تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     29-07-2025

قومی مفادات پر مرکوز خارجہ پالیسی

پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے بنیادی اصول پر قائم رہی ہے۔ یہ پالیسی کسی ایک عالمی بلاک یا طاقت پر مکمل انحصار کے بجائے کثیر جہتی تعلقات پر یقین رکھتی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ متوازن اور جامع تعلقات استوار کرتا ہے‘ تاہم اس متوازن نقطہ نظر کے باوجود جب بھی پاکستان کسی بڑی عالمی طاقت‘ خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بناتا ہے تو اکثر یہ مفروضے اور قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگتی ہیں کہ پاکستان اب کسی مخصوص بلاک کا حصہ بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ پاکستان کے دیرینہ اور گہرے دوست چین کے ساتھ اس کے تعلقات کمزور پڑ جائیں گے۔مگر ان مفروضوں میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی فلسفہ توازن ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن کی بہترین مثال یہ ہے کہ جب ایک جانب وزیر خارجہ اسحاق ڈار امریکہ میں تھے تو دوسری جانب فیلڈ مارشل عاصم منیر چین میں موجود تھے۔ یہ صورتحال واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان بیک وقت مختلف عالمی طاقتوں کے ساتھ فعال روابط برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف عالمی طاقتوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کر کے ہی پاکستان اپنے جغرافیائی وسیاسی اور اقتصادی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ یہ توازن کسی ایک طاقت کے ساتھ خصوصی وابستگی کا نہیں بلکہ سٹرٹیجک خودمختاری کا مظہر ہے جہاں پاکستان اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادانہ فیصلے کرتا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد کسی ایک بلاک کے ساتھ بندھ کر دیگر اہم تعلقات کو نظر انداز کرنا نہیں بلکہ مختلف عالمی شراکت داروں کے ساتھ فعال روابط کو برقرار رکھنا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کو عموماً پاک چین تعلقات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے‘ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ان تعلقات کو پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں پرکھنا زیادہ درست ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ روایتی طور پر عالمی سفارت کاری میں بھارت کا پلڑا بھاری رہا ہے‘ تاہم مئی کی پاک بھارت جنگ کے بعد کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کی بہترین سفارتکاری نے عالمی سطح پر اپنا مؤقف نہایت عمدگی سے پیش کیا اور اسی کے نتیجے میں بھارت کو سفارتی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں بلکہ پاکستان کی متحرک اور مؤثر خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنا بیانیہ مؤثر طریقے سے پیش کیا جس سے نہ صرف بھارت کے جارحانہ عزائم کو بے نقاب کیا گیا بلکہ عالمی برادری کو پاکستان کے نقطہ نظر کو سمجھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ یہ سفارتی کامیابی آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کا ایک اہم جزو ہے جو اسے خطے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ آج بھی پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کامیابیوں کی نئی منازل طے کر رہی ہے۔
پاکستان کا امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا اس کی سفارتی دانش اور کامیابی کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو پاکستان کے قومی مفادات کو تقویت دیتا ہے اور اسے عالمی سطح پر مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہنا کہ پاکستان امریکہ کی طرف ہے یا چین کے ساتھ ہے‘ ایک غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان کے امریکہ اور چین‘ دونوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت یکسر مختلف ہے اور انہیں مختلف نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دفاعی‘ اقتصادی اور علاقائی استحکام کے تناظر میں اہم ہیں۔ امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصے سے تعاون جاری ہے جو علاقائی سلامتی اور انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو مختلف ترقیاتی منصوبوں میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ تعلقات باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر قائم ہیں۔
دوسری جانب چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کوآل ویدر فرینڈشپ سے جانا جاتا ہے۔ یہ تعلقات جغرافیائی وسیاسی استحکام‘ اقتصادی ترقی اور دفاعی تعاون پر مبنی ایک گہری سٹرٹیجک شراکت داری کی مثال ہیں۔ چین پاکستان کا ایک قابلِ اعتماد دوست اور اتحادی ہے‘ خاص طور پر مشکل وقتوں میں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اس گہری دوستی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جو پاکستان میں توانائی‘ انفراسٹرکچر اور صنعت کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری لا رہا ہے۔ سی پیک کا مقصد نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کو تیز کرنا ہے بلکہ پورے خطے کو ایک مربوط تجارتی نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا بھی ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی چین پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون باقاعدگی سے جاری رہتا ہے۔ چین کی حمایت نے پاکستان کی علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعلقات منفرد گہرائی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں‘ جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کا مطلب چین کے ساتھ تعلقات کی کمزوری نہیں۔ پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ توازن برقرار رکھے اور اپنے قومی مفادات کے لیے دونوں سے فائدہ اٹھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی بھی ''یا یہ یا وہ‘‘ کے اصول پر نہیں چلی‘ بلکہ یہ ہمیشہ سے ''یہ بھی اور وہ بھی‘‘ کے اصول پر مبنی رہی ہے۔ پاکستان مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ ان کی اہمیت اور پاکستان کے مفادات کے تناظر میں دیکھتا ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران دیا گیا بیان کہ ''پاکستان چین اور امریکہ دونوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے‘ امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے ہیں لیکن ان تعلقات کو چین کے ساتھ دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے‘ پاکستان دونوں ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتا ہے مگر کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘‘ اس حقیقت کو تقویت دیتا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ پاکستان دونوں ممالک سے اپنے تعلقات کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھتا ہے اور ایک تعلق کا مطلب دوسرے سے لاتعلقی نہیں سمجھتا۔ یہ بیان عالمی سطح پر پاکستان کے خود مختار سفارتی کردار کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آزادانہ فیصلے کرتا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا راز اس کی لچک‘ عملیت پسندی اور قومی مفادات کو مقدم رکھنے میں ہے۔ پاکستان اپنے مفادات کے تحت تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک متوازن اور نتیجہ خیز رشتہ چاہتا ہے تاکہ خطے اور عالمی سطح پر امن واستحکام کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ پالیسی صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے‘ کیونکہ یہ طاقت کے توازن کو برقرار رکھتی ہے اور تنازعات کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہدف ہمیشہ سے ایک پُرامن‘ مستحکم اور خوشحال دنیا کا قیام رہا ہے‘ جہاں تمام ممالک باہمی احترام اور تعاون کے ساتھ رہ سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved