مجھے اکثر لوگ ملتے ہیں‘ بعض مسکرا کر ایک بات ضرور کہتے ہیں کہ آپ عمران خان پر ہاتھ ہولا رکھا کریں۔ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی ساری باتوں سے اتفاق ہے یا جو آپ کی خان کے بارے میں رائے ہے‘ وہ ٹھیک ہے لیکن بس آپ اُن پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ وہ کانوں کے کچے ہیں‘ ہر ایک کی باتوں میں آجاتے ہیں‘ لیکن دل کے بہت اچھے ہیں۔ اس پر مجھے بھارتی فلم ''ویلکم‘‘ کا ایک سین یاد آجاتا ہے کہ اُدھے بھائی نے ایک دن غصے میں ہاکی سے میری ٹانگ توڑی دی لیکن وہ دل کے بہت اچھے ہیں۔ میری ٹانگ توڑنے کے بعد مجھے خود ہسپتال لے گئے اور پھر مجھے لنگڑاتے دیکھ کر چلنے کیلئے سٹِک بھی خرید کر دی۔
میرا تجربہ کہتا ہے کہ عمران خان کے اکثر حامی مانتے ہیں کہ ان میں بہت سی خامیاں ہیں اور وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں لیکن وہ دل کے بہت اچھے ہیں‘ ایماندار ہیں۔ میں اکثر مسکرا دیتا ہوں کہ اگر کسی کی‘ کسی دوسرے کے بارے اچھی رائے ہے تو اسے قائم رہنے دیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بڑی قریب سے دیکھا اور خواہش ہی رہی کہ کوئی اپنے سیاسی یا مالی کردار سے مجھے متاثر کر سکے اور کم از کم میں بھی اس جیسا بننے کی خواہش رکھوں۔ ان برسوں میں اگر مجھے کوئی ایسا سیاسی بندہ ملا‘ جس نے مجھے متاثر کیا تو وہ وہاڑی سے تعلق رکھنے والے اسحاق خان خاکوانی ہیں۔ ایک سمجھدار‘ ہنس مکھ‘ مالی طور پر کلین اور غلط بات پر وزیراعظم تک کو کابینہ اجلاس میں سنا دینے والے۔کبھی لگی لپٹی نہ رکھی۔ کوئی تھانہ کچہری‘ ظلم و ستم‘ کرپشن‘ فراڈ‘ علاقے میں تمن داری یا زیادتی‘ کچھ بھی نہیں۔ وزیر بنے تو انہیں سیکریٹ فنڈ ملتا تھا جس سے انہوں نے دیگر وزیروں کی طرح گھر کے ملازموں کے نام پر ایشو کرانے کے بجائے علاقے میں فری آئی کیمپس لگوا دیے یا اس رقم سے اجتماعی کام کرائے۔ ہمارے ہاں ایسے بندے کو کب ووٹ پڑتا ہے جو ذاتی سے زیادہ اجتماعی کام کرائے۔ ان کی گواہی امریکہ میں بھی ایک صاحب نے دی کہ خاکوانی صاحب ایک کمال انسان ہیں۔ اس کا تعلق بھی وہاڑی سے تھا۔ باقی سب کو کسی نہ کسی واردات میں مصروف ہی پایا۔ خیر بات ہورہی تھی عمران خان کے حامیوں کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خان کی سب خامیاں مان کر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں خان ہی بطور وزیراعظم چاہیے۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ اگر عمران خان واپس آجائیں تو یہی سب کچھ عرصے بعد میرے ساتھ لڑ رہے ہوں گے کہ آپ نے خان پر ہاتھ ہولا کیوں رکھا ہوا ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا کے کمالات ہیں جس کی وجہ سے خان صاحب کی عظمت کے وہ گن گائے گئے کہ جن کا خود خان کو بھی علم نہ تھا۔ جیسے عثمان بزدار کو علم نہ تھا کہ اُن کی اُن خوبیوں کا عمران خان کو کیسے علم ہو گیا تھا جن کا خود انہیں بھی کوئی علم نہ تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ آصف علی زرداری اور شریف برادران سے تنگ تھے‘ اُنہیں ان شخصیات کی اقتدار میں واپسی ہضم نہیں ہوئی۔ عمران خان کی مقبولیت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ ایک قابل‘ سمجھدار یا ذہین وزیراعظم تھے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو خان کے مخالفین زیادہ برے لگتے ہیں۔ نواز شریف کو بھی شروع میں بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے مقابلے پروموٹ کیا گیا۔ اب کہا جاتا ہے کہ عمران خان ان سب سے اچھے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ عمران خان بھی نواز شریف والی پوزیشن پر آ جائیں گے‘ اگرچہ مقتدرہ کے نزدیک وہ نواز شریف سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ خان ابھی صرف ایک دفعہ وزیراعظم بنے ہیں اور اتنے سارے ''کارنامے‘‘ ان کے کریڈٹ پر ہیں جبکہ نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں‘ لہٰذا لوگ عمران خان کو اُن سے بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بس وقت اور تجربے کا کھیل ہے۔ میرا اُن لوگوں سے اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا عمران خان میری وجہ سے جیل گئے ہیں اور کیا میں ان کی حمایت کرنا شروع کر دوں تو وہ باہر نکل آئیں گے؟ وہ یہ بات بھی مانتے ہیں کہ نہ وہ میری وجہ سے جیل بیٹھے ہیں اور نہ ہی میری باتیں انہیں باہر نکال سکتی ہیں۔ چند ایک (زیادہ نہیں) تو یہ بات بھی مانتے ہیں کہ میری باتوں کو اگر پی ٹی آئی یا عمران خان ٹھنڈے دل سے سنیں تو انہیں ادراک ہو گا کہ میں ان کی بھلائی کی باتیں ہی کرتا ہوں۔ لیکن مجھ سے زیادہ صرف اُن وی لاگرز اور صحافیوں کی باتیں عمران خان اور ان کے حامیوں کو سمجھ آتی ہیں جو کہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں بہت بڑی گیم ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ اور وہ وی لاگرز ایسی باتوں سے لاکھوں ویوز لیتے ہیں۔
میں عمران خان سے اُسی روز مایوس ہو گیا تھا جس روز انہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد اسلام آباد ایئر پورٹ سے علیم خان کے جہاز پر عمرہ کیلئے جاتے وقت زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکلوایا تھا۔ ایئر پورٹ سے ہی وزارتِ داخلہ کو کہا گیا کہ زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکالو اور اس سلسلے میں فوراًوزارت میں اجلاس ہوئے‘ پھر آدھے گھنٹے کے نوٹس پر سمری تیار ہوئی‘ ممبران اکٹھے ہوئے اور ایئرپورٹ پر نوٹیفکیشن بھیجا گیا۔ جو عمل دو ہفتوں کا تھا وہ عمران خان نے ایئر پورٹ سے ایک فون پر چند گھنٹوں میں کرا لیا تھا۔ دوسرا واقعہ جس نے مجھے خان سے بددل کیا تھا وہ ان کی بطور وزیراعظم صحافیوں اور اینکرز سے پہلی ملاقات تھی۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں وہ مسلسل پاکپتن کے خاور مانیکا کا دل و جان سے دفاع اور پاکپتن پولیس کی مذمت کرتے رہے کہ ان کی جرأت کیسے ہوئی کہ انہوں نے خاور مانیکا اور ان کے مسلح گارڈز کو رات گئے ایک ناکے پر روکا‘ جس پر بعد میں آر پی او شارق کمال اور ڈی پی او رضوان گوندل کی وزیراعلیٰ ہاوس میں احسن جمیل گجر نے انکوائری کی تھی اور ان دونوں افسران پر خوب پریشر ڈالا گیا کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ اُس ڈی پی او کو تین سال تک پوسٹنگ تک نہ دی گئی کہ اس نے خاور مانیکا کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اسی طرح عمران خان اس قوم اور اس کی سیاسی دانش کے ساتھ بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ عثمان بزدار کے حوالے کرنے سے بڑا مذاق اور کیا کر سکتے تھے۔ چہیتے افراد کا گینگ جس طرح پنجاب میں لٹ مچا رہا تھا اس پر عمران خان کا دفاع بھی حیران کن تھا۔ پہلی دفعہ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر عہدے کی سرعام بولی لگ رہی تھی‘ قیمتی تحائف دھڑا دھڑ گھر میں اکٹھے ہو رہے تھے‘ اور قیمتی گھڑیاں دبئی میں بیچی جا رہی تھیں۔ چھ چھ‘ سات سات آئی جی اور چیف سیکرٹری تبدیل ہوئے۔ اس پر اکثر مجھے خان کے حامی کہتے ہیں کہ یہ کام تو زرداری اور شریف بھی کرتے تھے‘ خان نے کون سا نیا کام کر لیا یا پھر یہ کہ انہوں نے قانون کے تحت ہی تحائف لیے اور دبئی میں بیچے۔ اس میں غلط کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ غلط یہ ہے کہ خان نے تو شریفوں اور زرداریوں کی ان غیر قانونی وارداتوں کا سلسلہ ختم کرنا تھا‘ نہ کہ خود ہی کروڑوں کے تحائف سے اپنے گھر بھرنے تھے۔ یہ تو ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ والا حساب ہوا۔ اگر عمران خان نے خود شریفوں اور زرداریوں جیسے کام کرنے تھے تو اُن دونوں میں کیا برائی تھی۔ باقی گوتم بدھ والی بات کہ انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی خواہشات ہیں۔ جتنی بڑی خواہشات ہوں گی‘ انسان کی زندگی اتنی ہی زیادہ مشکل ہو گی۔
خان صاحب کو ان کی خواہشات ہی جیل تک لے گئی ہیں جیسے ہر اُس انسان کو لے کر جاتی ہیں جو دوسروں پر حاکم بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ اگر کسی کو عمران خان پر ہاتھ ہولا رکھنے کی ضرورت ہے تو وہ کوئی اور نہیں‘ خود خان صاحب ہیں۔ میری کیا اوقات! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved