانک سیلابی صورت حال پیدا کر دی جس کی وجہ سے گھروں کو نقصان پہنچا اور دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہو گئی۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے این ڈی ایم اے کو ہدایت دی کہ وہ متاثرہ افراد کے فوری ریلیف کے لیے صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطہ کریں۔ اس ادارے کی جانب سے ریلیف کا کام ہوا بھی‘ لیکن پھر بھی کچھ لوگ حادثات کا شکار ہو گئے۔ اس کی وجہ احتیاطی تدابیر کا اختیار نہ کرنا ہے۔ ملک میں ایسی صورتحال پہلی دفعہ پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم مسلسل موسمیاتی تبدیلیوں کا بھگتان بھگت رہے ہیں۔ 2010ء اور 2022ء کے سیلابوں کو اگر فی الوقت چھوڑ بھی دیا جائے تو اسی موسم یعنی حالیہ پری مون سون اور اب مون سون کی بارشوں میں کئی بار پہاڑی علاقوں میں طغیانیاں آئیں‘ سیلاب آئے اور شہروں میں لوکل اربن فلڈنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہر بارش کے بعد ہماری انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اب معاملات کو سنبھال لیا جائے گا‘ آئندہ اتنی زیادہ تباہی نہیں مچنے دی جائے گی‘ لیکن اگلی ہی بارش اس کے ان کھوکھلے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہے۔
ایسے حالات میں جو جانی نقصان ہوتا ہے اس میں خاصا قصور عوام کا بھی ہے۔ سوات کا سانحہ ہمارے سامنے پیش آیا۔ اسی طرح کے اور واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں‘ جن میں پکنک منانے والے دریا کے تیز بہاؤ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ملک کے شہری برسات کے اس تند و تیز موسم اور این ڈی ایم اے کی جانب سے الرٹس جاری ہونے کے باوجود خاندانوں سمیت شمالی علاقہ جات کی سیاحت کو نکل جاتے ہیں اور کسی طرح کے حفاظتی انتظامات کیے بغیر تند بہاؤ والے دریاؤں سے اس طرح لطف اندوز ہونا شروع ہو جاتے ہیں جیسے وہ کوئی نارمل دریا ہوں یا ان میں پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہو۔ سوات کا سانحہ پیش آیا تو یہ خبریں سننے میں آئیں کہ دریائے سوات کے کناروں پر بنے ہوٹلوں کے خلاف آپریشن کلین اَپ شروع کر دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا معاملہ صرف کسی ایک دریا کے کسی ایک کنارے پر بنے ہوئے ہوٹلوں کا ہے؟ یہاں تو پورے ملک میں ایک جیسا معاملہ ہے‘ ایک جیسا حساب ہے۔ ان ہوٹلوں کے مالکان سے کبھی کسی نے پوچھا کہ سیاحت کے لیے آنے والے اور ان کے ہاں عارضی طور پر ٹھہرنے والے لوگوں کی حفاظت کے لیے ان کے پاس کیا انتظامات ہیں؟ کیا دریا کے وسط میں کسی ٹاپو پر پکنک منانے والوں کو کبھی کوئی لائف سیونگ جیکٹ فراہم کی گئی؟ یا یہ بتایا گیا کہ اگر دریا کا بہاؤ تیز ہو جائے تو انہوں نے کیا کرنا ہے؟ کیسے اپنی جان بچانی ہے؟ لیکن یہ سارے معاملات تو اچھی انتظامیہ کے ہوتے ہیں۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کی نظر میں ہے اور اس پر زیادہ نہ ہی بولا جائے تو بہتر ہے۔
یہ تو ہماری لوکل انتظامیہ کا حال ہے۔ اس سے اوپر ایک بڑی انتظامیہ بھی ہے اور وہ انتظامیہ ہے دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک جن کی وجہ سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان کے اثرات کی وجہ سے کئی ممالک تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں۔ لیکن جس طرح مقامی انتظامیہ کو عوام کا کچھ خیال نہیں ہے اسی طرح عالمی انتظامیہ کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے بہاؤ میں بہنے والے ملکوں اور قوموں کی اذیتوں کا کوئی خیال‘ کوئی ملال نظر نہیں آتا۔ کون نہیں جانتا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار کون سے ممالک ہیں؟ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ممالک وہ ہیں جنہوں نے زمین کی فضا (Atmosphere) میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کی ہیں۔ خاص طور پر صنعتی ممالک جو طویل عرصے سے پٹرولیم ایندھن استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک اس میں پیش پیش ہیں۔ وہ جو لگژری زندگی گزارتے ہیں‘ وہ جو جہازوں میں سفر کرتے ہیں اور وہ جو پوری دنیا میں صنعتوں کا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں لیکن اس آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ماحولیات کے حوالے سے پیرس معاہدہ 2015ء میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دنیا کے تمام 193ممالک نے عالمی حدت میں اضافے کو تباہ کن حد تک پہنچنے سے روکنے کے لیے 1.5 ڈگری کے ہدف پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے پر کتنا اتفاق ہوا؟ حالات یہ رہے کہ امریکہ نے 22اپریل 2016ء کو اس معاہدے پر دستخط کیے تھے؛ لیکن اس کے صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی حکومت کے دوران چار نومبر 2020ء کو اس معاہدے سے دست برداری اختیار کر لی تھی۔ ان کے بعد آنے والے صدر جو بائیڈن نے 19 فروری 2021ء کو امریکہ کے دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہونے کا اعلان کیا لیکن اب صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت میں ایک مرتبہ پھر اس معاہدے کو ترک کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ اس معاہدے سے اپنی وابستگی کی توثیق اور عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد تک رکھنے کے لیے کی جانے والی تمام موثر کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے باوجود عالمی برادری اس معاہدے میں طے کیے گئے اہداف کی جانب پیشرفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے ممالک اپنی ذمہ داری کب سمجھیں گے؟ میرے خیال میں حالات تبھی ٹھیک ہوں گے جب آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار اس آلودگی کو ختم کرنے کی اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved