تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-07-2025

’’مجھ کو بھی ڈوبنا ہے‘ ستارہ تو میں بھی ہوں‘‘

لکھنے کیلئے آج کل اتنا زیادہ ہے کہ ہفتے میں تین دن لکھنے کی سہولت‘ جو کبھی کبھی بہت زیادہ لگتی ہے‘ کم پڑ گئی ہے۔ ماحولیات‘ درخت‘ کتابیں‘ عدل و انصاف‘ عتاب‘ مہربانی‘ ٹریفک‘ موسم‘ معاشیات‘ سیاست اور بہت کچھ۔ اس عاجز کی دلچسپیاں کچھ اور ہیں مگر لکھنے کے تقاضے یکسر مختلف ہیں۔ کبھی یہ عاجز دل کی مان لیتا ہے اور کبھی دماغ کی۔ لیکن سچ یہی ہے کہ قلم بہرحال دل کی باتوں اور کہانیوں میں پھنسا رہتا ہے۔ آج لکھنا تو کچھ اور تھا مگر یہ درمیان میں تیمور حسن آن پہنچا ہے‘ بلکہ آن پہنچا نہیں‘ رخصت ہو گیا ہے۔
تیمور حسن کو دیکھنے سے کہیں پہلے میں اس کو پڑھ چکا تھا۔ ایسا ایسا شعر اور ایسا ایسا خیال کہ بندے کو یقین ہو جاتا ہے کہ شاعری واقعتاً الہامی شے ہے۔ وگرنہ بھلا ایسے نادر خیال کسی کے ذہن میں کیسے آ سکتے ہیں؟ ممکن ہے آپ اس سے اختلاف کریں‘ تاہم میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ شاعری اور شاعر دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ میں بہت سے شاعروں کو جانتا ہوں جن سے عام گفتگو کریں تو یہ شائبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ بندہ ایسے ایسے مرصع اشعار‘ ایسے نازک خیال‘ ایسے نادر منظر نامے اور ایسے نفیس انسانی جذبات کو لفظوں کے قالب میں ڈھالنے پر قادر ہے۔ اس کا عمومی رویہ‘ روزمرہ کی زندگی‘ بات چیت اور نہایت ہی غیر دانشورانہ خیالات دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ایسے نفیس‘ دانشورانہ‘ باریک‘ نازک اور نادر خیال پر مبنی شعر اس شاعر نے لکھا ہوگا مگر یہ حقیقت ہوتی ہے۔ اسی لیے میں شرح صدر سے یہ سمجھتا ہوں کہ شاعری لمحۂ الہام میں تخلیق پاتی ہے اور اسی لمحۂ الہام میں کہی جانے والی شاعری دلوں میں جگہ پاتی اور تادیر زندہ رہتی ہے۔ باقی سب وہ موسمی پھل پھول ہیں جو چند روز بعد مرجھا جاتے ہیں۔ مگر تیمور حسن سے ملنے پر احساس ہوتا تھا کہ یہ شاعر ہے۔ منیر نیازی جیسا سرتاپا شاعر نہ سہی‘ مگر شاعر اس کی شخصیت سے جھلکتا تھا۔
میری تیمور حسن سے پہلی ملاقات رحیم یار خان کے مشاعرے کے بعد ہوئی اور یہ پہلی ملاقات آئندہ کی بہت سی ملاقاتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس سے طویل ملاقات تب ہوئی جب میں نے اسے ''پارکو‘‘ مظفر گڑھ میں ہونے والے مشاعرے میں بلانے کا اہتمام کیا اور ہم دو دن تک ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میرے ساتھ میرا بیٹا اسد بھی تھا۔ عمر کے فرق کے باوجود تیمور اور اس کی آپس میں گاڑھی چھننے لگی۔ اسد مجھ سے وقتافوقتاً اپنے تیمور انکل کا حال پوچھتا رہتا تھا۔ کل فون پر اسے تیمور کی رخصتی کا بتایا وہ ایک دم اداس ہو گیا۔
اسے صرف ایک ہی شوق تھا اور وہ تھا سگریٹ پینے کا‘ سگریٹ پیتے ہوئے وہ کسی اور دنیا کا باسی لگتا تھا۔ کش لگانے میں مکمل مگن اور دھویں کے ایک ایک مرغولے سے لطف کشید کرتا ہوا۔ دنیا وما فیہا سے بے خبر اور کسی عالمِ جذب ومستی میں کھویا ہوا۔ میں نے اسے سگریٹ سلگاتے ہوئے بارہا غور سے دیکھا کہ شاید وہ سگریٹ لگاتے ہوئے لائٹر اور منہ میں دبائے ہوئے سگریٹ کے دوسرے سرے کے درمیان اندازے کی غلطی کر جائے مگر ایسا کبھی نہ ہوا۔ وہ لائٹر اور سگریٹ کے جلائے جانے والے سرے میں ویسا ہی تال میل رکھتا تھا جیسا تال میل اس کی شاعری اور دوستوں سے رابطے میں تھا۔مجھے یہ اقرار کرنے میں ایک لمحے کا تامل نہیں کہ تیمور سے مسلسل رابطے میں میرا حصہ تو نہ ہونے کے برابر تھا زیادہ تر تیمور ہی مجھے فون کرتا اور اس دوران میں دل ہی دل میں اپنی کوتاہی پر شرمندہ ہوتا رہتا۔
تیمور اپنے چہرے پر سجی ہوئی دو آنکھوں کے بجائے دنیا کو اپنی تیسری آنکھ سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر قادر تھا۔ اس سے بات چیت کرتے ہوئے‘ اس کے ساتھ چلتے ہوئے‘ اس کا فون سنتے ہوئے اور اسے فون ملاتا ہوا دیکھنے تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ دنیا کو ہماری طرح دیکھنے سے محروم ہے۔ اس نے اپنی اس مجبوری کو نہ تو کبھی اپنی معذوری بنایا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی اس کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ایم اے اُردو اور پھر ڈاکٹریٹ اس کی اس جہدِ مسلسل کا نتیجہ تھی جس میں اس کے والد کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ کہانی ادھوری رہ جائے گی۔
تیمور حسن جب پیدا ہوا تو وہ عام بچوں جیسا ہی تھا مگر پھر آہستہ آہستہ دیکھنے کی نعمت سے محروم ہوتا گیا۔ اس مرحلے پر اسکے والدین‘ خاص طور پر اسکے والد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دنیا میں پورے قد سے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا اور اس کا سہارا بھی بنے۔ بینک کے شعبہ آڈٹ سے منسلک اسکے والد شام ڈھلے تھکے ہارے گھر آتے تو اپنی تھکن کو ایک طرف رکھ کر اسے اس کا تعلیمی نصاب پڑھ کر سناتے اور تیمور اس کو ریکارڈ کر لیتا۔ یہ سلسلہ ابتدائی تعلیم سے ہوتا ہوا ایم اے تک پہنچا۔ جیسے جیسے اس کے تعلیمی مدارج بڑھتے گئے اس کے والد کا سبق بھی طویل ہوتا گیا۔ تاہم یہ مشترکہ کوششیں رنگ لائیں‘ تیمور حسن نے ایف سی کالج سے ایم اے اُردو کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ 2010ء میں اُس نے اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسس جمع کروایا تو اس میں بھی اس کے والد شریک کار تھے لیکن اسے ملال تھا کہ جب 2012ء میں اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تو اس کے والد اس خوشی میں اس کے ساتھ شریک نہ تھے۔
چند روز قبل حسب ِمعمول تیمور حسن ہی نے مجھے فون کیا تو اندازہ نہ تھا کہ میں اس کی آواز آخری بار سُن رہا ہوں۔ تیمور کی دو کتابیں ''غلط فہمی میں مت رہنا‘‘ اور ''تیرا کیا بنا‘‘ شائع ہو کر صاحبِ ذوق قارئین سے داد پا چکی ہیں۔ تیمور حسن کا ایک شعر نذرِ قارئین ہے۔ ایسا شعر صرف اور صرف تیمور حسن ہی کہہ سکتا تھا: تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے؍تیری اندازے سے تصویر بنا سکتا ہوں
شعر تو بہت ہیں اور انتخاب ایک مشکل کام ہے۔ فی الحال تو تیمور کی دو غزلیں پڑھیں اور لطف لیں۔
تجھے زندگی کا شعور تھا‘ تیرا کیا بنا؟
تو خموش کیوں ہے مجھے بتا‘ تیرا کیا بنا؟
مجھے علم تھا کہ شکست میرا نصیب ہے
تو امیدوار تھا جیت کا‘ تیرا کیا بنا؟
تجھے دیکھ کر تو مجھے لگا تھا کہ خوش ہے تُو
تیرے بولنے سے پتا چلا‘ تیرا کیا بنا
میں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لیے
کوئی آتا مجھ سے یہ پوچھتا‘ تیرا کیا بنا؟
..................
موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں
اس کی تُو سوچ دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تُوکس لیے اداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں
ظاہر کی آنکھ سے نظر آتا نہیں مجھے
لیکن حضور! محو تماشا تو میں بھی ہوں
اک ایک کرکے ڈوبتے تارے بجھا گئے
مجھ کو بھی ڈوبنا ہے‘ ستارہ تو میں بھی ہوں
گورنمٹ کالج وحدت روڈ میں اُردو کا شاندار استاد اور اُردو شاعری کا یہ روشن ستارہ 21 جولائی کو لاہور میں بجھ گیا مگر اس کے اشعار شاعری کے اُفق پر فروزاں رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved