چند روز پہلے بلوچستان کے ایک دور داز علاقے میں جو افسوسناک واقعہ ہوا تھا‘ ہمارا خیال تھا کہ ایسا واقعہ شایدکسی شہر میں نہیں ہو گا۔ لیکن ابھی بلوچستان میں بانو اور احسان کے قتل پر بات ہو رہی تھی اور گرفتاریاں جاری تھیں کہ راولپنڈی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے دل دہلا دیا۔ راولپنڈی میں جرگے کے فیصلے پر ایک 19 سالہ لڑکی کو قتل کر دیا گیا اور اسے فوراً دفن کرکے قبر کا نشان بھی غائب کر دیا گیا۔ یہ واقعہ کسی دور دراز گاؤں یا قبائلی علاقے میں نہیں ہوا بلکہ وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں ہوا ہے‘ اور جرگے کے جس سربراہ کی منظوری سے یہ قتل ہوا وہ بھی کوئی نامعلوم بندہ نہیں ہے بلکہ ایک سابق کونسلر ہے جس کے خلاف ماضی میں ایک ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے لیکن تب وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی مدد سے بچ نکلا تھا۔
مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں سیاسی رہنما کے اس لیے حامی ہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں کم برا ہے۔ میں اس دلیل سے کبھی مطمئن نہیں ہوا اور نہ ہی میں اسے مانتا ہوں۔ جو لوگ اس کم برائی والے فلسفے کو مانتے ہیں وہ صرف خود کو دھوکا دیتے ہیں۔ جب کچھ عرصہ بعد یہی چھوٹی برائی بڑی بن کر اُن پر حملہ آور ہوتی ہے تو پھر سب کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور وہ کوئی نئی چھوٹی برائی ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ چند برس بعد جب وہ برائی بھی حد سے بڑی ہو جاتی ہے تو پھر سے نئی کم برائی ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے‘ اور رہے گا۔ میں نے بہت قریب سے ان کم یا چھوٹی برائیوں کو دیکھا ہے کہ کیسے وہ دیکھتے ہی دیکھتے بڑے جرائم بنتی ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو راولپنڈی کے اس سدرہ کیس کو ہی دیکھ لیں۔ اگرچہ آپ کو یہ چھوٹی سی بات لگے گی لیکن اس کے پیچھے ایک انسانی نفسیات ہے کہ ہر وہ بیماری یا بندہ جسے موقع ملتا جائے گا وہ ابھرتا جائے گا اور پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا جائے گا۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ جس عصمت خان نامی شخص پر جرگے کے فیصلے اور لڑکی کے قتل کا الزام ہے‘ ماضی میں اس پر ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ تعلق کی وجہ سے بچ نکلا۔ حالیہ سدرہ قتل کے بعد عصمت خان کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ راولپنڈی کے ایک بازار میں سرعام کلاشنکوف سے اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے۔ اس کے اس عمل سے لگ رہا ہے کہ جیسے یہ راولپنڈی کا بازار نہیں بلکہ قبائلی علاقہ ہے جہاں وہ جب چاہے فائرنگ کر سکتا ہے۔ جب یہ وڈیو سامنے آئی اور انکشاف ہوا کہ یہی وہ عصمت خان ہے جس نے جرگہ کرکے لڑکی کو موت کی سزا سنائی تھی تو راولپنڈی پولیس نے بڑا حیران کن بیان دیا کہ یہ کوئی پرانی وڈیو ہے جس پر ایف آئی آردرج ہوئی تھی۔ چلیں مان لیا کہ پولیس نے یہ وڈیو سامنے آنے پر عصمت خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی لیکن کیا اُسے اس کیس میں سزا ہوئی تھی؟ اپنی پریس ٹاک میں راولپنڈی کے آر پی او اس معاملے پر بڑے آرام سے مٹی ڈال کر فارغ ہو گئے۔ کیا پولیس کا کام صرف وقتی طور پر لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے ایف آئی آر درج کر کے اسے داخلِ دفتر کرنا ہوتا ہے یا اس کے بعد اس جرم کی تفتیش کر کے مجرم کو سزا دلوانا بھی ہوتا ہے؟ راولپنڈی پولیس کو اُسی وقت الرٹ ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ شخص مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہے‘ جو آج سرعام کلاشنکوف سے راولپنڈی کے بھرے بازار میں فائرنگ کر رہا ہے‘ یہ کسی دن کوئی بڑی واردات کرے گا۔
شاید پولیس نے بھی عوام کی نفسیات کے مطابق اس کو چھوٹا جرم یا چھوٹی برائی سمجھا ہوگا کہ بازار میں ہوائی فائرنگ سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کون سے بندے مارے گئے یا پھر پولیس کی مٹھی گرم کر دی گئی ہو گی یا پھر پولیس کو پتا ہو گا کہ فلاں سیاسی جماعت کے عہدیداروں کا اس پر ہاتھ ہے لہٰذا جانے دو۔ اگر اس شخص کو تبھی عوام میں دہشت پھیلانے کے الزام میں باقاعدہ مقدمہ چلوا کر سزا دلوائی جاتی تو آج وہ ایک لڑکی کی موت کا حکم نہ دے رہا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں چھوٹی بڑی برائی پر یقین نہیں رکھتا۔ چھوٹی برائی صرف مناسب وقت کا انتظار کرتی ہے اور مناسب وقت میسر آنے پر بڑی برائی بن کر پورے معاشرے یا ملک کو بھاری نقصان پہنچاتی ہے۔
اب بھی میڈیا نے اس ایشو کو اٹھایا ہے‘ خصوصاً ایک انگریزی اخبار کے رپورٹرکو داد دینا پڑے گی جنہوں نے بڑی بہادری سے اس سارے معاملے سے پردہ ہٹایا ورنہ پولیس تو اس قتل کو بھی اسی طرح پی جانے لگی تھی جیسے وہ عصمت خان کے کلاشنکوف والی ایف آئی آر کو بھول گئی تھی۔ اب پولیس افسران کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس سن گن تھی کہ اس طرح کوئی قتل ہوا ہے لیکن تب تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ جب تک میڈیا نے اسے نہیں اٹھایا۔ یہ محض فیس سیونگ ہے ورنہ جیسے بقول پولیس افسران کہ یہ خبر اُن تک پہنچ گئی تھی تو کتنی دیر لگنی تھی پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں؟ اب اپنے نمبر ٹانکنے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں پہلے سے پتا تھا۔ پتا تھا تو چار دن انتظار کیوں کیا‘ ملزم کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں عمل میں لائی گئی؟
مقتولہ لڑکی بارے بتایا گیا ہے کہ رواں سال جنوری میں اس کی شادی ہوئی اور چند ماہ بعد طلاق ہو گئی تو اُس نے کشمیر کے ایک نوجوان سے عدالت میں جا کر شادی کر لی۔ جب اُس کے خاندان کو پتا چلا تو یہ آٹھ دس مسلح افراد کشمیر میں اُس لڑکی کے گھر گئے اور لڑکی کو یہ کہہ کر واپس لے آئے کہ ہم تمہیں عزت سے رخصت کریں گے۔ یہ صبح چار بجے پنڈی واپس پہنچے‘ اسی وقت جرگہ ہوا۔ عصمت خان نے فیصلہ دیا کہ اس بچی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس پر پہلے بدترین تشدد کیا گیا پھر اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے مار دیا گیا۔ پھر گھر کی خواتین سے میت کو غسل دلوایا گیا۔ اس کا جنازہ وہیں گھر کے اندر جرگہ کے شرکا نے عصمت خان کی امامت میں پڑھا۔ اُس رات راولپنڈی میں بارش ہو رہی تھی۔ فوراً اس بچی کو ایک بیگ میں ڈال کر رکشہ میں پیر ودھائی قبرستان لے گئے۔ وہاں لاش قبر میں ڈال کر اس کا نشان مٹا ڈالا۔ جب یہ بات باہر نکلی تو حفظ ماتقدم کے طور پر خود ہی چار دن بعد‘ 21 جولائی کو تھانے جا کر ایف آئی آر بھی مقتولہ سدرہ کے خلاف درج کرا دی کہ وہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ اور زیورات لے کر گیارہ جولائی کو گھر سے بھاگ گئی۔ وہی سدرہ جسے وہ 16 جولائی کو قتل کر چکے تھے۔ یہ سب کام ملزم عصمت خان کرا رہا تھا۔
اب ذرا یہ منظر چیک کریں کہ جب سدرہ کی قبر تلاش کرنے کی کوشش ہو رہی تھی تو اس کے سارے مبینہ قاتل قبرستان میں اس کی گمنام قبر بھی خود ڈھونڈ کر دے رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر سوفوکلیز (Sophocles) کا ڈرامہ Oedipus the Kingیاد آیا کہ بادشاہ نے دیوتاؤں سے پوچھا کہ میری ریاست میں عذاب کیوں آرہے ہیں؟ جواب ملا کہ تمہاری ریاست میں ایک بے گناہ کا قتل ہوا ہے۔ قاتل کو ڈھونڈو‘ اسے سزا دو‘ ورنہ عذاب نہیں رکیں گے۔ خدا نے تو سدرہ کے قاتل چھ دن بعد ڈھونڈ کر دے دیے کہ یہ لو۔ اب پولیس ایف آئی آر درج کر کے بھول جائے تو قدرت کو کیا دوش دینا۔
اب آپ کو اندازہ ہوا کہ چھوٹی برائی کیسے بڑی بنتی ہے اور انسانی جان لے لیتی ہے۔ عصمت خان کو پولیس چھوٹی برائی سمجھ کر نظر انداز نہ کرتی‘ اسے کلاشنکوف سے دہشت پھیلانے پر سات برس سزا دے دی جاتی تو وہ سدرہ کے قتل کا حکم جاری نہ کرتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved