ماشاء اللہ ہمارے پاس حکمران بہت ہیں ، سیاست دان بھی بکثرت ہیں، جماعتوں کے رہنما بھی بیسیوں ہیں ، پشتو اصطلاح کے مطابق مِشران (Elders)اور چوہدری ، وڈیرے ، خوانین اور Gangstersبھی وافر تعداد میں ہیں، بلکہ اگر موجودہ روش برقرار رہی تو خدانخواستہ آگے چل کر یہ پیارا وطن Warlords کے حلقہ ہائے اثر میں منقسم ہوجائے گا، ریاست اور حکومت کا نام محض تعارف اور برکت کے لئے رہ جائے گا۔ آج ہمارے وطنِ عزیز کے انسانی ہجوم میں ہمیںجس نایاب انسانی جوہر اور ہیرے کی تلاش اور ضرورت ہے ، تو وہ ایک قائد اور مُدبِّر (Statesman)ہے ، جو فی الوقت بحیثیت قوم ہم میں مفقود ہے۔ قیادت کی خصوصیات یہ ہیں: اﷲتعالیٰ کی ذات پر توکل ، خوداعتمادی، جرأت وجسارت ، دینی ، ملّی اور قومی غیرت وحمیّت ، عزیمت واستقامت ، فکری استحکام کے ساتھ ساتھ نصب العین کا تعین کرکے نفع ونقصان کی پروا کیے بغیراعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے یکسوئی ضروری ہے۔ مزید برآں قوم کا غیرمتزلزل اعتماد حاصل کرنے کے لیے دیانت وامانت ، ایفائِ عہد اور قول وفعل میں مطابقت ضروری ہے ،اوریہ کہ قوم کو دھوکے میں نہ رکھے، فریب نہ دے اور بلا کم وکاست قوم کے سامنے حقائق بیان کرے۔یہ قائد اعظم کی بے لوث قیادت ہی تھی کہ برّصغیر کے مسلمان انگریزی استعمار اور ہندو غلبے کے باوجود پاکستان کی صورت میں ایک آزاد وخود مختار اسلامی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن یہ قیادت کا فقدان ہی تھا کہ قائدِ اعظم کا قائم کیا ہوا پاکستان اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہا اور 16، دسمبر 1971ء کو دولَخت ہوگیا۔ آج ایک بار پھر پاکستان انتہائی حوصلہ شکن اور پیچیدہ صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اپنا سالانہ بجٹ بنانے کے لئے ہمیں ہمیشہ بھاری خسارے کا سامنا کرنا ہوتاہے۔بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے بجائے ہمیں واجب الادا اقساط کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور اس طرح ہر سال معاشی غلامی کی زنجیروں کے آہنی حلقے (Circles of Chain) ہمارے قومی وملکی اور ملّی وجود کے اردگرد کسے جاتے ہیں اورظاہری اسباب میں ان سے نجات کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔ ملک کے داخلی قرضوں کا حجم بھی بیرونی قرضوں سے کم نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کے جی پی فنڈ ، بہبود فنڈ، مختلف طرح کے سیونگ سرٹیفکیٹ ، ڈیفنس سرٹیفکیٹ ، انعامی بانڈز اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد مالی واجبات اور سودی واجبات ،یہ سب داخلی قرضے کی مختلف صورتیں ہیں ۔ دفاع کے علاوہ داخلی سلامتی پر ہمارے مختلف النوع مصارف اس کے علاوہ ہیں، جن میں اداروں اور شخصیات کا تحفظ ، غیرملکی سفارت خانوں کا تحفظ ، داخلی بغاوت یا خروج (Insurgency)پر اُٹھنے والے مصارف شامل ہیں۔ اس کے باوجود ہماری سرحدوں کے اندر بہت سے علاقوں پر ہماری حکومت کی عملداری (Writ)قائم نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ میں موجود مختلف جماعتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ حکومتِ وقت کو جوش دلا کر بند گلی میں لے جائیں اور پھر اسے بے بس اور بے حال کرکے اقتدار سے محروم کردیں ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس سیاسی محاذ آرائی کی قوم کو کیا قیمت چکانی پڑے گی اور یہ کہ پھر قوم کے سامنے متبادل راستہ اور حل کیا ہے؟۔یہی وجہ ہے کہ 1958ء ، 1969ء ،1977ء اور 1999ء کی سیاسی کشمکش اورخلفشار کا نتیجہ ہر بار مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔ آزاد کشمیر کی جنگ بندی لائن آگے چل کر لائن آف کنٹرول میں تبدیل ہوئی اور سیاچن اور کارگل سے ہاتھ دھونے پڑے ۔9/11کے بعد تو ملک کی تقدیس ، داخلی سلامتی اورقومی رازوں کے تحفظ کا کوئی تصورہی باقی نہ رہا۔ ملک کے ہوائی اڈے ، بندر گاہیں ، زمینی راستے ، فضائی حدود سب کچھ امریکہ کے لئے مباح کردیا گیا ۔ ہمارے ملک میںغیرملکی جاسوس اداروں کا جال بچھا دیا گیا۔ بیرونی جاسوسوں کو تھوک کے حساب سے سفارتی ویزے کبھی دبئی میں اور کبھی اسلام آبادائیرپورٹ پر جاری ہوتے رہے، اصلی اور فرضی ناموں کی تمیز بھی باقی نہ رہی اور نہ ہی پاکستانی ویزے کے حاملین کا کوئی اَتَاپتا کسی کے پاس محفوظ رہا ۔واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے بارے میں مسلسل کہا جاتارہا کہ وہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر ہیں ۔ یہ تو سپریم کورٹ کی کارروائی (Proceedings)کے دوران معلوم ہوا کہ کئی ملین ڈالر واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کا خفیہ بجٹ تھا ، جس کا کوئی حساب کتاب دستیاب نہیں، یعنی یہ ناقابلِ محاسبہ (Unauditable)بجٹ تھا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہم پر تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار ملکی قوانین اورساڑھے بارہ ہزار بین الاقوامی قوانین حاکم ہیں۔اور آج کی دنیا کے عالمی قَریہ (Global Village) ہونے کی وجہ سے عالَمی گاؤں کے وڈیرے کے شکنجے سے نکلنا آسان نہیں ہے ۔ اس کا اندازہ دنیا کو اس حقیقت سے بخوبی ہوگیا ہے کہ ماضی کی سپر پاور ز اور استعماری طاقتوں(برطانیہ، فرانس، جرمنی بلکہ پورے یورپ) کے حکمرانوںکے ٹیلی فون اور ای میلز کی جاسوسی ہوتی رہی اور ان کی شخصی اور ریاستی معاملات میں رازداری ختم ہوکر رہ گئی، حالانکہ یورپ امریکہ کا ہمیشہ سے اتحادی رہا ہے ۔الغرض سابق امریکی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا یہ قول بالکل درست ہے کہ اگر امریکا تمہارا دشمن ہے تو تمہیں اس سے خطرہ ہے اور اگر تم امریکہ کے دوست ہو تو پھر تمہیں اس سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے باوجود ہم بین الاقوامی معاہدے بھی پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ لیے بغیرمحض روا روی میں کردیتے ہیں اور پھر وہ ہمارے گلے کا طوق بن جاتے ہیں ،’’ نہ پائے رفتن ،نہ جائے ماندن‘‘والی کیفیت ہوجاتی ہے۔پاکستانی مفادات کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ ناقص ہونے کی وجہ سے آج بھارت پاکستان کو قطرہ قطرہ پانی کے لئے ترسانے کے پروگرام بنا رہا ہے اورجن دریاؤںپر بین الاقوامی قوانین اور انسانی تاریخی روایات کی رُو سے پاکستان کا مُسلّمہ حق تھا ، بھارت ان پرلاتعداد آبی ذخائر یعنی ڈیم بنا رہاہے۔ ہمارے حصے میں صرف تباہی وبربادی کے لئے سیلابی پانی رہ جاتاہے۔ اور قومی اعتبار سے ہماری نالائقی کا عالم یہ ہے کہ ہم تباہی لانے والے اس پانی کو ذخیرہ کرکے اپنی زرعی آبیاری کی بھی کوئی تدبیر نہیں کرسکے۔یہی حال آئی پی پی معاہدوں ، رینٹل پاور پروجیکٹس اور ریکوڈک پروجیکٹ کا ہوا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے کچھ جزوی بچت ہوگئی ، ورنہ رینٹل پاروپروجیکٹ کو بجلی پیدا کیے بغیر ادائیگیاں کردی گئی تھیں، مگر میڈیا پر رونقوں اور پروپیگنڈے کے علاوہ کبھی کسی کا حقیقی معنی میں احتساب نہیں ہوا اور شاید آئندہ بھی نہ ہوسکے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ قیادت ہمت سے کام لے کر قوم کو حقائق سے آگاہ کرے ، بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین مل کر ایک لائحۂ عمل تیار کریں اور اس کے نتائج اور ذمّے داریوں کو بھی قبول کریں ، کسی ایک پر لَعن طَعن کرکے باقی سیاسی رہنمااپنی قومی ذمّے داریوں سے کنارہ کش نہ ہوں ، یعنی ہمیں اس وقت اجتماعی دانش اور ایسی اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے جو نہ خود دھوکا کھائے اور نہ قوم کو دھو کا دے ۔ قیصر (Roman Empire)کا سیاسی نمائندہ مدینۂ منورہ آیا اور لوگوں سے پوچھنے لگا کہ تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے ؟۔ صحابۂ کرام نے بتایا: ہمارے ہاں بادشاہ نہیں ہوتا ، ایک امیر ہوتاہے اور اس کا محل نہیں ہوتا، اس کا رہن سہن عام لوگوں کی طرح ہوتاہے۔ اس نے پوچھا کہ تمہارا امیر کہاں ہے؟، اُسے بتایا گیا کہ وہ تمہیں مسجدِ نبوی میں مل جائے گا۔ اس نے دیکھا کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں ننگی زمین پر اپنے بازوکو سرہانا بنائے ہوئے لیٹے ہیں ۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا ، اس نے پوچھا کہ تمہارے امیر کو سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے ، انہوں نے کہا: نہیں ، کیوں کہ ہمارا امیر نہ دھوکا دیتا ہے اور دھوکا کھا تاہے ۔شاید ہمیں کچھ عرصہ مشکلات کا گزارنا پڑے ، لیکن فیصلے عوامی مقبولیت (Popular)کے نہ کیے جائیں بلکہ دینی ، ملّی اور قومی مفاد پر مبنی فیصلے کیے جائیں ، جن کے فوری اور دیر پا نتائج سے قوم کو پیشگی آگاہ کرکے ذہنی اور عملی طور پر تیار کیا جائے ، لیکن اس کے لیے ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قائدین کو اپنے آپ کو مثال بنا کر پیش کرنا ہوگا، ورنہ لفظوں کے کھیل سے قوم کا اعتماد حاصل نہیں ہوگا ۔ امریکہ یا اہلِ مغرب پر اعتماد کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اپنی قوم کی اجتماعی صلاحیتوں پر اعتماد کرکے بھی دیکھ لیں ، اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ ماضی کی نسبت بہترنتائج برآمد ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved