مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو پیشِ نظر رکھا جائے تو آج سے تقریباً 400سال قبل موجودہ بین الاقوامی نظام کی جن اصولوں اور قواعد پر بنیاد رکھی گئی تھی ان میں ریاستوں کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا احترام‘ انسانی جان کا تحفظ اور غیرمسلح شہریوں پر بلااشتعال حملوں سے احتراز‘ بین الاقوامی قوانین کی پابندی وغیرہ شامل تھیں‘ انہیں اب دفن کر دینا چاہیے کیونکہ گزشتہ 21ماہ سے اسرائیل غزہ کے شہریوں اور ہمسایہ ملکوں کو جس طرح جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے‘ اس کے بعد ان اصولوں کی کوئی وقعت اور ضرورت نہیں رہی۔ اکتوبر 2023ء سے اسرائیل غزہ کی تنگ ساحلی پٹی میں آباد 20لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو فضائیہ‘ بحریہ اور زمینی فوج کے حملوں سے متواتر نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ کی 80فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے کیونکہ بیشتر رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 59ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں‘ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں اور ان حملوں میں فلسطینیوں کی شہادت کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ایک فلسطینی باشندے نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو اس صورتحال سے متعلق جو تفصیلات بتائیں وہ رونگٹے کھڑے کرنے کیلئے کافی ہیں: ''ہم ہر روز بچوں‘ خواتین اور بزرگوں کو دفن کرتے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے مکانوں کی چھتیں ان میں رہائش پذیر لوگوں کے سروں پر گرتی ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 20لاکھ سے زائد آبادی بھوک‘ بیماریوں اور اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا سامنا کر رہی ہے مگر کوئی ادارہ‘ کوئی ملک حتیٰ کہ پوری بین الاقوامی برادری اسرائیل کے ان مظالم کوروکنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ صہیونی ریاست کو امریکہ اور یورپی ممالک سے نہ صرف سیاسی حمایت بلکہ اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی جاری ہے۔ اس طرح معلوم ہو رہا ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف فلسطینیوں کے بے دریغ قتل اور انہیں بھوکا مارنے کا لائسنس جاری ہو چکا ہے بلکہ اسے تمام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی آزادی بھی حاصل ہے۔
غزہ میں فلسطینیوں کے بے دریغ قتلِ عام اور نسل کشی کے بعد اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ اب ہمسایہ ممالک تک پھیل گیا ہے۔ لبنان‘ ایران اور یمن کے بعد گزشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں صدارتی محل کے قریب اور وزارتِ دفاع پر اسرائیل کے ہوائی حملے اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ ویسے تو شام رواں برس مارچ سے اسرائیلی حملوں اور فوجی مدالخت کا شکار چلا آ رہا ہے مگر حالیہ حملے اسرائیل کی بے لگام جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسرائیل نے اب تک غزہ یا لبنان اور یمن کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں انہیں اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ اور اس کے خلاف سیلف ڈیفنس قرار دے کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن شام کسی بھی لحاظ سے اسرائیل کیلئے خطرہ نہیں رہا کیونکہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے بعد شام میں جس حکومت نے اقتدار سنبھالا اس نے اسرائیل کے ساتھ امن اور عدم تشدد پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے شام کے خلاف تمام اقتصادی پابندیوں کو ختم کرکے اس کے ساتھ پُرامن اور قریبی تعلقات کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب میں صدر ٹرمپ شام کے نئے حکمران سے ملاقات کر چکے ہیں۔ شام کی نئی حکومت نے اسرائیل کو ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جس کوبہانہ بنا کر اسرائیل اس کی علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی کرتا ‘مگر گزشتہ ہفتے اسرائیل نے نہ صرف شام کے جنوبی علاقے میں شامی فوج کے دستوں کوہوائی حملوں کا نشانہ بنایا بلکہ دمشق میں بھی کارروائی کی۔ ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ اسرائیل شام میں اپنے اتحادیوں دروز برادری کی حفاظت کے لیے کارروائی کر رہا ہے اور نہ صرف یہ کارروائی جاری رہے گی بلکہ جب تک شام کی فوجیں جنوبی علاقے میں موجود ہیں اس میں تیزی بھی لائے جائے گی۔ دروز نہ صرف شام‘ اسرائیل بلکہ لبنان میں بھی موجود ہیں۔ 1967ء کی جنگ میں سطح مرتفع گولان پر قبضہ کرنے کے بعد سے اس خطے میں آباد دروز برادری اسرائیل کے کنٹرول میں ہے اور اسرائیل اسے اپنا اتحادی سمجھتا ہے۔حالیہ دنوں شام کے جنوبی حصے میں رہنے والے دروز اور مقامی عرب آبادی کے درمیان تصادم کے واقعات ہوئے جنہوں نے باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ شام کی حکومت نے اس پر قابو پانے اور فریقین کے درمیان جنگ بندی کرانے کیلئے وہاں اپنی فوج بھیج دی‘ اس کے جواب میں اسرائیل نے دروز برادری کی حمایت میں شامی فوج پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اسرائیلی وزیراعظم کو شام کے جنوبی حصے میں موجود شامی افواج پر حملوں سے منع کیا تھا لیکن اسرائیل نے نہ صرف جنوبی علاقے میں شام کی فوجوں پر حملے جاری رکھے بلکہ دمشق میں صدارتی محل کے قریب اور وزارتِ دفاع کی عمارت کو بھی ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اگرچہ اب شام میں آباد دروز آبادی اور مقامی عرب باشندوں کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے اور اس جنگ بندی پر عمل بھی ہو رہا ہے لیکن مستقل امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ شام ہو یا لبنان یا غزہ‘ اسرائیل کیلئے جنگ بندی یا قیام امن کیلئے کوئی معاہدہ یا بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد کرنے کا کوئی وعدہ‘ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
عرب اسرائیل تعلقات کی گزشتہ 77سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں اور اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ جتنے بھی معاہدے کیے وہ صرف بوقتِ ضرورت توڑنے کیلئے کیے گئے۔ رواں برس مارچ میں امریکہ اور قطر کی مداخلت سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد حماس کی قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی قید میں بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی تھا۔ حماس نے اپنی قید میں کچھ یرغمالیوں کو رہا کر دیا اور باقی جنگ بندی معاہدے کے اُس حصے پر عملدرآمد کے بعد رہا ہونے تھے جس میں اسرائیل کا غزہ سے فوجی انخلا شامل تھا مگر اسرائیل نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کے اس معاہدے کو ختم کر کے غزہ میں فلسطینیوں پر دوبارہ حملے شروع کر دیے۔
اسی طرح لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان گزشتہ برس نومبر میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ لبنان کے 30کلو میٹر علاقے کو غیرفوجی قرار دے کر حزب اللہ اور اسرائیل نے وہاں سے اپنی فوجوں کو نکالنے کا عہد کیا تھا۔ معاہدے کے تحت حزب اللہ نے تو اپنے جنگجو اس بفر زون سے نکال لیے مگر اسرائیلی فوج اب بھی علاقے کے پانچ مختلف مقامات پر موجود ہے۔ اسرائیل نے ان مقامات کو اپنی سلامتی کیلئے اہم قرار دے کر خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حال ہی میں اسرائیل نے لبنان کے شام سے ملنے والے علاقے وادیٔ بیکا پر حملہ کر کے 12افراد کو شہید اور 12کو زخمی کردیا۔ اس حملے کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے یہ کارروائی حزب اللہ کی طرف سے ری گروپ ہونے اور اسرائیل پر حملے کی تیاری کرنے کی بنا پر کی ہے حالانکہ اسرائیل اپنی سراغ رساں ایجنسیوں‘ ڈرون اور ہوائی حملوں کی مدد سے حزب اللہ کی تقریباً پوری قیادت کو شہید کر چکا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں اور بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved