تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-07-2025

بچوں کی حفاظت کیجیے!

اپنے قتل ہونے سے چند دن پہلے بچہ گھر آیا تو اس نے مدرسہ واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے بتایا کہ مہتمم کے بیٹے کی طرف سے اسے غیراخلاقی مطالبات کا سامنا ہے۔
بچے کا چچا اسے دوبارہ مدرسہ لے گیا۔ اس نے مہتمم سے شکایت کی۔ اسے بتایا گیا کہ ایسا کچھ نہیں۔ بچہ تعلیم سے جان چھڑانے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔ بچے کا باپ ملازمت کے لیے ملک سے باہر تھا اور اس کا چچا ہی اس کا سرپرست تھا۔ مدرسے کے ذمہ داران سے گفتگو کے دوران میں اس کا باپ وڈیو کال پر موجود تھا۔ باپ اور چچا نے بچے کی بات نہیں مانی اور مہتمم کی بات کا یقین کر لیا۔ اسے دوبارہ ان کے حوالے کر دیا گیا۔ چچا کو عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ مدرسے سے نکلا ہی تھا کہ مہتمم اور اس کے بیٹے سمیت چند افراد بچے پر پل پڑے۔ لاٹھیوں اور زنجیروں سے اس پر تشدد کیا۔ ایک تھک جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ شام کو مدرسے سے فون آیا کہ بچے کی لاش لے جاؤ۔
کیا باپ ا ور چچا مدرسے کے ذمہ داران کے ساتھ اس قتل میں شریک نہیں ہیں‘ جنہوں نے بچے کی بات نہیں مانی ا ور استاد پر اعتبار کیا؟ کیا بچے کو واپس بھیجنے سے پہلے انہیں تحقیق نہیں کرنی چاہیے تھی؟ چچا نے یہ کیوں فرض کیا کہ بچہ جھوٹ بول رہا ہے؟ کیا وہ معاشرے سے اتنا کٹا ہوا تھا کہ اسے ارد گرد کی کچھ خبر نہیں تھی؟ کیا مہتمم کے بیٹے کا مطالبہ معمولی نوعیت کا تھا؟ آخر ہم اپنے بچوں پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟
یہ سوال صرف بچے کے چچا سے نہیں‘ پورے سماج سے ہے۔ ہمارے بچے جب شکایت کرتے ہیں تو ہمارا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ سچ نہیں بول رہے۔ ہم کبھی ان کی بات پر دھیان نہیں دیتے۔ اس سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ اس کی آخری صورت وہ ہے جو ہم نے سوات میں دیکھی۔ ایک بڑا حادثہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ والدین اور گھر والوں سے مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی کہیں شنوائی نہیں۔ اس لیے اسے اپنی شکایت کا ازالہ خود ہی کرنا ہو گا۔ اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود کو حالات کے حوالے کر دے۔ اس سے اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ باغی بن جائے۔ پھرکوئی روایت اس کے لیے لائقِ احترام رہتی ہے اور نہ کوئی قانون۔
سوات کے بچے کو تو مہلت ہی نہیں ملی۔ عصر کے وقت زندہ مدرسے پہنچا اور رات کو اس کی لاش آئی۔ اگر وہ بچ جاتا تو کیا کرتا؟ ایک صورت یہ تھی کہ وہ مہتمم کے بیٹے کا مطالبہ پورا کرتا۔ یہ ایک بار نہ ہوتا۔ مسلسل اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی‘ یہاں تک کہ وہ بے حس ہو جاتا۔ اس کے بعد ہر اخلاقی قدر اس کے لیے بے معنی ہو جاتی۔ پھر وہ معاشرے کو وہی کچھ لوٹاتا جو اسے ملا تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ مدرسے سے بھاگ جاتا۔ گھر بھی نہ جاتا کہ اسے معلوم تھا‘ اسے پھر مدرسے ہی جانا پڑے گا۔ وہ آوارہ ہو جاتا اور معاشرے میں ایک جرائم پیشہ کا اضافہ ہو جاتا۔ یہ محض مفروضہ نہیں‘ مشاہدات اور تجربات کا حاصل ہے۔ جو بھی آنکھ کھول کر ارد گرد دیکھے گا‘ اسے ایسے واقعات نظر آئیں گے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بچے کے جذبات سے لاتعلق ہوتے ہیں۔
بچوں سے یہ سلوک صرف مدارس میں نہیں ہوتا‘ دیہات کے عام سکولوں میں بھی تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ تاہم وہاں قوانین موجود ہیں اور یہ ادارے حکومت کے زیرِ انتظام چلتے ہیں۔ اگر کسی استاد کے بارے میں تشدد کی بات رپورٹ ہو جائے تو اسے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ سکول ماضی میں مدرسے ہی کی طرح تھے مگر اب صورتِ حال میں قابلِ ذکر تبدیلی آ چکی۔ سکولوں میں تشدد کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں۔ مدرسے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ملکی قانون کا پابند نہیں۔ سوات کا یہ مدرسہ تو کہیں رجسٹر بھی نہیں تھا۔ ایسے اداروں کا مہتمم بادشاہ ہوتا ہے۔ اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ غیرقانونی تھا تو حکومت نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اس کا جواب میں پچھلے کالم میں دے چکا کہ ہماری حکومتیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں۔ یہ مذہبی مافیا کے خلاف اقدام کرنے کی جرأت رکھتی ہیں نہ چینی مافیا کے خلاف۔ نہ سردار مافیا کے خلاف نہ کسی اور مافیا کے خلاف۔ اس لیے میں اس کا داعی ہو ں کہ سماج کو اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔ سول سوسائٹی کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ سماجی اداروں کو زندہ ہونا چاہیے اور ان میں سب سے اہم خاندان کا ادارہ ہے۔
والدین کا کام صرف بچے پیدا کرنا نہیں۔ یہ کام جانور بھی کرتے ہیں۔ ان کا کام اچھے انسان پیدا کرنا ہے۔ جو مرد اور عورت اس بات سے بے خبر ہیں‘ انہیں شادی نہیں کرنی چاہیے۔ استادِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ خاندان کا ادارہ اچھے انسان پیدا کرنے کے لیے ہی وجود میں آیا ہے۔ بچہ جب والدین کے آغوش میں دیا جاتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ایک امانت ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ان کاکام اس 'انبارِ گِل‘ کو آدمی بنانا ہے۔ پیدائش کے وقت یہ محض مٹی کا تودہ ہے۔ والدین نے اسے ایک انسان میں ڈھالنا ہے۔ انہیں یہ دیکھنا ہے کہ بچہ کیا رجحان لے کر آیا ہے۔ اس کے مطابق اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ فطرت کا سبق یہی ہے اور قرآن مجید بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ہر بچہ عالمِ دین بننے کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے رجحان کو جانے بغیر اسے اس پر لگا دیں گے تو اس کی طبیعت اسے قبول نہیں کرے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بچے کو پانچ سال کی عمر میں طب یا انجینئرنگ کی تعلیم دی جائے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے سب بچوں کو بارہ برس کی یکساں بنیادی تعلیم دی جائے۔ اس کے بعد یہ ان کا انتخاب ہے کہ وہ کوئی ہنر سیکھتے ہیں یا کسی خاص شعبے میں جانا چاہتے ہیں۔
والدین اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔ نیم خواندہ لوگ انہیں سچی جھوٹی روایات سناتے ہیں اور وہ بچے کا رجحان جانے بغیر اسے مدرسے بھیج دیتے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ مدرسے کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ سکولوں سے بھی بچے اسی وجہ سے بھاگتے ہیں کہ وہ تعلیم کے لیے نہیں‘ کسی ہنر کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور والدین انہیں زبردستی ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں۔ والدین خدا کے لیے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں۔ میرے بس میں ہو تو میں عائلی معاملات میں خصوصی تعلیم کے بغیر شادی پر پابندی لگا دوں۔ جب ایک شخص بغیر تربیت کے گاڑی نہیں چلا سکتا تو تعلیم و تربیت کے بغیر خاندان کیسے چلا سکتا ہے؟
بارہ برس کا بچہ مار ڈالا گیا۔ اس کے قاتل صرف تشدد کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ خاندان بھی ہے جس نے بچے کی بات پر اعتبار نہیں کیا۔ وہ سماج بھی ہے جس نے شادی بیاہ کو گڈی گڈے کا کھیل بنا دیا ہے۔ وہ حکومت بھی ہے جو چند دن کے اقتدار کو بچانے کے لیے مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں جو ایک بچے کی حفاظت نہ کر سکے۔ جو اپنے مستقل کو محفوظ نہ بنا سکے۔ اس لیے مکرر گزارش ہے کہ اپنی سماجی قوت کو بروئے کار لائیے اور سماجی اداروں کو زندہ کیجیے۔ اس میں خاندان اور مکتب سرِ فہرست ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved