تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     25-07-2025

درخت کو انصاف

انصاف‘ انصاف ہی ہوتا ہے۔ جہاں اور جس کو ملے‘ خبر دل کو چھوئے بغیر نہیں گزرتی۔ آنکھیں اور دماغ کھولیں تو پوری کائنات انصاف کے اصولوں پر قائم ہے۔ ہر سیارہ اپنے مدار میں ازل سے ابد تک‘ رات اور دن‘ سورج اور چاند کا طلوع وغروب‘ انصاف پر قائم ہے۔ انصاف وہ نظام ہے جو سب کو اپنے دائرے میں رکھتا ہے۔ اور اگر یہ قائم رہے‘ کوئی مداخلت نہ ہو‘ کوئی ظلم کی کلہاڑی نہ چلائے تو جنگلات قدرتی ہوں یا انسان کے اگائے ہوئے‘ اپنی کائنات بسا لیتے ہیں۔ مربوط جنگلی حیات کے باہمی انحصار کی ایک دنیا قائم رہتی ہے۔ انسانی معاشروں میں بھی دورِ جدید میں وہ آگے بڑھے اور بڑھ رہے ہیں جو انصاف کے فطری تقاضوں کے مطابق چلتے ہیں۔ حقوق وفرائض‘ ذمہ داریاں اور مراعات‘ امن وسلامتی اور خوشحالی‘ پُرسکون اور مطمئن زندگی کا تہذیبی تصور انصاف ہی سے جڑا ہوا ہے۔ جہاں انصاف برباد ہوتا ہے‘ وہاں سے سکون اور سلامتی راتوں رات اپنا بوریا بستر سمیٹ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ درخت کو انصاف کی بات ایسے معاشرے میں کر رہے ہیں جہاں انسانوں کو انصاف نہیں ملتا‘ بلکہ ہر طرف ہم ظلم کی نت نئی داستانیں پھیلتی دیکھ رہے ہیں۔ ایسی کہ دل دہل جاتے ہیں اور جی چاہے یہ سب کچھ چھوڑ کر کسی تاریک غار میں پناہ لے لیں‘ نہ ہم کسی کو دیکھیں اور نہ کوئی ہمیں جانے‘ آخرت ہی آ جائے۔ دنیا ایک آئینہ بھی تو ہے‘ جس میں ہم اپنا چہرہ کچھ زیادہ کھلے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا محدود تجربہ‘ مشاہدہ اور کسبِ حیات سمجھیں یہ ہے کہ آپ اگر فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو آپ زندگی کی چاشنی تو دور کی بات ہے‘ اس کے رنگوں کی پہچان سے بنیادی واقفیت کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔
یہ لمبی بحث ہے کہ یہ زندگی فطرت کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہوتی ہے‘ مگر اس کے لیے ذرا ذہن اور روح کی کھڑکیاں کھولیں‘ نسیمِ سحر‘ پھولوں کے رنگوں‘ بارش کی بوندوں کی تیکھی آواز‘ موتیے اور دیگر جھاڑیوں سے نکلتی خوشبو کے فوارے آپ کو اپنی قربت کا احساس دلائیں گے۔ اگر وہ حس ہی مٹ چکی اور اس کی جگہ بدبودار مادّیت پرستی نے لے لی‘ تو دنیا کے عظیم ترین جنگلات اور باغات کے درمیان چلتے بھی آپ فطرت سے اجنبی رہیں گے۔ اور اگر کسی ملک اور معاشرے میں انصاف انسانوں کے ساتھ نہ ہو سکے تو پھر یہ جانوروں اور درختوں کے ساتھ کیسے ممکن ہوگا؟ بہتر تو یہ ہے کہ ہم درختوں کے ساتھ انصاف ہوتا دیکھیں‘ جیسا کہ برطانیہ کے سیقامور درخت کو انصاف ملا ہے‘ اور جس کے اعتراف اور خوشی میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ پھر اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ بھی کچھ ایسے اصول کی شاہراہ پر فراٹے بھر رہا ہے۔ گزشتہ مضمون صرف لاہور‘ اپنے پیارے لاہور میں ہزاروں درختوں کے قتلِ عام‘ اور وہ بھی سرکار کے ہاتھوں اور مزید کی گردن کاٹنے کی تیاری کے خلاف انتباہ اور احتجاج کے طور پر آپ کی نذر کیا تھا۔ یہاں تو کسی ٹمبر مارکیٹ میں جانا ہو تو بڑے بڑے گوداموں میں ہمارے اپنے ہی ملک کے کسی حصے اور افغانستان سے صدیوں پرانے درختوں کے تنوں کے ہر طرف انبار نظر آتے ہیں۔ اربوں کی دولت‘ امیر تاجروں اور اہلِ ثروت کے ہاتھ‘ مگر کھربوں روپے کا خسارہ اور پہاڑی زمین کی صدیوں کی مشقت کا زیاں‘ آج بھی کہیں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یورپ اور امریکہ اور دیگر ملکوں میں درختوں کو گھر بنانے کے لیے کاٹا جاتا ہے‘ مگر ایسے جنگل اسی مقصد کے لیے تجارتی بنیادوں پر الگ سے اُگائے جاتے ہیں۔ قدرتی جنگلات‘ قومی پارکوں‘ جو امریکہ میں تو لاکھوں مربع میلوں پر پھیلے ہوئے ہیں‘ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ نہ جانے کتنے ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا‘ مگر سوائے ایک ملک کے‘ جہاں غیر متوقع طور پر نظربند رہا‘ پارکوں اور باغوں میں کچھ دن گزارے بغیر واپس نہ لوٹا۔ وہ کہانی بھی بشرطِ زندگی آپ کی نذر ضرور کروں گا۔ ہر جگہ‘ بشمول اپنے ہمسایہ ممالک‘ شہری آبادیاں اپنے پارکوں کا خیال رکھتی ہیں۔ جاپان میں تو میری عمر کے لوگ روزانہ رضاکارانہ طور پر شہری پارکوں میں مالیوں کا کام کرتے ہیں۔
برطانیہ کا سیقامور درخت‘ جو ہر خاص وعام کیلئے محبت کی علامت‘ نشانِ راہ اور بندھنوں کے عہد وپیمان کی یادگار تھا‘ دو ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوا تو پوری دنیا میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اپنے حالات اور یہاں کی صورت حال کا ہم کیا ذکر کریں کہ یہاں سب کچھ جائز ہے۔ ہم بھی اس کے گرنے پر آج تک افسردہ ہیں کہ اپنوں کے تو زخم اتنے گہرے ہیں کہ بات کرنے کی سکت ہی نہیں۔ سیقامور دو سو پچیس سال کی عمر میں‘ میلوں دور تک اپنی شان سے‘ دو پہاڑیوں کے سمندری لہروں کے ابھار کی مانند بالکل نچلی سطح پر جوان ہوا۔ یہ کسی پرندے کے طفیل زمین کے سینے سے نمودار ہوا تھا۔ اس خطے کا ماحول اور وسیع تر منظرنامہ ایسا ہے کہ سوائے سیقامور کے کوئی اور درخت اس قامت اور شان وشوکت کا نظر نہ آتا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی اور درخت ایسا نہ تھا جس کی اتنی تصویریں لی گئی ہوں۔ آج میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کے کٹنے کے بعد جو کہانیاں لکھی گئیں‘ تصویریں‘ خبرنامے چلائے گئے‘ اور ڈاکیومنٹریز اس کے بارے میں بنائی گئی ہیں‘ کسی اور درخت کو نصیب نہیں ہوں گی۔
27 ستمبر 2023ء کی رات‘ نزدیک کی بستی سے دو بدبخت رات کے اندھیرے میں فطرت کی صدیوں کی محنت کو چند منٹوں میں ضائع کر کے‘ اپنی بیہودہ بہادری کی ایک دوسرے کو داد دیتے رہے۔ زندہ معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے‘ جو برطانیہ کے نظامِ پولیس وانصاف نے کر دکھایا ہے۔ کھوج اور تفتیش کے جدید ترین طریقوں اور پیشہ ورانہ فرض شناسی کے سامنے مجرم کیسے اس سیاہ کاری کو‘ اور کب تک چھپا سکتے تھے؟ کاروتھرز اور گرام آخرکار پکڑے گئے۔ اور بس‘ شواہد ان کے فونوں میں محفوظ پیغامات اور تصویروں میں موجود تھے۔ جج صاحبہ اور جیوری کے آگے ان کا کوئی عذر‘ بہانہ‘ توجیہ کام نہ آئی۔ 15 جولائی کو سزا سنا دی گئی۔
ہر ایک کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سزا تو وہ حکومت کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے شاید آدھی پوری کریں کہ جیل خانہ جات میں جگہ کی کمی ہے۔ ایسے جرائم کے لیے عمومی طور پر فقط چھ ماہ کی سزا دی جاتی ہے‘ مگر جج صاحبہ نے جو فیصلہ سناتے وقت باتیں کیں اور سزا بڑھائی‘ وہ دنیا بھر کے فطرت شناسوں اور شجر دوستوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجرموں کے اقدام سے پورے معاشرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اس کے اثرات گہرے اور وسیع اور غیر معمولی ہیں۔ اپنے معاشرے میں جو بے حسی اور سرکاری محکموں اور حکومت کی اپنے جنگلات اور ماحولیاتی شعور اور فطرت سے لگاؤ کی باتیں کر کے خوش ہوتے ہیں‘ اسلام آباد میں بھی ایک ایسا درخت صدیوں پرانا ہے‘ جو سڑک کو چوڑا کرنے کی غرض سے ڈھیر ہونے کو تھا کہ ملک کے مشہور مصور غلام رسول صاحب مرحوم ڈٹ گئے اور وہ بچ گیا۔ آپ بھی جاگیں‘ دوسروں کو بھی جگائیں اور اپنے فطری ماحول کی حفاظت کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved