تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     26-07-2025

پاکستان کی سیاسی جماعتیں

دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو کسی بہتر مقصد کیلئے بنتی ہے۔ کچھ ہم خیال لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کے کئی ایک مسائل حل نہیں ہو رہے تو ان کو حل کرنے کیلئے ایک سیاسی جماعت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ پھر وہ اس پر بحث کرتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ وہ پارٹی بناتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہیں۔ پھر وہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اس کا ایک پورا شیڈول بناتے ہیں‘ ایک طریقہ کار طے کرتے ہیں‘ ایک میکانزم بناتے ہیں کہ ہم اس طریقے سے ملکی اور عوامی مسئلے حل کریں گے۔ سب سے پہلے وہ دیکھتے ہیں کہ وہ عوامی مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں۔ ان میں سے سکِل کس کے اندر ہے۔ وہ سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور مشورے کیساتھ عوامی اور ملکی مسائل حل کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں پاکستان میں سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے‘ جب ایک آدمی کسی وجہ سے بہت پاپولر ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے ایک سیاسی پارٹی بنانی چاہیے کیونکہ مقبولیت کی وجہ سے مجھے ووٹ مل سکتے ہیں۔ یا پھر جب کوئی آدمی بہت سرمایہ دار ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے پاس اتنے پیسے ہیں‘ مجھے ایک سیاسی پارٹی بنانی چاہیے۔ یا پھر کسی آدمی کی پشت پر کوئی خاص طاقتور حلقہ ہو تو وہ کہتا ہے ہم ایک سیاسی پارٹی بنا رہے ہیں۔ یا پھر کسی آدمی کے ساتھ میڈیا ہے تو کہتا ہے کہ کیوں نہ سیاسی پارٹی بنا لیں۔ گویا اس طرح جو سیاسی پارٹی بنائی جاتی ہے وہ ملک کو ٹھیک کرنے یا عوامی مسائل حل کرنے کیلئے بنائی ہی نہیں جاتی‘ نہ اس کا سیاسی پارٹیوں والا میکانزم ہوتا ہے۔ ایسی پارٹیاں وَن مین آرمی ہوتی ہیں‘ ان کے پیچھے ایک مفاد پرست گروہ ہوتا ہے‘ ایک ٹولہ ہوتا ہے جو صرف اپنے مفادات کیلئے اکٹھا ہوا ہوتا ہے۔
پاکستان میں خیر سے سیاسی پارٹیوں کا ڈھانچہ ہی وہ نہیں جو دنیا بھر میں ہے اور جس مقصد کیلئے جمہوری ملکوں میں سیاسی پارٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں پر ایک خاص مقصد کیلئے سیاسی پارٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں کبھی اس مقصد کیلئے کوئی سیاسی پارٹی بنی ہی نہیں۔ پاکستان میں پارٹی اس طرح بنتی ہے کہ میں ایک بہت بڑا آدمی ہوں‘ اس لیے مجھے ایک سیاسی پارٹی بھی بنانی چاہیے۔
مرحوم حافظ حسین احمد نے ٹھیک کہا تھا کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا جھنڈا تو اپنا اپنا ہے لیکن ان جھنڈوں کے اندر جو ڈندا ہے وہ ان کا اپنا نہیں ہے۔ اسی طرح ''عوام‘‘ اور ''پاکستان‘‘ ہر سیاسی پارٹی اور سیاسی تحریک کے نام کا حصہ ہے لیکن کوئی پارٹی عوام تو کیا پاکستان سے بھی مخلص نہیں بلکہ اس ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر کھایا جا رہا ہے۔ پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والی جماعت نے ہی اسکے وسائل پر سب سے زیادہ ہاتھ صاف کیے۔ بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تانگہ پارٹیاں بھی ہیں بلکہ ان کی تانگے کی سواریاں بھی پوری نہیں ہیں۔ یہ چور دوازے سے نقب لگا کر اقتدار میں گھسنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور حصہ بقدر جثہ وصول کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اقدار کے بجائے اقتدار کی سیاست کرتی ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ بھی قیام پاکستان کے ساتھ اقتدار کے حصول کیلئے بنی تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ بننے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی کیونکہ مقصد صرف اقتدار کا حصول اور ملکی وسائل کی لوٹ مار تھا۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد پہلے دس سال میں سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ اور سیاستدانوں کی اس رسہ کشی کا فائدہ اٹھا کر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پہلے مارشل لا نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا کہ دوسرے مارشل لا کے دور میں پاکستان دولخت ہو گیا۔ آج مسلم لیگ کے ج‘ ن‘ ف‘ ق‘ ض کے نام سے کئی دھڑے ملکی سیاست میں موجود ہیں۔ بلکہ اب تو لاحقے اور سابقے لگانے کیلئے حروفِ تہجی بھی کم پڑ گئے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں کسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر تبدیل نہیں کی جاتیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے یا دیگر کسی وقتی مفاد کیلئے کوئی بھی سیاستدان کسی بھی وقت اپنی جماعت سے بے وفائی کر سکتا ہے۔ نہ کوئی سیاستدان جماعتی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت بار بار وفاداریاں بدلنے والے ضمیر فروشوں کو قبول کرنے میں کسی اصول پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ خواجہ آصف نے ٹھیک کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے۔ ان نام نہاد سیاسی جماعتوں نے اپنے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا۔ تمام بڑی جماعتوں کے عہدیداران بلامقابلہ انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے خفیہ اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں‘ لہٰذا یہ سیاستدان آپس میں بات کرنے کے بجائے انہی اداروں سے بات کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کے بجائے پاور پالیٹکس کی اسیر بن چکی ہے۔ ان جماعتوں کی طاقت ان کا منشور نہیں بلکہ کچھ شخصیات ہیں۔ اور ان کی ساری سیاست ان شخصیات اور ان کے مفادات کے گردگھومتی ہے۔
حقیقت میں سیاسی پارٹی یہاں پر کوئی بھی نہیں‘ سب پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں‘ اور وہ جس فیملی کی کمپنیاں ہیں ان کو وہ ڈلیور کرتی ہیں۔ اس لیے سیاست نام کی کوئی چیز اس ملک میں ہے ہی نہیں۔ پاکستان میں نہ کوئی سیاستدان ہے نہ کوئی لیڈر‘ ان لوگوں کو سیاستدان یا لیڈر کہنا ہی غلط ہے‘ یہ سارے کے سارے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے مالک ہیں اور وہ اپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے ذریعے کمائی کر رہے ہیں۔ جو بھی ان کا ایجنڈا ہے اس کو وہ پورا کر رہے ہیں۔ ملک کیلئے نہ کسی پارٹی کے پاس کوئی ایجنڈا ہے‘ نہ ملک کیلئے کسی پارٹی کے پاس کوئی سِکل یا حل ہے۔ نہ ملک کے مسائل کا ان کو کوئی علم ہے‘ نہ ہی ان مسائل پر کوئی بحث ہوتی ہے۔ نہ ہی ملکی مسائل پر یہ لوگ کوئی سوچ بچار کرتے ہیں‘ نہ ان کی نام نہاد سیاسی جماعت کا کوئی ریسرچ وِنگ ہے جو ملکی مسائل کے حوالے سے کوئی بات کرے۔ اس لیے یہ جو سیاسی جماعتیں ہیں‘ یہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں‘ بس سیاست کے نام پر ملک کے اندر کاروبار ہو رہا ہے۔ فیض احمد فیض بھی عمر بھر اسی بات کا رونا روتے رہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا؍ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر تحریک لبیک پاکستان تک جماعتوں کی سر براہی مخصوص خاندانوں کے افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔ کیا ان جماعتوں میں قحط الرجال ہے کہ ایک خاندان کے سوا کوئی ایک بھی سیاستدان پارٹی کا سربراہ بننے کے قابل نہیں؟ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بزرگ‘ تجربہ کار اور سینئر سیاستدان بھی اقتدار کی خاطر اپنے بچوں سے بھی چھوٹی عمر کے اور ناتجربہ کار پارٹی سربراہان کی ہر بات پر واہ واہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان ایسے گھٹن زدہ ماحول میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مثال بنا دیا جاتا ہے۔ کیا اسی کا نام سیاست ہے‘ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا ہمارے آئین میں ایسی ہی سیاست اور جمہوریت کا تذکرہ ہے؟ اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں تو آمریت کس شے کا نام ہے؟ یہاں پر ہی بس نہیں جب ہماری یہ سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو اندھوں کی طرح شیرینی صرف اپنوں ہی میں بانٹتی ہیں کیونکہ اس کی سیاست کو ذاتی مفادات کے گردہی گھومتے رہنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved