تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-07-2025

ہر مسئلہ ہمارا مسئلہ ہے

26جولائی کے اخبار سے دو خبریں:
1: راولپنڈی میں 19برس کی شادی شدہ عورت کو قتل کر دیا گیا۔ سات ماہ پہلے ہی اس کی شادی ہوئی تھی۔ خاوند نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی کہ وہ گھر سے بھاگ گئی ہے اور اس نے ایک دوسرے آدمی سے 'غیرشرعی نکاح‘ کر لیا ہے۔
2: قصور کے قصبے کوٹ رادھا کشن میں کھیتوں سے چودہ سال کی لڑکی‘ زخمی حالت میں ملی۔ اس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ ہسپتال پہنچنے تک وہ دم توڑ گئی۔ آلۂ قتل کھیت ہی سے مل گیا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ لڑکی کون تھی۔
میں تلاش کرتا تو اس نوع کی مزید خبریں بھی مل سکتی تھیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی۔ ایک نوجوان گھر میں چند خواتین کی موجودگی میں ایک خاتون پر وحشیانہ انداز میں تشدد کر رہا تھا۔ دکھائی دیتا تھا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ وہ لاتوں اور ایک برتن کے ساتھ اسے مار رہا تھا اور اسے اس کی ذرا برابر پروا نہیں تھی کہ چوٹ جسم کے کس حصے پر لگ رہی ہے۔ خواتین پہلے تو دیکھتی رہیں اور پھر ایک بڑی عمر کی خاتون اس لڑکے کو رسماً روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ اخبار میں ایک خبر نظر سے گزری کہ حاملہ بیوی پر تشدد کرنے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ وہی لڑکا تھا۔ خبر سے البتہ یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ وہی لڑکا تھا جس کی وڈیو وائرل ہوئی ہے۔
ان خبروں کو مدرسے میں تشدد کی خبروں سے ملا کر پڑھیے۔ آپ کو اس معاشرے کی ایک تصویر ملے گی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں تشدد کا راج ہے۔ گھر‘ مدرسہ‘ بازار‘ ایوانِ سیاست‘ محراب و منبر‘ میڈیا‘ ہر جگہ سے انتہا پسندانہ اور پُرجوش آوازیں اٹھتی سنائی دیں گی۔ کوئی منبر پر کھڑا جج صاحبان کو قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔ کوئی مدرسے میں بچوں کو مار رہا ہے۔ کوئی گھر میں بیوی پر تشدد کر کے اپنی مردانگی کا ثبوت دے رہا ہے۔ اخبار قتل کی خبروں سے بھرے ہیں۔ لگتا ہے تشدد اس سماج کے رگ و پے میں اُتر گیا ہے۔ انتہا پسندی‘ جو تشدد کی بنیاد ہے‘ اب اقلیت کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے حل کر نا ہو گا۔
انتہا پسندی کچھ اس طرح سے ہمارے مزاج میں در آئی ہے کہ بظاہر اصلاح کا علم اٹھانے والے بھی لاشعوری طور پر انتہا پسندی کی آبیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب اس نظام کو تیزاب سے غسل دینے کی بات کرتے ہیں تو دراصل انتہا پسندی کے فروغ میں شریک ہوتے ہیں۔ تیزاب سے غسل دینے کی ترکیب ایک نارمل دماغ میں جنم نہیں لے سکتی۔ یہ ترکیب بتا رہی ہے یہ کسی انتہا پسند ٹیکسال میں ڈھلی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کہنے والے کو خود اس کا ادارک نہ ہو مگر الفاظ کا انتخاب بتاتا ہے کہ یہ ایک انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ بظاہر یہ لوگ انتہا پسندی کے سخت خلاف ہوں گے اور یہ کسی منافقانہ طرزِ عمل کی وجہ سے نہیں ہو گا۔ وہ سنجیدگی کے ساتھ انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہوں گے مگر انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اصلاح کے جوش میں دراصل انتہا پسندی ہی کو فروغ دے رہے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ ٹھیکیداری ہے جو انتہا پسندی کی بنیاد ہے۔ کوئی مذہب کا ٹھیکیدار ہے اور کوئی پاکستان کا۔ کوئی روایت کا اور کوئی صوبے کا۔ کون مسلمان ہے جو دین یا اس کے شعائر کی بے حرمتی کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ ہم میں مگر کچھ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو دوسروں کو بغیر دلیل کے‘ اگر مجرم نہیں تو مشکوک ضرور بنا دیتے ہیں۔ اسی ٹھیکیداری کا مظاہرہ پاکستان کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ چند افراد محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر دوسروں کو غدار اور 'مودی کا یار‘ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ زیادہ محبِ وطن دکھائی دیں گے۔ یہ بیمار ذہنیت بھی انتہا پسندی کا باعث بنتی ہے۔ ہم مذہبی احساس اور حب الوطنی سمیت ہر جذبے کا دائرہ سکیڑ تے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں ذرا سا اختلاف کرنے والا بھی اس دائرے سے باہر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اسی سے تنگ نظری پیدا ہوتی ہے۔
گھریلو تشدد کا مرتکب بھی ایک نفسیاتی مریض ہوتا ہے۔ اس کے اسباب بھی بہت سے ہیں۔ پدر سری معاشرت‘ مذہبی تعبیرات‘ غیرت کے جاہلانہ تصورات۔ یہ سب توازن سے محرومی کا اظہار ہیں۔ توازن سے محرومی آدمی کو انتہا پسند بنا دیتی ہے۔ ایسا مریض نہیں جانتا کہ کمزور پر ہاتھ اٹھانا کمزوری کی دلیل ہے نہ کہ بہادری کی۔ اگر آپ عورت کو اپنے جیسا نہیں سمجھ سکتے تو اسے احترام کا مستحق تو سمجھیں۔ ایسا شخص جعلِ مرکب کا مظہر ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا فرد کبھی اپنے مرض سے واقف نہیں ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ اکثر ذہنی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے۔ یوں سماج میں ان کی بیماری سرایت کرتی چلی جاتی ہے۔ جو اِن سے جتنا قریب ہے‘ اتنا ہی اس کی زد میں ہے۔ جیسے بیوی۔
مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی سے ہم سب واقف ہیں کہ کیسے انہوں نے ہماری پُر سکون معاشرت کو اضطراب اور تشدد سے آلودہ کر دیا ہے۔ ستم در ستم یہ ہے کہ ہم اسے اپنا مسئلہ ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ کسی فرد یا گروہ کو اس جانب متوجہ کیا جائے تو خود احتسابی کے بجائے‘ اس کا دفاعی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں میں بھی انتہا پسندی کے مظاہر تلاش کر کے خود کو مطمئن کرنے اور دوسروں کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس بند گلی سے نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے اگر ہم اس پر قدم رکھنے پر آمادہ ہوں۔
ہم ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھیں۔ ممکن ہے ہمارا مدرسے سے براہِ راست کوئی تعلق نہ ہو لیکن مدرسے میں ہونے والا تشدد ہمارا مسئلہ بن جانا چاہیے۔ ممکن ہے اللہ نے ہمارے گھر کو گھریلو تشدد جیسے عذاب سے محفوظ رکھا ہو مگر محلے میں کسی گھر میں ہونے والا ایسا واقعہ ہمیں متاثر کرتا ہے‘ اس لیے وہ ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم ممکن ہے ذاتی سطح پر دشنام کی سیاست سے آلودہ نہ ہوں مگر سوشل میڈیا پر برپا بدتمیزی کے اثرات سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ سماج میں جزیرے نہیں بنتے کہ ہر جگہ انتہا پسندی ہو اور ہم اس سے محفوظ ہوں۔ ہم اگر اجتماعی سطح پر سوچنے کی عادت ڈالیں تو ایک دوسرے کی خامی کو اپنی خامی سمجھتے ہوئے اس کی اصلاح کیلئے اجتماعی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کی خوبی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے لعن طعن کی عادت بھی چھوٹ سکتی ہے جس میں ہم سب مبتلا ہیں۔ مذہبی طبقہ لبرل کو ملامت کرتا ہے اور لبرل اہلِ مذہب کو۔ اجتماعی سوچ ہمیں اس طرح کے اخلاقی رزائل سے بچا سکتی ہے۔
پاکستان کو ہماری اجتماعی 'اونر شپ‘ کی ضرورت ہے۔ ہر مسئلہ ہمارا مسئلہ ہے اور ہمیں اسے مل کر حل کرنا ہے۔ یہ سماجی بیداری کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر سماج میں خود غرضی ہوتی ہے۔ یہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ اس سے گریز محال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ غالب سوچ کیا ہے؟ اجتماعی مفاد اگر غالب رہے تو خود غرضی کے مضر اثرات سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔ ایسے سماجی اداروں کا ہونا لازم ہے جہاں اجتماعی مسائل زیرِ بحث آئیں۔ این جی اوز نے یہ کام کیا ہے مگر انہیں سماج کی اونر شپ نہیں مل سکی۔ پہلا مرحلہ شعوری سطح پر اس بات کو قبول کرنا ہے۔ اگر ہم اس سے گزر گئے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے مراحل آسان ہو جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved