امریکی صدر ٹرمپ کی یکے بعد دیگرے بھارت کے بارے کی گئی سوشل میڈیا پوسٹوں نے بھارتیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ کیا ہو گیا۔ پورے بھارت میں حیرانی کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی ہے کہ آخر صدر ٹرمپ پر پاکستان نے کون سا جادو کر دیا ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم مودی کی ساکھ کو مسلسل خراب کر رہے ہیں لیکن پاکستان‘ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں لنچ پر بلایا گیا اور اب ہر جگہ امریکی صدر ان کی تعریفیں کر رہا ہے۔ ابھی بھارت صدر ٹرمپ کی پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے بارے تعریفوں کے غم سے ہی نکل نہیں پایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اب بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے‘ اور ساتھ روس سے اسلحہ اور تیل خریدنے پر جرمانہ عائد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
بھارت پر ٹیرف عائد کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ ٹریڈ ڈیل کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں تیل کی پیداوار کے حوالے سے امریکی تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کیلئے ایک مشترکہ کمپنی بنائی جائے گی۔ اس موقع پر انہوں نے بھارت کے زخموں پر مزید نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ کیا پتا کسی روز بھارت پاکستان سے تیل خرید رہا ہو۔ بھارت اب تک تو کوشش کر رہا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کو جواب نہ دے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان میں جنگ بندی کرائی تھی۔ اگرچہ بی جے پی حکومت کے ارکان یا وزرا اس سے انکاری ہیں لیکن وزیراعظم مودی نے اب تک اپنے منہ سے ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔ لیکن اب جب ٹرمپ نے بھارت کو اتنا بڑا جھٹکا دیا ہے تو نریندر مودی کب چپ رہیں گے۔ معاشی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی صدر کے ان غیر معمولی اعلانات کے بعد بھارتی کرنسی پر دباؤ بڑھے گا اور ڈالر کے مقابلے میں بھارتی کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ کمی ہو گی‘ جس کا مطلب ہے کہ بھارت میں آنے والے دنوں میں درآمدات مہنگی ہوں گی جس سے وہاں مہنگائی بڑھے گی اور دھیرے دھیرے عوام مودی کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ بھارت‘ سعودی عرب اور روس سے تیل منگواتا ہے‘ کرنسی کی قدر کم ہونے سے اسے وہ تیل بھی مہنگا ملے گا۔
بھارت نے جب سے اپنی اَنا یا غرور میں صدر ٹرمپ کے پاک بھارت جنگ بندی میں ادا کیے گئے کردار سے انکار کرنا شروع کیا‘ تب سے نریندر مودی اور صدر ٹرمپ کے مابین ایک سرد مہری آنا شروع ہو گئی تھی۔ بھارت یہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ پوری دنیا کے سامنے یہ بات کرے کہ جنگ بندی اس نے کرائی ہے اور یوں لگے کہ امریکہ کبھی بھی بھارت کو ایک فون کر کے گھٹنوں پر لا سکتا ہے۔ اب تک بھارتی سیاستدان اور ان کا میڈیا پاکستان کو طعنے دیتے تھے کہ اسلام آباد واشنگٹن سے آئے ایک فون پر ڈھیر ہو جاتا ہے جبکہ بھارت کو جھکانے کی کسی کو جرأت نہیں۔ بھارت کی دنیا کو ضرورت ہے‘ نہ کہ بھارت کو دنیا کی۔ یوں بھارت اور بھارتیوں کے اندر ایک عجیب سا تکبر بھر گیا تھا‘ جو نریندر مودی کے دورِ حکومت میں مزید ابھر کر سامنے آنا شروع ہوا اور عوام نے یہ نعرہ لگا دیا کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد مودی نے یہاں تک کہا کہ دنیا جان لے کہ اب بھارت کا وزیراعظم کوئی عام بندہ نہیں بلکہ چھپن انچ کی چھاتی رکھنے والا مودی ہے۔ یہ پہلا لیڈر تھا جو اپنی چھاتی کی لمبائی عوام کو بتا کر اپنی بہادری کی مثال دے رہا تھا۔ شاید اس کا مطلب منموہن سنگھ اور کانگریس کا امیج خراب کرنا تھا کیونکہ منموہن سنگھ کو ایک ٹیکنو کریٹ اور سافٹ وزیراعظم سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ منموہن سنگھ کو جدید بھارتی اکانومی کا گاڈ فادر سمجھا جاتا ہے‘ جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں کانگریس کے وزیراعظم نرسہما راؤ کے دور میں وزیر بن کر جو معاشی اصلاحات متعارف کرائی تھیں ان کی بدولت بھارت آج ایک بڑی معیشت بن چکا ہے۔ ایسا ملک جس کے پاس ساٹھ کروڑ سے زیادہ کی مڈل کلاس ہے‘ جو معاشی گروتھ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسکے بعد مودی نے بھارتیوں کو یہ نعرہ دیا کہ اگر بھارت ماتا کو عظیم بنانا ہے یا قدیم ہندو سلطنت کو بحال کرنا ہے تو پھر مودی کا حکومت میں رہنا ضروری ہے کیونکہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ اس طرح مودی کو Larger than life شخصیت بنا کر پیش کرنے کا کام شروع ہوا۔ مودی نے ہر بھارتی کو یقین دلا دیا کہ وہ چین سے بھی ٹکر لے گا اور جو کام وزیراعظم نہرو 1962ء میں نہ کر سکے اور چین کو بھارتی علاقہ دے بیٹھے تھے‘ مودی آئندہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔ بھارت پاکستان کو گھس کر مارے گا۔ دنیا اب ہمارے پاس آئیگی کیونکہ ہمارے پاس بزنس ہے‘ سب سے بڑی مڈل کلاس ہے اور معاشی وفوجی طاقت ہے۔ مودی نے پاپولسٹ لیڈر کا راستہ لیا کہ عوام کو ایسے خواب دکھاؤ کہ وہ خود کو بھگوان سمجھیں۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیخلاف نفرت کو عروج پر پہنچا کر مودی نے ایک ایسی ٹیم بنائی کہ لگتا تھا اب دنیا تین لوگ چلائیں گے‘ بھارتی وزیراعظم مودی‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر۔ ان تینوں نے بھارتیوں کے اندر ایسی ہوا بھری کہ لوگ انہیں بھارت کا مسیحا سمجھنے لگے۔
مودی کے دورِ حکومت میں یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ دنیا کا ہر ملک بھارت سے کاروبار کرنا چاہتا اور یہاں سرمایہ کاری کا خواہشمند ہے کیونکہ بھارت کے پاس خریدار اور ڈالرز ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں پاکستان ان کے نزدیک چیونٹی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ سوشل میڈیا پر ہر بھارتی پاکستان کا مذاق اڑاتا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ ہمارے بھارتی دوست اکثر غرور وتکبر سے کہتے کہ چھوڑو یار! ہم لوگوں سے اب تمہارا کوئی مقابلہ نہیں۔ اب ہماری ٹکر چین اور باقی دنیا سے ہے۔ ان کے اندر مودی اور ان کے بھگت جو ہوا بھرتے گئے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے عوام کو خوش کرنے کیلئے مودی اب صدر ٹرمپ سے ٹکر لے بیٹھا ہے۔ اگر مودی کا وزیر خارجہ یہ کہہ دیتا کہ جی ہاں ٹرمپ انتظامیہ کا پاک بھارت جنگ بندی میں کردار ہے تو کون سا آسمان گر پڑتا؟ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کا کردار تسلیم کیا تو ہمارے ہاں کون سا آسمان ٹوٹ پڑا۔ کیا کوئی پاکستانی اس وقت شہباز شریف سے جنگ بندی میں صدر ٹرمپ کے کردار کا ذکر کرنے پر ناراض ہے؟ پاکستانی عوام نے تو اسے اچھا سمجھا کہ صدر ٹرمپ نے دو ملکوں کے درمیان جنگ رکوا دی‘ لیکن بھارت میں اس کے الٹ ہوا۔ وہاں پاپولسٹ لیڈر مودی نے گیارہ برسوں میں اپنے فالوورز کو اتنے اونچے بانس پر بٹھا دیا ہے کہ وہ یہ سن ہی نہیں سکتے کہ مودی کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگ بند کرو اور اس نے فوراً حکم کی تعمیل کر دی۔ بھارتی عوام سمجھتے ہیں کہ مودی کا بھارت اتنا عظیم ملک ہے جس کے سامنے صدر ٹرمپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی المیہ ہوتا ہے جب پاپولسٹ لیڈر اپنے عوام کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے جس سے ملک اور جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے۔ پاپولسٹ لیڈر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اسے عظیم بنانے کا خواب دکھاتا ہے اور جعلی عظمت کی وہ کہانیاں گھڑ لیتا ہے کہ اس کے فالوورز تصور ہی نہیں کر سکتے کہ ان کے لیڈر کو کوئی نیچا بھی دکھا سکتا ہے۔
اس وقت بھارت شدید مشکل میں آ گیا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو پہلی دفعہ بڑا جھٹکا دیا ہے کہ جاؤ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں‘ ہم چین سے خود ڈیل کر لیں گے۔ آپ چین کے نام پر ہمیں بلیک میل نہ کرو‘ لیکن مودی کے فالوورز کو یقین ہے کہ ان کا وزیراعظم اتنا مہان ہے کہ بہت جلد صدر ٹرمپ اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر ان سے معافی مانگے گا۔ اگر یقین نہیں آتا تو ٹویٹر (ایکس) پر جا کر ٹویٹس پڑھ لیں جہاں مودی کے بھگت تکبر سے پوچھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کب معافی مانگے گا‘ ہمارے چھپن انچ چھاتی والے مودی سے۔ یہ ہے پاپولسٹ لیڈر کا سحر کہ اس کے فالوورز اسے انسان نہیں بھگوان سمجھ لیتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved