گزرتے وقت کے ساتھ یہ عقدہ بھی برابر کھلتا چلا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی بھید بھاؤ اور اسرار و رموز کے تانے بانوں سے لے کران کے گہرے اثرات کے سائے وطنِ عزیز پر لہرا رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے علمبرداروں سے لے کر دنیا کے منصفوں اور ٹھیکیداروں سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے علاوہ مملکتِ خداداد بھی غزہ میں بھوک سے مرتے بچوں کو بس دیکھ ہی رہی ہے۔ فلسطینی المناک انسانی المیہ بنے بس خدائی امداد کے منتظر ہیں کیونکہ مہذب دنیا تو اپنے کھیل تماشوں اور تام جھام میں اس قدر مگن ہے کہ بھوک سے نڈھال بچوں اور مرد و زَن کی آئے روز شہادتوں پر احتجاج کے بجائے احتیاط کی بے حس چادر اوڑھے پڑی ہے۔ غزہ کے اس خونیں محاصرے کا شکنجہ اس قدر سخت ہے کہ مٹھی بھر راشن کا حصول بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ بھوک سے بلکتے بچے روز رزقِ خاک بنتے چلے جا رہے ہیں‘ ا س پر درندگی اور بربریت کی انتہا یہ کہ ادھ موئے فلسطینیوں پر اسرائیل کی بمباری بھی جاری ہے۔ مجبوری اور مصلحتوں کی بیڑیاں عالمی برادری کو غزہ کی مصیبت زدہ بستی سے یکجہتی اور عملی امداد سے بدستور روکے ہوئے ہیں۔ ہماری حکومت نے تو ٹرمپ بہادر کو ''اَمن کے داعی‘‘ کا لقب دے کر نوبیل پرائز کیلئے بھی نامزد کر ڈالا لیکن امریکی صدر کو اپنی حقیقت بخوبی معلوم ہے کہ یہ ٹائٹل اور نوبیل پرائز ان کے ایجنڈے کے برعکس اور باعثِ تمسخر ہے۔ ویسے بھی فلسطین اور اسرائیل کا تنازع اور جنگی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ہم پرائی لڑائی میں اپنا گھر کیسے خراب کر سکتے ہیں۔ زبانی کلامی جو ممکن ہو سکتا ہے وہ احتیاط اور اختیار کے ساتھ ہم پہلے بھی کرتے چلے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
ہمارے ملک میں تو رنگین اور سادہ سے لے کر سنگین و نازک سمیت نجانے کیسے کیسے حالات آئے روز انڈے بچے دے رہے ہیں۔ ہمیں تو خود ان انڈوں سے بچے اور بچوں سے انڈے نکالنے سے فرصت نہیں‘ ابھی چند دن پہلے ہی سینیٹ کے انتخابی معرکے سے نمٹ کر بیٹھے ہی تھے کہ پی ٹی آئی کے اَسیر رہنماؤں کی سزاؤں کا موسم آ گیا ہے۔ یہ موسم فی الحال تو کافی شدت اور حدت کا حامل ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں شہباز شریف نے تو اسیری کے زیادہ ایام پروڈکشن آرڈر پر منسٹر انکلیو میں گزارے‘ جس پر شیخ رشید بڑے زور و شور سے واویلا کیا کرتے تھے کہ شہباز شریف کی گوٹی فِٹ ہے اور وہ جیل کے بجائے منسٹر کالونی میں انجوائے کر رہے ہیں۔ اسی طرح دورانِ اسیری میاں نواز شریف کی بیماری کا بیانیہ اس قدر زور دار اور پُر اثر بنایا گیا کہ ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر سوشل میڈیا اور اخبارات سمیت سبھی ان کی بیماری سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتے تھے جبکہ بیماری کی نزاکت اور سنگینی کو اس قدر ہوا دی گئی کہ پی ٹی آئی کی سرکردہ شخصیات بھی ہمدردی سے باز نہ رہ سکیں۔ حکومتی حلیف چودھری شجاعت حسین سمیت اس وقت کی وزیر صحت یاسمین راشد نے خود وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ میاں نواز شریف کو انسانی ہمدردی کے تحت علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں اور میاں صاحب کو طبّی بنیادوں پر ریلیف مل گیا۔ خدا جانے کوئی چمتکار تھا یا جادو‘ ملک اور آب و ہوا بدلتے ہی میاں صاحب کی نازک حالت کرشماتی طور پر سنبھلتی چلی گئی اور ان کی صحت کے حوالے سے سبھی تشویشناک خبریں اور رپورٹیں اُلٹی ہوتی چلی گئیں۔ اسی طرح آصف علی زرداری بھی ان دنوں وہیل چیئر پر نازک حالت میں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے لیکن جوں جوں مقدمات کی گرفت ڈھیلی ہوتی چلی گئی توں توں ان کی صحت بھی سنبھلتی چلی گئی۔ البتہ مریم نواز نے اسیری کے ایام میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ نیب کی تحویل میں وہ ہمیشہ حکام کو آڑے ہاتھوں لینے کے علاوہ سخت جملوں کے ساتھ تنبیہ بھی کرتی رہیں‘ شاید وہی لمحات قبولیت کے تھے کہ نیب کے پلے آج کچھ بھی نہیں رہا اور مخصوص دائرہ کار تک محدود ہو کر رہ گیا۔
یاسمین راشد بھی انہی سرکردہ رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں دس دس سال کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ ان کی بیماری پرانی اور کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور نہ ہی اس کیلئے کسی بیانیے کی ضرورت ہے‘ طبیعت بگڑنے پر جیل سے ہسپتال آتی جاتی رہتی ہیں۔ کینسر جیسی بیماری کے ساتھ دس سال کی سزا پر وہ طبی بنیادوں پر کوئی ریلیف مانگتی ہیں یا نہیں‘ دونوں صورتوں میں گیند میاں نواز شریف کی کورٹ میں ہے۔ سنگین بیماری‘ نازک حالت اور عمر کا لحاظ کیا جاتا ہے یا سیاست کے اصول جوں کے توں رہیں گے؟ دوسری طرف شاہ محمود قریشی بری ہو گئے ہیں جبکہ ان کی اسیری کا معمہ تاحال حل طلب ہے۔ نو مئی میں شریک اور پیش پیش بیشتر تو بروقت پریس کانفرنس کرکے مقدمات اور سزاؤں سے یکسر بچ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کا سائفر بیانیہ تُوڑی کی پنڈ کی طرح کھل کر تنکا تنکا بکھر چکا ہے۔ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے باوجود ریلیف کی سبھی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں اور عمران خان کے بچوں کی آنیوں جانیوں اور ملاقاتوں کا نتیجہ آزادی یا اقتدار میں واپسی تو ہرگز نہیں ہو سکتا‘ ڈیل کے تحت بیرونِ ملک روانگی کے امکانات بدستور موجود ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سے پی ٹی آئی کو خواہ مخواہ کی اُمیدیں تھیں‘ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات اور ضروریات شخصیات سے نہیں بلکہ ایجنڈوں اور اطاعت گزاری سے منسوب ہوتی ہیں۔ عمران خان کے افتادِ طبع نے وہ سبھی دن دکھا ڈالے جو تبدیلی کے سونامی کے انجینئرز نے سوچے بھی نہیں تھے۔ برسرِ اقتدار آکر انہی انجینئرز کی انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ کھلی چھیڑ خانی کے علاوہ کانوں میں زہر گھولنے والوں کے ہتھے چڑھنے جیسی سنگین غلطیوں پر ضد اور اصرار نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ ایک طبقہ ان کی اسیری پر مطمئن اور شاداں ہے۔ سائفر بیانیے نے امریکہ کو ہدف بنانے سے لے کر Absolutely Not جیسے ایڈونچرز کے بعد ریلیف کی اُمید اور پاکستانی مقتدرہ پر دباؤ کی توقع ناقابلِ فہم ہے۔ ویسے بھی بین الاقوامی حالات اور خطے کی حالیہ جنگی صورتحال میں پاکستان کی ناقابلِ تردید اہمیت کا ادراک انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو بخوبی ہو چکا ہے اور موجودہ رجیم عالمی تقاضوں کے عین مطابق اپنا کردار اور جواز برقرار رکھے ہوئے ہے۔ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں ریاستِ مدینہ سمیت چینی اور ملائیشین ماڈل پر حکومتی ڈھانچہ استوار کرنے کی خواہش میں مبتلا رہے لیکن ان بیرونی ماڈلز کو اپنانا تو درکنار‘ اپنے ہی انتظامی ڈھانچے کو ڈھانچہ بننے سے نہ روک سکے۔ ان نظریات کے ساتھ برطانیہ اور امریکہ سے ہمدردی اور ریلیف کیلئے اُمید لگانا تعجب خیز ہے۔
مملکتِ خداداد نئے خطوط پر استوار ہونے جا رہی ہے۔ سسٹم میں ضروری تبدیلیوں اور انجینئرنگ کے بعد کچھ سواریاں سٹاپ آنے پر اُتار دی جائیں گی اور پہلے سے سوار کچھ سواریاں مزید اہم ہونے جا رہی ہیں۔ اس چلتی گاڑی میں فی الحال پی ٹی آئی کے سوار ہونے کی گنجائش ہے نہ امکان‘ ویسے بھی بکنگ کے بغیر گاڑیاں کہاں سواری بٹھاتی ہیں۔ عمران خان کی پرانی بکنگ کا تجربہ اتنا تباہ کن نکلا کہ انجینئرز کے ساتھ ساتھ ورکشاپ کو بھی لے بیٹھے۔ یہ سبھی امکانات لمحۂ موجود تک روشن ہیں کیونکہ مملکت خداداد کے بارے میں حتمی پیشگوئی یا دانشوری اس لیے بونگی سمجھتا ہوں کہ کیا معلوم کل کون کہاں مُک جائے اور کون کہاں ٹُک جائے۔ ویسے بھی دانشوری اور پیشگوئی تو اقدار اور اخلاقیات کو مدنظر رکھ کر ہی کی جاتی ہے لیکن جہاں ان سبھی کا وجود نہ ہو تو سبھی امکانات لمحۂ موجود تک ہی روشن اور زندہ رہتے ہیں۔ اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved