تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     25-07-2025

جنگ کے بعد پاک بھارت سفارت کاری

مئی کی پاک بھارت مختصر جنگ کے بعد دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بھارت کا غصہ ابھی تک کم نہیں ہوا۔ بھارت کے وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ اور دیگر چند مرکزی وزرا آئے روز پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دے رہے ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دے رہے ہیں جو دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔ بھارت نے کئی وفود امریکہ‘ برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک میں بھیجے تاکہ پاکستان کے خلاف اپنا منفی بیانیہ پیش کرکے عالمی حمایت حاصل کی جا سکے کہ پاکستان ان انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کرتا ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ تاہم بھارتی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں کیونکہ مغربی ممالک کے دورے پر جانے والا بھارتی وفد پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔ وہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی فراہم نہ کر سکا۔ حالانکہ اس واقعے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام عائد کر دیا تھا۔ پاکستان نے اس واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی‘ لیکن بھارت نے اس پیشکش کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا جاری رکھا۔ بھارت نے پہلگام واقعے کو جواز بنا کر سات مئی کی شب پاکستان کے مختلف شہری اہداف پر میزائل حملے کیے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی زبانی جارحیت قابلِ فہم ہے کیونکہ بھارت کو نہ صرف مئی کی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جنگ کے بعد بھارت کی سفارتی کوششوں نے امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔
مئی کی مختصر جنگ کے حوالے سے بھارت نے تین بڑی غلطیاں کیں: پہلی یہ کہ بھارتی عسکری اور سول حلقے اور اس کے نیم سرکاری دفاعی ماہرین اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ بھارت اپنی روایتی فوجی برتری کے باعث ایک یا دو دن میں پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کر دے گا۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے بھارتی قیادت اس زعم کا شکار تھی کہ وہ روایتی فوجی حملے کے ذریعے پاکستان کو زیر کر سکتی ہے‘ بشرطیکہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کیے جائیں۔ ان کے نزدیک بھارت کی افرادی قوت‘ ہتھیاروں‘ فضائیہ اور بحریہ کی برتری پاکستان کے دفاعی نظام کو اس حد تک مفلوج کر دے گی کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا سوچ بھی نہ سکے گا۔ تاہم مئی کی چار روزہ جنگ میں بھارت کا یہ خوش فہمی پر مبنی اعتماد بری طرح ناکام ہوا کیونکہ پاکستان نے سات مئی کو بھارتی حملوں کے بعد اپنے جدید فضائی دفاعی نظام کو متحرک کر دیا۔ پاکستان نے پیشہ ورانہ مہارت‘ سروس سے وابستگی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سات سے 10 مئی کے درمیان بھارت کے فضائی حملوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پاکستان نے چینی ساختہ J10-C‘ پاک چین مشترکہ منصوبے کے تحت بنے JF-17 تھنڈر طیارے‘ جدید میزائلوں‘ ڈرونز (چینی‘ ترک اور پاکستانی ساختہ) ریڈار اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم اور سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے بھارتی حملے کو مؤثر طور پر ناکام بنایا۔ پاکستان نے کشمیر سے لے کر بھارتی ریاست گجرات تک بھارتی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جن میں سے کچھ کو شدید نقصان پہنچا‘ حتیٰ کہ روسی ساختہ S-400 دفاعی نظام بھی متاثر ہوا۔ پاکستان نے چھ بھارتی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا جن میں تین فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے شامل تھے۔ یہ سب ان بھارتی دفاعی حلقوں کے لیے ایک شدید دھچکا تھا جو کبھی پاکستان کی عسکری مہارت اور اس کی جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی ترقی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
بھارت کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ امریکی سفارت کاری‘ خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دلچسپی نے 10مئی کی شام پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی۔ بھارتی حکومت‘ جو ہمیشہ اندرونی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی خودمختاری کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے اور خود کو عالمی سطح کا کھلاڑی قرار دیتے ہوئے اپنے حامیوں کے سامنے یہ اعتراف کرنے سے قاصر رہی کہ بھارت نے امریکہ کی ثالثی پر جنگ بندی قبول کی۔ دنیا بھر میں اس حقیقت کے تسلیم کیے جانے کے باوجود بھارت کا یہ انکار امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں وقتی طور پر خلیج کا سبب بنا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو سراہا اور امریکہ سے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین تمام متنازع مسائل پر بات چیت کے لیے اپنا سفارتی کردار ادا کرے ور اثر و رسوخ استعمال کرے۔ تاہم‘ بھارت نے امریکہ کی اس پیشکش کو رد کر دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسائل میں امریکہ کی ثالثی نہیں چاہتا۔
بھارت کی تیسری بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے پاکستان کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لیے پُرامن مذاکرات کے عالمی مشورے کو سننے سے انکار کر دیا۔ بین الاقوامی برادری دو ایٹمی ریاستوں کے مابین مکمل روایتی جنگ کے امکان سے خائف ہے کیونکہ یہ جنگ ایک بھیانک ایٹمی تصادم میں بھی بدل سکتی ہے۔ لیکن بھارت پاکستان کے ساتھ کسی مسئلے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات نہایت محدود ہو چکے ہیں۔ بھارت کے اس رویے نے سارک (SAARC) کے کام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ بھارت کا سندھ طاس معاہدے 1960ء کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان بھی دونوں ممالک کے مابین مزید تناؤ کا باعث بنا ہے۔ بین الاقوامی قانون اور سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے مطابق بھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا‘ لیکن بھارت نے غصے میں بین الاقوامی قوانین اور معاہدے کی شرائط کو نظر انداز کر دیا۔ بین الاقوامی آبی اور قانونی ماہرین بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت یہ اقدام نہیں کر سکتا۔ بھارت کی اس ضد نے اسے عالمی سطح پر بھی سفارتی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سفارت کاری امریکہ‘ دیگر مغربی ممالک‘ چین اور روس کے اس مؤقف کے مطابق ہے جو پاکستان اور بھارت کو مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان کے ان وفود نے‘ جو امریکہ اور یورپی ممالک کے دورے پر گئے‘ دو نکات پر زور دیا جو کافی عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے: اول‘ پاکستان پہلگام واقعے کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ دوم‘ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام متنازع امور پر بات کرنے کے لیے آمادہ ہے جن میں دہشت گردی اور کشمیر بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے امریکہ اور دیگر دوست ممالک سے کہا کہ وہ بھارت کو قائل کرنے کے لیے اپنی سفارت کاری کو بروئے کار لائیں تاکہ بھارت اور پاکستان کے مابین دیرینہ تصفیہ طلب مسائل پُرامن اور مذاکراتی عمل کے ذریعے حل کیے جا سکیں‘ جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری عالمی برادری کو فائدہ ہو گا۔
پاکستان کی یہ پالیسی کہ بھارت اور پاکستان کے مسائل کو معقول اور پُرامن طریقے سے حل کیا جائے‘ مئی کی جنگ میں حاصل عسکری برتری کو عالمی سطح پر سفارتی حمایت سے مزید تقویت دے رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved