دو چار دن پہلے کا ذکر ہے کہ ہم چار پانچ دوست بیٹھے حسبِ معمول اس ملک کے مسائل حل کرنے کا عظیم فریضہ سرانجام دے رہے تھے کہ ایک دوست کہنے لگا: یار! ایمانداری کی بات ہے کہ ہم لوگ ہمہ وقت اعتراض کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم خود کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتے۔ مثلاً میری اپنی یہ حالت ہے کہ روزانہ دو روٹیوں کے ساتھ سالن والا عقدہ ہی حل نہیں کر پاتا۔ اندازہ کریں ہر دوسرے روز کبھی روٹیاں پہلے ختم ہو جاتی ہیں اور پلیٹ میں سالن بچ جاتا ہے اور کبھی آدھی روٹی باقی ہوتی ہے اور سالن ختم ہو جاتا ہے۔ ہم سے تو اس روٹی اور سالن کو برابر کرنا مشکل ہو گیا ہے اور آپ لوگ اس ملک کے بجٹ کی خرابیوں‘ گندم اور چینی کی پیداوار جیسے معاملات میں حکومت کی نالائقیوں پر دانشوری بگھار رہے ہیں۔
ملِک کو اس بات پر شدید تپ چڑھ گئی۔ کہنے لگا: کیا تمہارے پاس اس روٹی اور سالن والے معاملے کو حل کرنے اور ان دونوں اشیائے خورد کو متوازن کرنے کیلئے درجن بھر محکمہ جات و ماہرین از قسم محکمہ منصوبہ بندی(پلاننگ)‘ شماریات‘ فوڈ سکیورٹی‘ ریسرچ‘ زراعت‘ تحقیقاتی ادارے اور ماہرین و کنسلٹنٹ وغیرہ ہیں جو تم اپنا رونا رو رہے ہو؟ ہمارا وہ دوست کہنے لگا: یقینا میرے پاس حکومتی اداروں اور ماہرین جیسی سہولتیں اور انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ ملک کہنے لگا: یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ تمہارا روٹی اور سالن والا معاملہ تو چلو اس لیے خراب ہے کہ تمہارے پاس پلاننگ‘ شماریات‘ زراعت‘ ریسرچ اور تحقیقی اداروں جیسی سہولت میسر نہیں ہے لیکن جن کو میسر ہے وہ بھلا کیا توپ چلا رہے ہیں؟ ان کا معاملہ بھی ہماری طرح بلکہ ہم سے بھی زیادہ خراب و خستہ ہے۔ ان کے سارے منصوبے‘ ارادے اور ہدف اسی طرح بیکار جا رہے ہیں جس طرح تمہارے۔ تو پھر ان کے ان سارے اداروں‘ محکموں اور ماہرین کا کیا جواز بنتا ہے؟ اگر حکومت کے سارے معاملات بھی اسی طرح خراب چلنے ہیں جس طرح تمہارا روٹی اور سالن والا معاملہ تو بندۂ خدا آخر ہم ان تمام محکموں‘ اداروں اور ماہرین ٹائپ نالائقوں کا بوجھ کیوں اٹھاتے ہیں؟ اگر معاملات اللہ توکل ہی چلنے ہیں تو پھر اسے مکمل طور پر اللہ توکل چلائیں۔ محکموں‘ اداروں اور ماہرین کی چھٹی کروائیں۔ کم از کم جو نقصان ہوگا اس کو اٹھانے پر تو خرچہ نہیں ہوگا۔ اب عالم یہ ہے کہ قوم غلط فیصلوں‘ الٹے سیدھے منصوبوں اور ناقص منصوبہ بندی پر مامور اداروں‘ محکموں اور ماہرین کا خرچہ بھی اٹھا رہی ہے اور نتیجہ بھی خرابی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل رہا۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ سارا کھڑاک نہ بھی ہو تو نتیجہ تقریباً اسی قسم کا نکلے گا تو پھر ہم اس سارے بھنگڑ خانے سے نجات کیوں حاصل نہیں کر لیتے؟ جو نقصان ہونا ہے وہ تو ہوگا لیکن کم از کم اس نقصان کی منصوبہ بندی کرنے والے اداروں‘ محکموں اور افسروں سے تو جان چھوٹے گی۔ ان کوپالنے پوسنے کا خرچہ تو بچے گا۔
آپ دیکھیں اس ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے‘ جب سے اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے چینی کی صنعت اور کاروبار سے وابستہ ہوئے ہیں یا یہ کہہ لیں کہ جب سے چینی کی صنعت اور کاروبار سے وابستہ لوگ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے ہیں‘ ہر سال پہلے چینی زیادہ ہو جاتی ہے اور پھر کم پڑ جاتی ہے۔ پہلے برآمد کر دی جاتی ہے اور پھر درآمد کی جاتی ہے۔ پہلے قلت پیدا کرکے بلیک کی جاتی ہے پھر امپورٹ کرکے کھانچہ لگایا جاتا ہے۔ ہر دو صورت میں عوام کی جیب کاٹ کر مل مالک اورامپورٹر(جو دراصل ایک ہی ہیں) کا موج میلہ کرایا جاتا ہے۔ اب تک اس ملک کے محکمہ منصوبہ بندی کو اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی کرنی نہیں آئی۔ محکمہ شماریات کو آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ ملک میں چینی کی کھپت کتنی ہے‘ پیداوار کیا ہوئی ہے‘ فی کس چینی کا استعمال کتنا ہے اور طلب و رسد کے درمیان کیا نسبت ہے‘ بلکہ ابھی تک اس محکمے کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اس ملک کی حقیقی آبادی کتنی ہے۔
اس ملک کے محکمہ فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کو یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس ملک میں گنے کی فصل نے زراعت کے حقیقی اہداف کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور گنا دراصل ہمارے موسم اور علاقے‘ خاص طور پر پنجاب کیلئے کسی صورت میں مناسب اور قابلِ کاشت فصل نہیں ہے۔ سب سے مناسب طریقہ تو یہی ہے کہ جنوبی امریکہ کے استوائی خطے میں پیدا ہونے والی خام چینی درآمد کرکے ملک میں اسے Raw sugarسے Refined sugarمیں تبدیل کرکے استعمال کیا جائے۔ اس سے نہ صرف عوام کو سستی چینی میسر آئے گی بلکہ اس ملک کا وہ رقبہ جو گنے کی فصل کے زیرِ کاشت ہے اورجو پانی یہ فصل پی رہی ہے وہ کسی دوسری مناسب فصل کے کام آ سکے گا اور اس ایک سال کی فصل سے جو پنجاب میں محض 8.5 فیصد اور سندھ میں 10 فیصد کے لگ بھگ ریکوری دیتی ہے‘ سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ برازیل اور جنوبی امریکہ کے کئی دیگر استوائی ممالک میں گنے سے چینی کے حصول کی شرح فیصد 14 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
کسی زمانے میں اس ملک میں گنے کی کاشت کیلئے علاقے مختص تھے اور اس علاقے میں منظور ہو کر لگنے والی شوگر ملز اپنے زون سے باہر کا گنا نہیں خرید سکتی تھیں۔ پھر جب چینی کی صنعت اور کاروبار نوٹ چھاپنے والا کام بن گئے تو اس کے مالکان سیاست میں آ گئے یا سیاستدان اس کاروبار میں آ گئے۔ تاہم نتیجہ یہ نکلا کہ اس صنعت اور کاروبار کو ایوانِ اقتدار کا سہارا مل گیا اور حکومت عوام کے بجائے ملز مالکان کی سرپرست بن گئی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
بعض قارئین کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بند ذہن اور محدود سوچ دی ہے کہ وہ آج کل کی حکومت پر تنقید کرنے والے ہر شخص کو یوتھیا قرار دے کر اس کے جائز استدلال کو بھی سیاسی خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے تنقید تو آج پر ہی ہو گی۔ کل والوں پر ان کے دور میں تنقید کی جا چکی ہوتی ہے۔ اب تیرہ‘ چودہ سو الفاظ کے ہر کالم میں ہمہ وقت کسی مسئلے کی ساری تاریخ بیان کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے۔ یہ خرابی گزشتہ چار پانچ عشرے پرانی ہے اور ہر دور میں اس پر تنقید ہوتی رہی ہے تاہم آج 2025ء میں گزشتہ سے پیوستہ سالوں کی خرابیوں کو ہر کالم میں تنقید کا نشانہ بنانے کی فرمائش سوائے کم عقلی اور تعصب کے اور کچھ نہیں۔ کالم بہرحال پی ایچ ڈی کا تھیسس نہیں ہوتا کہ اسے ہر بار ابتدائے آفرینش سے شروع کیا جائے۔ پی ٹی آئی کو بہر حال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنے حامیوں اور مخالفوں کو برابر کا ذہنی مریض بنا دیا ہے۔
پہلے کہا گیا کہ اس ملک میں چینی فالتو ہے لہٰذا اسے برآمد کر دیا جائے۔ اس برآمد کے چکر میں شوگر ملوں نے حکومت سے زر مبادلہ حاصل کرنے کی خوشخبری کے عوض ایکسپورٹ ڈیوٹی میں رعایت اور قیمت میں سبسڈی لے لی۔ پھر اس برآمد کے نتیجے میں ملک میں چینی کی طلب کے پیش نظر کمی کا ڈرامہ کھیل کر چینی کی قیمت بڑھا دی اور اپنا منافع کئی گنا زیادہ کر لیا۔ جب منافع کمانے سے تھوڑی فرصت ملی تو پھر ملک میں چینی کی کمی اور مارکیٹ میں اس کی طلب کو جواز بنا کر دوبارہ چینی درآمد کرنے کا ڈرامہ تشکیل دیا جاتا ہے اور اس درآمد میں بھی ڈیوٹی اور ٹیکسز سے معافی یا رعایت لے کر سستی چینی درآمد کرکے تیسری بار عوام کی جیب کاٹی جاتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ہر عوامی مفادوالی رعایت کو آئی ایم ایف کی ہدایت کہہ کر حکومت اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے ختم کر دیتی ہے مگر چینی والے معاملے میں حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی۔
ملک کہنے لگا ایک پنجابی کہاوت ہے ''سو گز رسہ‘ سِرے تے گنڈھ‘‘ جب چور اور چوکیدار مل جائیں تو مخلوقِ خدا کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved