ملک بھر میں مختلف دینی جماعتیں اور ادارے ملی اور شرعی اعتبار سے اہم عناوین پر پروگرامز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ ایام میں بہت سی تنظیموں نے حرمت رسولﷺ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنے اپنے دائرہِ کار میں مختلف کانفرنسز کا انعقاد کیا۔ مسلم طلبہ محاذ کے صدر بلال ربانی کیساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں‘ وہ دین وملت کے بہی خواہوں میں شامل ہیں۔ حالیہ ایام میں انہوں نے لاہور میں طلبہ اور نوجوانوں کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں عبدالوارث گل‘ قیصر احمد راجہ‘ ڈاکٹر عمر ریاض عباسی‘ ایڈووکیٹ عبدالرحمن اور طلبہ تنظیموں کے نمائندگان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مجھے بھی اپنے خیالات کو پیش کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح 27 جولائی کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں نومسلم رہنما عبدالوارث گل نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تنظیم اسلامی کے رہنما شجاع الدین شیخ‘ مولانا اللہ وسایا‘ ڈاکٹر فرید پراچہ‘ ڈاکٹر عبدالغفور راشد‘ قیصر احمد راجہ اور دیگر جماعتوں کے رہنمائوں اور نمائندگان نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں حرمت رسولﷺ کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
میں نے ان دونوں تقریبات میں اس بات کو لوگوں کے سامنے رکھاکہ اللہ‘ اس کے رسولﷺ اور شعائر اللہ کی عظمت کا احساس ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے۔ سورۃ الحج کے مطابق شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی غفلت اور لاپروائی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ بعض عاقبت نااندیش لوگ نبی کریمﷺ کی حرمت کا پاس نہیں کرتے اور بے ادبی والا لہجہ اختیار کرتے اور توہین آمیز رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو لگام ڈالنے کیلئے نبی کریمﷺ کی ناموس اور تقدس کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حرمت کا قانون جہاں قرآن وسنت اور سیرت النبیﷺ سے اخذ کیا گیا ہے وہیں یہ قانون فطرتِ انسانی اور عقلِ اجتماعی کیساتھ بھی مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ انسانوں نے ہتکِ عزت کے قوانین اس لیے بنائے کہ انسانوں کی عزتوں پر حملے نہ کیے جا سکیں۔ آج مشرق ومغرب کے تمام دانشور اس قانون کو انسانیت کی حرمت کے تحفظ کیلئے ضروری سمجھتے ہیں اور کوئی بھی شخص اگر کسی کی عزت وناموس پر بلاثبوت حملہ کرتا ہے تو اس کو قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اداروں کی حرمت کیلئے توہینِ عدالت جیسے قوانین بنائے گئے‘ جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو عدلیہ کے فیصلوں پر بغیر وجہ تنقید سے روکا جا سکے۔ چنانچہ دنیا بھر میں توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں اور ان قوانین کی وجہ سے بہت سے سرکش لوگ عدالتی فیصلوں پر نازیبا تبصروں سے گریز کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسانیت اور اداروں کی عزت اور تقدس کے تحفظ کیلئے ہتکِ عزت اور توہینِ عدالت جیسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پیغمبرانِ خدا بالخصوص نبی آخر الزمان حضرت محمد کریمﷺ کی حرمت کے مسئلے پر قانون سازی کو بین الاقوامی سطح پر متنازع بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک‘ جیسے پاکستان میں نبی کریمﷺ کی ناموس کے تحفظ کیلئے 295C کا قانون موجود ہے۔ کئی مرتبہ بعض نام نہاد لبرل عناصر اس قانون پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس قانون کو بسا اوقات ذاتی عداوت اور عناد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی قوانین کا مقصد لوگوں کو اصول‘ ضابطے اور قوانین کا پابند بنانا ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کے مقدمات کی بنیاد میں کسی قسم کی ذاتی رنجش یا شخصی ونظریاتی اختلاف ہو تو ملزم کو اپنا بیانیہ اور مؤقف دینے کا پورا پورا حق ہوتا ہے لیکن اس قسم کے غلط اقدامات کا ردِعمل اس انداز میں نہیں دیا جا سکتا کہ ان قوانین ہی کو ختم کرنے کی بات کی جائے۔ دنیا کے ہر ملک میں قتل وغارت گری کو روکنے کیلئے دفعہ 302 جیسا قانون موجود ہے۔ اگر کسی پر قتل کی جھوٹی ایف آئی آر کٹوائی جائے تو وہ اپنے دفاع کیلئے مقدمہ لڑتا ہے لیکن کبھی کسی نے یہ بات نہیں کی کہ 302 کے قانون ہی کو سرے سے ختم کر دیا جائے لیکن ناموسِ رسالت کے قانون کے حوالے سے کئی مرتبہ ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیںجو کسی بھی طور پر عقل و منطق کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتیں۔
نبی کریمﷺ کی ناموس کے تحفظ کے حوالے سے بنایا جانے والا قانون درحقیقت پاکستان کی نظریاتی اساس اور تشخص کو واضح کرتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت سے متعلقہ قوانین کا تحفظ فقط اہلِ دین اور علماء کرام کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے پوری طرح تیار ہونا چاہیے۔ اس قانون کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس عزم کا اظہار کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ توہینِ رسالت کی ناپاک جسارت کرنے والے لوگ کسی قسم کی رو رعایت کے حقدار نہیں۔ اسی طرح اگر کسی بے گناہ شخص پر ذاتی رنجش کی بنا پر توہینِ رسالت کی تہمت لگائی جاتی ہے تو اس بے گناہ انسان کی قانونی اعتبار سے شنوائی انتہائی ضروری ہے اور ایسے بے گناہوں کی معاونت کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کو ایک پیج پر آنا چاہیے۔ اس عظیم قانون پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا؛ البتہ جو بات ببانگ دہل کہنی چاہیے‘ وہ یہ کہ مجرم سزا کا حقدار ہے اور بے گناہ کے ساتھ زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس اہم ترین مسئلے کے ساتھ ایک اور اہم انسانی المیے پر لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کیلئے ایک اہم پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔27 جولائی کو شیرانوالہ گیٹ میں مولانا احمد علی لاہوری کے ادارے میں فلسطین کے عنوان پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مختلف جماعتوں کے عمائدین اور قائدین شریک ہوئے۔ مولا اجمل قادری کی میزبانی میں ہونے والے اس پروگرام میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
دنیا میں اس وقت فلسطین کا مسئلہ اپنی حساسیت کے اعتبار سے ایک اہم انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے فلسطین کے مسلمانوں کا استحصال جاری وساری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ اور صلاح الدین ایوبی نے القدس کو پنجۂ نصرانیت سے آزادکروا کر اسلامی مملکت کاحصہ بنایا لیکن مادہ پرستی اور دین سے دوری کی وجہ سے جب مسلمان سیاسی مغلوبیت کا شکار ہوئے تو بتدریج ارضِ فلسطین یہودیوں کی چیرہ دستی کا نشانہ بنی اور فلسطینی مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا۔ طویل عرصے سے فلسطینی مسلمان بڑی اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسلم ممالک کی بڑی تعداد اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے اس معاملے پر بے حسی اور غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں وقفے وقفے سے فلسطین کے قضیے کو اجاگر کیا جاتا رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پالیسی سازی کے حوالے سے تاحال کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ فلسطین کے لوگ بنیادی سہولیاتِ زندگی سے بھی محروم ہیں۔ اشیائے خور ونوش‘ ادویات اور علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم فلسطینی ایک عرصے سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے منتظر ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس حوالے سے سفارتی اور خارجہ پالیسی کی سطح پر جو یکجہتی نظر آنی چاہیے‘ تاحال وہ نظر نہیں آ رہی۔ اس مسئلے میں مسلم ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنا چاہیے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں پر ہونے والے ظلم وجبر کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مذکورہ کانفرنسوں کے توسط سے اہم نکات کو اجاگر کیا گیا۔ ان تقریبات میں شرکت کرنیوالے سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ مقررین کی گفتگو سنی اور یوں یہ تقریبات بہت سی قیمتی یادوں کے ہمراہ اختتام پذیر ہوئیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved