ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کے درمیان چینی کی خرید و فروخت کا تنازع ختم نہیں ہو سکا ہے‘ جس کے باعث‘ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ روز بازار میں چینی کی سپلائی معطل رہی۔ شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے ایک رہنما نے بتایا کہ شوگر ملز مالکان نے وزارت سے مل کر چینی برآمد کرا دی‘ اربوں روپے کا منافع شوگر ملز مالکان ہڑپ کر گئے‘ اب چینی کا بحران پیدا ہوا ہے تو ذمہ دار شوگر ڈیلرز کو قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے اور ریٹیل قیمت 173 روپے مقرر کرنے کے باوجود عوام کو سستی چینی میسر نہیں۔ لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی سمیت کئی شہروں میں چینی نایاب ہو چکی‘ جہاں چینی دستیاب ہے وہاں اس کی قیمت 200روپے فی کلو تک ہے بلکہ کچھ جگہوں پر دو سو روپے فی کلو گرام سے بھی زیادہ میں فروخت ہو رہی ہے۔
ادھر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ملک میں چینی کے بحران اور چینی کی قیمتوں میں بے لگام اضافے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو چینی مہنگے داموں بیچی جا رہی ہے جبکہ شوگر ملز نے چینی بیرونِ ملک برآمد کر دی تھی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک سال میں 67 شوگر ملز مالکان نے 112 ارب روپے مالیت کی 74 کروڑ کلو گرام چینی برآمد کی۔ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے بتایا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سختی سے نگرانی ہو رہی ہے اور امید ہے کہ ایک دو روز میں چینی کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی پیش کی کہ چینی کے پچھلے سیزن میں پیداوار 68 لاکھ ٹن کے قریب تھی‘ جو مقامی استعمال کے لیے کافی تھی اور ملک کے پاس ایک بڑا سرپلس تھا جس کی بنیاد پر برآمد کی اجازت دی گئی۔ اب ان سے کون پوچھے کہ وہ سرپلس کہاں ہے؟ وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے یہ کہہ کر ساری ''گَل‘‘ ہی ''مُکا‘‘ دی ہے کہ چینی کی قیمتوں اور دستیابی کے حوالے سے ایسی صورتِ حال نہیں جیسی بیان کی جاتی ہے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ لوگوں کو اگر عملی طور پر چینی مناسب ریٹ پر نہیں مل رہی تو یہ ان کا وہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ دکانداروں کے پاس سٹاک ہوتا ہے مگر وہ سپلائی کے خدشات کی وجہ سے مال باہر نہیں لاتے۔ اب ان سے بھی کون پوچھے کہ مقررہ نرخوں پر سپلائی نہ مل رہی ہو تو دکاندار موجود سٹاک کو کم قیمت پر کیسے فروخت کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ کہنے سننے اور پوچھنے والا زمانہ اب رہا نہیں۔ کوئی کسی سے کچھ نہیں پوچھ سکتا کہ اس نے کب اور کہاں کیا کیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا یہ بات پوری طرح مان لینے کا وقت اور زمانہ آ گیا ہے کہ ہاتھی دیوار پر چڑھ سکتا ہے اور اُڑتا بھی ہے؟ کل ہی خبر آئی تھی کہ حکومت نے شوگر سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ حکومت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پاس ایک ماہ کی کھپت کا بفر سٹاک رکھے گی باقی عوام جانیں‘ شوگر مل مالکان جانیں‘ ڈیمانڈ اور سپلائی کا قانون جانے اور ذخیرہ اندوز و منافع خور جانیں۔ بجلی ڈی ریگولیٹ‘ چینی ڈی ریگولیٹ‘ زرعی اجناس ڈی ریگولیٹ تو کیا احتساب کا عمل بھی ڈی ریگولیٹ کر دینا چاہیے‘ عوام خود ہی حساب لے لیں کہ کس نے کب اور کیا کیا؟
اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ جب بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند فیصلے کیے جائیں تو نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں حکومتی سطح پر بہت سے فیصلے بغیر سوچے سمجھے‘ اور بغیر نتائج و عواقب کو سامنے رکھے کیے جاتے رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ کئی بار قانون سازی کس طرح منٹوں میں بغیر مسودہ پڑھے ووٹ دے اور لے کر کی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک 78 برسوں میں اتنی ترقی نہیں کر سکا جتنی اسے کرنا چاہیے تھی۔ اب اس بات پر یہ گنوایا جائے گا کہ قیامِ پاکستان کے وقت فی کس آمدنی اور عوام کو دستیاب سہولتیں دیکھیں اور آج کی ترقی ملاحظہ فرمائیں۔ درست! لیکن میرے خیال میں مانگے تانگے کی ترقی کو ترقی نہیں ترقیٔ معکوس کہا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم نے کچھ ترقی کی‘ لیکن کیا یہ ترقی ملک پر واجب الادا قرضوں جتنی ہے؟ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ ترقی ملک پر واجب الادا قرضوں جتنی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اس سارے عرصے میں ملک جو ترقی کرتا رہا‘ عوام اپنی محنت سے جو کاوشیں کرتے رہے اس کے ثمرات کہاں ہیں؟ اس ترقی‘ اس محنت اور ان عوامی کاوشوں کو اگر مادی وسائل میں تبدیل کیا جائے تو ان وسائل کی ویلیو کیا بنتی ہے اور وہ وسائل اب کہاں ہیں؟
اسے انتظام کاری تو کسی طور نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں کبھی چینی کی قلت پیدا ہو جائے اور کبھی لوگ آٹے کے لیے دوڑتے رہیں‘ کبھی پیاز دستیاب نہ ہوں اور کبھی ٹماٹر عام آدمی کی پہنچ سے اتنے دور ہو جائیں کہ ہنڈیا میں ڈالنے کے لیے بھی میسر نہ ہو سکیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے جب یہ کہا تھا کہ وہ اس لیے سیاست میں نہیں آئے کہ یہ جان سکیں کہ آلو کی قیمت کیا ہے اور ٹماٹر کی قیمت کیا ہے‘ تو اس پر بڑی لے دے ہوئی تھی اور ان کے اس بیان کو اپوزیشن کی جانب سے اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب موجودہ اربابِ بست و کشاد کو بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا بیت رہی ہے؟ ان کے حقوق پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ ان کو دو وقت کی روٹی میسر ہے یا نہیں؟ ان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں یا نہیں؟ کیوں ان لوگوں کو سامنے نہیں لایا جاتا جنہوں نے یقین دہانیاں کرائی تھیں کہ چینی برآمد کرنے دیں‘ قیمت زیادہ نہیں ہونے دیں گے؟ کیوں انہیں ذمہ دار ٹھہرا کر بحران پر قابو پانے کے لیے آگے نہیں کیا جاتا؟ کیوں عوام کو ہر معاملے‘ ہر بات اور ہر ایشو پر ترسایا جاتا ہے‘ ان کی برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو ان سے کوئی غرض نہیں ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ہر بندے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے جس میں انسٹالد ایپس پل پل کی خبریں دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا ہے جس کی نظروں سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ الیکٹرانک میڈیا بھی عوام کی تعلیم اور ان کے شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے بعد پرنٹ میڈیا اگلے روز تفصیلی رپورٹیں شائع کرتا ہے جن کو پڑھ کر سب کو پوری طرح علم ہو جاتا ہے کہ کیا ہوا تھا‘ کس نے کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔ علم‘ خبر‘ آگہی اور معلومات کے اتنے میڈیمز کے ہوتے ہوئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس کی جانب سے پیش کردہ بے بنیاد جواز عوام آسانی سے ہضم کر لیں گے تو بتاتا چلوں کہ شاید اب یہ مشکل ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا‘ بارِ دگر عرض ہے کہ ایک چوراہے پر ہیلمٹ نہ پہننے والا یا وَن وے کی خلاف ورزی کرنے والاکیوں دھر لیا جاتا ہے اور اربوں روپے ڈکار جانے والے کیسے بچ جاتے ہیں؟ ہر ماہ باقاعدگی سے بجلی‘ گیس اور پانی کے بل ادا کرنے والے عام صارف کو ایک ماہ کسی وجہ سے بل ادا نہ کرنے پر Disconnection کا نوٹس کیوں آ جاتا ہے اور لاکھوں‘ کروڑوں کے نادہندگان مہینوں بلکہ برسوں بلاتعطل ان ساری سہولتوں سے کیسے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں؟ عوام آج کل بس یہی سوچنے میں مصروف ہیں۔ چینی جیسی عام استعمال کی میٹھی چیز کو بھی کڑوا کر دیا گیا ہے‘ حیرت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved