بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں مرد اور خاتون کے قتل کی تفصیلات آپ نے پڑھ لی ہوں گی۔ یہ جان لیا ہو گا کہ یہ سانحہ کب‘ کیوں اور کیسے رونما ہوا۔ کیسے اور کب یہ وڈیو وائرل ہوئی اور کیسے قانون یکدم جاگ اٹھا۔ نہ صرف ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا اور عدالت میں پیش کر دیا گیا بلکہ جرگے کے فیصلے پر ایک مرد اور ایک خاتون کو قتل کرنے کی وڈیو وائرل ہونے کے بعد یہ معاملہ سینیٹ میں بھی پہنچ گیا‘ جہاں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے مل کر اس واقعے کی شدید مذمت کی جبکہ ذمے داروں کو پھانسی دینے‘ وزیراعلیٰ‘ کابینہ اور آئی جی کے استعفوں کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
اس واقعہ کا غم ابھی ذہنوں سے پوری طرح محو نہیں ہوا تھا اور مقتولین کے بے گناہ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا دکھ‘ درد‘ کرب اور تکلیف ابھی فرو نہیں ہوئی تھی کہ راولپنڈی کے علاقے پیر ودھائی میں غیرت کے نام پر شادی شدہ خاتون کے قتل کا انکشاف سامنے آ گیا۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی خبر میں بتایا گیا کہ علاقہ مجسٹریٹ قمر عباس نے مقتولہ کی قبر کشائی کا حکم دیا اور کہا کہ پولیس کے مطابق لڑکی کو قتل کیا گیا اس لیے لاش کا پوسٹ مارٹم کرنا ضروری ہے۔ پولیس کے مطابق خاتون کے قتل کے الزام میں آٹھ سے زائد افراد کو گرفتارکر لیا گیا ہے جن میں خاتون کی فیملی کے افراد بھی شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے شوہر نے لڑکی کے گھر سے چلے جانے کا مقدمہ 21جولائی کو درج کرایا تھا۔
یہ تو اپنی نوعیت کے محض دو واقعات ہیں۔ پتا نہیں روزانہ کتنی خواتین وقت‘ زمانے‘ سماج‘ رسوم اور نام نہاد غیرت و عزت نام کی کون کون سی صلیبوں پر چڑھ جاتی ہوں گی یا چڑھا دی جاتی ہوں گی۔ اور صرف خواتین ہی نہیں چڑھتیں‘ مرد بھی چڑھتے ہیں۔ بس خواتین کا نام ذرا زیادہ لیا جاتا ہے۔ انہیں سپیس کچھ زیادہ دی جاتی ہے۔ بلوچستان میں رونما ہونے والا کیس چونکہ عدالت میں زیر غور ہے اس لیے اس پر بات نہیں کی جا سکتی کہ منصف کی کرسی پر بیٹھے ذی وقار جج صاحبان معاملات کو پرکھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی بہتر صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ البتہ اس مسئلے کے اس پہلو پر بات کرنے میں شاید کوئی مضائقہ نہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات کب کب‘ کہاں کہاں‘ کیسے اور کیوں رونما ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ماورائے عدالت مقامی جرگے اور سردار مرد و خواتین کو ناجائز تعلق کے الزام (محض الزام میں) میں قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ جسے بلوچستان میں سیاہ کاری اور سندھ کے کچھ علاقوں میں کاروکاری کا نام دیا جاتا ہے۔ عزت‘ غیرت اور ناموس کے نام پر قتل کی وارداتیں کس قدر زیادہ ہو چکی ہیں‘ اس کا اندازہ اس میڈیا رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف صوبہ سندھ میں رواں برس (2025ء) جولائی تک کاروکاری قرار دے کر 110افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ قتل ہونے والوں میں 82خواتین اور 28مرد شامل ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ رینج میں رونما ہوئے جہاں 48افراد کو قتل کیا گیا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2022ء میں 152خواتین کو کارو کاری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ 65مردوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ اس سال مجموعی طور پر 217انسانوں کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں ملک بھر میں جنوری تا نومبر 392خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔
یہ ان واقعات کا ذکر ہے جو میڈیا کی نظروں میں آ گئے‘ جو قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں میں رپورٹ ہو گئے یا جن کے سامنے آنے کی وجہ سے قانون کو متحرک ہونا پڑا‘ پتا نہیں کتنے واقعات سامنے ہی نہیں آتے ہوں گے‘ رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہوں گے۔ سطورِ بالا میں پیش کردہ اعداد و شمار سے بہرحال یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ کاروکاری اور اسی نوعیت کی دوسری رسوم کے نام پر قتل کے دوسرے واقعات کی ملک بھر میں کل تعداد کیا ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی۔ خاموشی سے بے گناہ انسانی جانوں کا قتل کر دیا جاتا ہے اور اس پر کسی قسم کی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ الٹا اسے رسوم و رواج کا نام دے کر اپنے قتل کے گناہ کو دبانے یا کور کرنے اور چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اس غیرقانونی اور غیرمذہبی سرگرمی کو جواز کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دور کیا جانا‘ بلوچستان کے واقعہ میں مقتولہ کی والدہ کا بیان ہی ایک دفعہ پڑھ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے رسوم و رواج کو ملکی قوانین اور مذہبی احکامات سے بھی بڑھ کر کوئی چیز مان رکھا ہے۔
ہمارے ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مناسب قانون سازی ہوئی ہے مگر یہ قوانین بہت پیچیدہ ہیں اور جب تک مزید بہتر قوانین نہیں بنائے جاتے‘ اس طرح کے واقعات میں کمی ممکن نظر نہیں آتی۔ دو اور مسائل بھی ایسے واقعات کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلا وہی پرانا اور کہنہ مسئلہ کہ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی کوئی جامع کوشش نظر نہیں آتی۔ قوانین پر عملدرآمد سے مراد ایسا عملدرآمد ہے جس میں کوئی جرگہ‘ گاؤں کی کوئی پنچایت‘ کوئی وڈیرا یا کوئی بااثر ماورائے عدالت قتل کی اجازت یا حکم دیتے ہوئے ایک بار ضرور کانپ جائے۔ دوسرا مسئلہ وہی اثر و رسوخ والا ہے کہ با اثر اپنی دولت کے بل پر ساز باز کر لیتے ہیں تاکہ معاملے کو عدالت تک جانے سے پہلے ہی روک لیا جائے۔ پھر قوانین تو موجود ہیں لیکن ان میں صلح کی گنجائش بھی موجود ہے اور ظاہر ہے کہ جب فریقین میں صلح ہو جاتی ہے تو ملزم بہ آسانی رہا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بہتر قوانین میں سے ایسے سقموں کو دور کیا جائے جو ملزموں یا مجرموں کے لیے چور راستے کا کام دیتے ہیں۔
کاروکاری‘ چھوٹی بچیوں کی زیادہ عمر کے مردوں کے ساتھ شادی‘ وَٹے سٹے کی شادیوں میں خاتون کو قربانی کا بکرا بنانا‘ دو خاندانوں میں صلح کے نام پر کم عمر لڑکیوں کا دوسرے خاندان کے مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جانا‘ جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے خواتین کی شادی نہ کرنا‘ انہیں جائیداد میں سے ان کا حصہ نہ دینا‘ بات نہ ماننے یا شادی نہ کرنے پر خاتون کے چہرے پر تیزاب پھینکنا‘ بلا وجہ طلاق‘ جہیز نہ لانے یا کم لانے کی پاداش میں خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا جیسے ظلم اب ہمارے معاشرے اور سماج میں راسخ ہو چکے ہیں‘ اتنے راسخ کہ خود مقتولہ کی ماں ظالموں کے حق میں بولنے کے لیے آگے آ جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ سارا قصور مردوں‘ معاشرے اور رسوم و رواج کا ہے اس بگاڑ میں کچھ حصہ خواتین کا اپنا بھی ہے۔ وہ اگر گھر کی طرف توجہ نہیں دیں گی‘ اپنے شوہر اور اپنی فیملی کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گی‘ اپنے جیون ساتھی پر دوسروں کو برتر رکھیں گی تو ظاہر ہے کہ پھر بگاڑ ہی پیدا ہو گا۔
میری نظر میں کاروکاری اور سوارہ جیسی رسوم کے خاتمہ کا صرف اور صرف ایک طریقہ ہے۔ اس حوالے سے موجود قوانین میں حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب ترامیم۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved