تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-11-2013

جنیوا مذاکرات

جنیوا میں ایران اور چھ ممالک جن میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین بھی شامل تھے،کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات دو دن تک جاری رہنے کے بعد بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔حالانکہ اطلاعات کے مطابق فریقین ایک سمجھوتے کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ اس سمجھوتے کے تحت جس مسودے کو ایران اور امریکہ کے نمائندوں نے مذاکرات میں شامل دیگر ملکوں کے نمائندوں سے مشاورت کے بعد طے کیا تھا،ایران اپنے جوہری پروگرام میں توسیع کے عمل کو عارضی طور پر معطل کرنے پر راضی ہوگیا تھا اور اس کے عوض مغربی ممالک ایران کے خلاف2006ء سے عائد اقتصادی پابندیوں کو نرم کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے لیکن فرانسیسی وزیرخارجہ لارین فیبس(Laurent Fabius)کی جانب سے مخالفت کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی اور یوں مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذاکرات میں حصہ لینے والے سفارت کار فرانس کے اس رویے پر سخت برہم ہیں اور اسے مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسودہ ایران اور امریکہ نے تیار کیا تھا اور اسے اس پر زبردستی ٹھونسا جا رہا تھا۔تاہم سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ فرانس نے یہ اقدام اسرائیل اور خلیج فارس کی ریاستوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر جن ملکوں کو تشویش ہے، اْن میں اسرائیل اور خلیج فارس کی عرب ریاستیںشامل ہیں۔اسرائیل نے تو شروع سے ہی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ اْس نے دھمکی دے رکھی ہے کہ ایران کو کسی قیمت پر ایٹمی طاقت نہیں بننے دیا جائے گااور اگر اس مقصد کیلئے یک طرفہ طاقت استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ فرانسیسی حکومت کا اصرار ہے کہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لیے سخت سے سخت اقدام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فرانس کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں اس کے بھاری پانی تیار کرنے کے ایک پراجیکٹ کو بند کرنے کی شرط شامل کی جائے جس کے بارے میں مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ وہاں سے ایران پلوٹونیم حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح ایران کو یورینیم کو افزودگی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ پلوٹونیم سے بھی ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔ فرانس کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیلی موقف کی حمایت اپنی جگہ،تاہم اس کی نظریں عرب اور خلیج فارس میں اپنے اہم تجارتی اور اقتصادی مفادات پر ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح فرانس بھی مالی بحران،کسادبازاری اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فرانس کو اپنے مال خصوصاً ہوائی جہازوں اور جنگی ہتھیاروںکیلئے بیرونی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں اس سامان کی کھپت کے روشن امکانات موجود ہیں۔کیونکہ ایک تو یہ ممالک تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والی دولت سے مالا مال ہیں اور دوسرے اوباما انتظامیہ کی طرف سے ایران کے ساتھ مصالحت کے حق میں حالیہ اقدامات سے خلیج فارس کی عرب ریاستیں،امریکہ سے ناراض ہیں۔فرانس کا خیال ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کی طرح سخت موقف اختیار کر کے ان ممالک کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ جنیوا مذاکرات نتیجہ خیز نہیں رہے، مگر حوصلہ افزا قرار دیے جاسکتے ہیں۔اس کاثبوت ہمیں اْن بیانات میں ملتاہے جو فریقین کے نمائندوں نے مذاکرات کے اختتام پر جاری کیے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات ماضی کے تمام مذاکرات کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ، گہرے اور جامع تھے۔ ان میں بہت سے مسائل کو حل کیا گیا اور باقی کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔مذاکرات کے اختتام پر ایرانی وزیرخارجہ محمد جاوید ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور 20 نومبر کو ہو گا۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذاکرات مثبت اور سود مند ثابت ہوئے ہیں اور ان کے نتیجے میں ایک تسلی بخش حل کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ وہ مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے اور ایک معاہدے پر دستخط نہ ہونے سے مایوس نہیں ہیں۔اْنہوں نے کہا کہ مذاکرات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام فریقین مسئلے کا حل چاہتے ہیں او ر اس مقصد کے حصول کیلئے پولیٹکل وِل (Political Will)موجود ہے۔ اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام ایک ہی ویو لینتھ(Wave Length)پر ہیں۔ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی مذاکرات پر اطمینان ظاہر کیا ہے دوسری طرف امریکی وزیرخارجہ جان کیری جنہوں نے خود ان مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کی،بھی مذاکرات سے خوش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا یہ دور نہایت مفید رہا۔ کیتھرین ایشٹن نے مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے’’ٹھوس پیش رفت‘‘حاصل ہوئی ہے۔برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ایک معاہدے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ بغیر کسی معاہدے کے مذاکرات کے اس دور کا اختتام ایک حد تک مایوسی کا باعث نظر آتا ہے تاہم جو لوگ اس مسئلے کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں‘ انہیں مذاکرات کے اس دور کے انجام پر حیرانی نہیں ہوئی۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ مذاکرات کے ایک آدھ دور سے حل ہونے والا نہیں۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے عمل کو بند کر دے‘ کیونکہ اسے جاری رکھنے اور ایک خاص سطح پر لے جانے سے ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت اختیار کرجائے گاجو مغربی ممالک کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ دوسری طرف ایرانی صدر روحانی نے ایک دفعہ پھر اعلان کیا ہے کہ ایران اپنے اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہو گا۔ البتہ مغربی ممالک اور بین الااقوامی برادری کے اطمینان کی خاطر ایران افزودگی کے عمل کو محدود اور ڈائون گریڈ کرنے کیلئے تیار ہے۔ بلکہ اسے عارضی طور پر معطل کرنے کیلئے بھی تیار ہے بشرطیکہ مغربی ممالک ایران کے خلاف عائد شدہ اقتصادی پابندیوں کو نرم کر دیں۔ امریکی صدر اوباما کی حکومت کے لیے اس مسئلے پر جلد ازجلد سمجھوتہ بہت ضروری ہے کیونکہ صدر اوباما ایران کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ مگراسرائیل اور امریکی کانگرس میں اسرائیل کے حامی ارکان کی طرف سے ان پر سخت دبائو ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے حصول سے روکا جائے۔یہ حلقے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنے کے حق میں ہیں بلکہ اس بات کے حامی ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اگر ایران یہ صلاحیت حاصل کرنے کی طرف مزید پیش رفت کرتا ہے تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved